[ad_1]
ساری دوپہر تیز دھوپ کے بعد، رات موسم ذرا خوش گوار ہوگیا تھا۔ یہی کوئی بارہ گیارہ بج رہے تھے، نارتھ ناظم آباد کی شاہراہ نور جہاں پر ٹریفک نہ ہونے کے برابر تھا۔ بجلی حسب روایت گئی ہوئی تھی۔ اصغر علی شاہ کرکٹ اسٹیڈیم سے ذرا پہلے بائیک کی دھیمی روشنی میں مٹی کا ڈھیر پڑا نظر آ رہا تھا جو بظاہر اتنا اونچا نہ تھا۔ اس نے سوچا کہ سڑک کے ارد گرد کام ہو رہا ہوگا لہٰذا اس ڈھیر سے بچ کر گزرنا ہے، بریک لگانے کی کوشش کی پر اس ڈھیر کے نزدیک پہنچتے ہی بائیک اچھل کر اس گہرے گڑھے میں گرتی ہی چلی گئی۔
’’یہ کیا ہو رہا ہے، بائیک گرتی ہی کیوں جا رہی ہے؟‘‘ دل میں خوف سے خیال ابھرا۔ اور پھر بائیک سولہ سترہ (اندازاً اس سے گہرا بھی ہو سکتا ہے) فٹ گہرے گڑھے کی تہہ سے ٹکرائی۔ اس کے گرنے سے پہلے ہی بائیک پر پیچھے بیٹھی خاتون اڑتی ہوئی گڑھے میں گر چکی تھیں۔ ان کے درمیان بیٹھی سات آٹھ سالہ بچی بھی انھی کے ساتھ گر چکی تھی، ان کا سرگڑھے کی دیوار سے لگا لیکن قدرت نے سر محفوظ رکھا،
جب کہ خاتون سجدے کی حالت میں زمین میں لگے موٹے پانی کے کلپ (پانی کے بڑے پائپ میں لگے لوہے کے شکنجے) سے ٹکرائیں۔ کچھ دیر کسی کو خبر ہی نہ ہوئی کہ ہوا کیا ہے۔ گڑھے میں پانی اور مٹی کی کیچڑ بھی تھی۔ بچی خوف سے کانپ رہی تھی، وہ چلا رہی تھی ، تب ہی ماں باپ اس کی بلند چیخوں سے اپنے حواسوں میں آئے، خاتون اپنی بچی کی آواز پر دیوانہ وار اس کی جانب بڑھیں اور بچی ماں کا لہو لہان چہرہ دیکھ کر خوف سے چیخ اٹھی تھی۔
باہر شاید کسی کو شک گزرا تھا یا اندر سے چیخوں کی آوازیں سن کر کسی نے ان پر ٹارچ سے روشنی ڈالی اور پکار کرکہا، تب ہی لوگ دوڑے آئے۔ اس قدر آبادی کی جگہ بڑا روڈ اور ستم ظریفی کہ بغیرکسی حفاظتی باڑھ کے عظیم ذمہ داران نے اسے یوں ہی موت کا کنواں بنا کر چھوڑ دیا۔ہم اہل کراچی اپنے ذمے داران محکمات کے خلاف کیس درج کرتے ہیں۔
کیس درج۔۔۔۔
نارتھ کراچی، نزد ناگن چورنگی وہ نوجوان رات کو اپنی ڈیوٹی نبھا کر چلا آ رہا تھا، نہ جانے اس کے دل میں کیا خیالات تھے،کیا جوش کیا جذبات، زندگی کی روانی میں بہتا اپنے گھر والوں کی ضروریات زندگی پورا کرنے کا عزم لیے کہ راہ میں محکمانہ کارروائیوں کے تحت گڑھا کھلا پڑا تھا۔ سو فی صد اس نوجوان کی غلطی ہی ہوگی کہ خود بہ خود اندھے کنوئیں میں غفلت برتتے گرگیا، ساتھ کوئی نہ تھا۔ نہ جانے کب تک گرا رہا، اتنے میں لوگ مدد کو پہنچے، تب تک وہ زیادہ خون بہہ جانے کے باعث اپنے مالک حقیقی تک پہنچ گیا۔ وہ نوجوان اب اس دنیا میں نہیں ہے کہ بتا سکے کہ اس کے ساتھ کیا معاملہ درپیش آیا تھا۔ غفلت کہہ لیں پر ایسے موت کے کھلے کنوئیں بنا روک ٹوک کے اہل کراچی کی برداشت سے باہر ہیں۔ ہم ذمے داران محکموں کے خلاف کیس درج کرتے ہیں۔ کیس درج۔۔۔۔۔
