28

عوام کی فلاح و بہبود کو مقدم رکھا جائے

[ad_1]

مجھے صوبہ سندھ کے سرکاری نظام کو زیادہ قریب سے دیکھنے اور پرکھنے کا موقع ملا ہے، ہر فساد یا انتشار کی جڑ آکاس بیل کی طرح بڑھتی ہوئی کرپشن ہے۔ جسے کنٹرول کرنا اب ناممکن نظر آتا ہے کیونکہ پورا معاشرہ، وہ چاہے سرکاری سیکٹر ہو یا پرائیویٹ سیکٹر، کرپشن کی دلدل میں دھنس چکا ہے۔

سندھ کے سرکاری محکموں میں اس وقت افراتفری کا عالم ہے لیکن یہ افراتفری کا عالم ان سرکاری افسران میں اس لیے نہیں ہے کہ انہیں یہ فکر ہو کہ عوام کی فلاح و بہبود کے کام نہیں ہو پا رہے بلکہ ان سب کو جو کسی بھی’’منافع بخش‘‘ پوزیشن پر نوکری کر رہے ہیں، صبح و شام صرف یہی فکر کھائے جاتی ہے کہ کسی بھِی لمحے اس کا تبادلہ نہ ہو جائے، جس کے لیے وہ اپنی کرسی بچانے کے لیے نہ صرف حکومتی عہدیداروں کے سامنے ہاتھ باندھے کھڑے رہتے ہیں بلکہ ان کا ہر ناجائز کام کرنے پر ہمہ وقت تیار رہتے ہیں اور اپنی ’’نیک کمائی‘‘ سے ان کی خدمت بھی کرتے رہتے ہیں۔

عموماً عوام صرف پولیس کو ہی کرپٹ گردانتی ہے لیکن سندھ کا کوئی ایک محکمہ بتائیں جہاں رشوت دیے بنا کام کروایا جا سکے۔ حال ہی میں ایک بہت بڑا اسکینڈل سامنے آیا ہے جس میں سندھ کی ایک طاقتور شخصیت کے آبائی پلاٹ پر قبضہ کر لیا گیا ہے، جس میں ریوینیو ڈیپارٹمنٹ اور سندھ بلڈنگ کنٹرول کے افسران کا کردار سامنے آیا ہے، لیکن اب چونکہ یہ فراڈ پکڑا گیا ہے تو اس پر قبضہ کرنے اور کروانے والوں کو اس کی بھاری قیمت ادا کرنا پڑے گی کیونکہ یہ پلاٹ کسی عام شخصیت کا نہیں ہے۔ سندھ کے محکموں میں ہر بڑی اور منافع بخش پوزیشن کی بولی لگتی ہے اور جو بڑی بولی دینے میں کامیاب ہو جائے وہ اس کرسی پر براجمان ہو جاتا ہے جہاں اس کا سب سے اولین کام اپنا پوسٹنگ کے لیے دی گئی رقم