یہ اسکرپٹ یقینا پڑھنے والوں کے لیے متاثر کن ہوگا۔ پر ذرا سوچیے کہ جن دلوں پرگزری ہے، انھوں نے کیا کیا نہیں سہا ہوگا۔ دکھ، تکلیف،خوف، اذیت اور مالی مسائل کا بوجھ۔ کبھی ہم نے سوچا بھی ہے کہ سڑک پر گزرتے، چلتے پھرتے کتنے لوگ ہمارے ذمے دار محکمے کی غفلت کا شکار بن کر بنا کسی تھانہ پولیس کے اپنی پریشانیوں، زندگی کی بے ترتیبی کو سمیٹنے میں مصروف ہو جاتے ہیں،کیونکہ وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ ان کے سامنے غیر ذمے داروں کا رش ہے، جو ان کو اپنی غفلتوں کے ٹوکرے میں قید کرنے کے لیے ہمہ تن گوش ہیں۔
وہ خوب جانتے ہیں کہ غریب، مسائل میں گھری، الجھی، مہنگائی کا شکار عوام اپنے حق کے لیے کر ہی کیا سکتی ہے۔یہ دو معمولی سے واقعات کم و بیش ایک ہی جیسے ہیں، بس فرق یہ ہے کہہ ایک جان سے گیا اور ایک دوا اور علاج کے ساتھ اپنے کنبے کو سمیٹنے سنبھالنے میں جتا ہے۔ شاہراہ نور جہاں اور ناگن چورنگی دونوں ملک کے کسی دور دراز علاقوں میں نہیں بلکہ کراچی کی مصروف شاہراہوں پر اس قسم کے حادثات۔۔۔ کیا ہمارے اداروں کی غفلت کا منہ بولتا ثبوت نہیں ہیں؟ ابھی اخبار کھولیے اور آج کی تاریخ میں کھوجیے آپ کو اسی طرح کے بے شمار چھوٹے بڑے واقعات نظر آئیں گے۔
جیسے اس مہینے کے پہلے ہفتے کی جھلکیاں پریشان کن تھیں۔ ہم جانتے ہیں کہ آج سے پہلے بھی چاہے پانی اور سیوریج کا محکمہ ہو، بجلی یا گیس یا اسی طرح کے کسی بھی ادارے کی غفلت سے جو بھی کوئی حادثہ ہوا، اس کے تدارک کو تو چھوڑیے، متاثرین کی داد رسی ہوئی؟ اور اگر ہوئی تو کیا اس نقصان ، علاج معالجے کے لیے کوئی ادائیگی کی گئی؟ کبھی کوئی مقدمہ مظلوم عوام نے اپنے ذمے داران محکمات کے خلاف جیتا؟ کیا ہم بہ حیثیت ایک قوم اس بات کا اختیار نہیں رکھتے کہ ان تمام ذمے داران کو عدالت کے کٹہرے میں کھڑا کرکے ان سے باز پرس کریں؟ ان پر جرمانہ کریں، یا ٹھیکے دار، ایجنٹ یا کسی مافیا کے سپرد کرکے خود اصل اپنا نقل چھوڑکر اپنی جیبیں گرم کرکے بڑی گاڑیوں میں گھومتے پھر رہے ہیں تو تلاش دراصل کس کی ہے؟
ہم بہت ذہین، کھلے دل، مہربان، دوست قوم ہیں۔ ہم ہر پچھلے غم، زخم کو بھول کر آگے بڑھ کر گلے لگانے والوں میں سے ہیں۔ پر ہم یہ نہ بھولیں کہ کیس درج نہیں ہوتے۔ کیس ضرور درج ہوتے ہیں، ہماری شہری عدالتوں میں نہیں بلکہ اس بڑی عدالت میں جب ہم سب خالی ہاتھ کھڑے ہوں گے، ہماری فائلز پر کسی غلطی اور چیٹنگ کا احتمال نہ ہوگا، اس عدالت میں کیس پیش ہوگا ۔ فی الحال کیس درج کیا جاتا ہے۔ امید ہے کہ یہاں سوچ ہی لیا جائے،کیس درج۔۔۔۔
[ad_2]
Source link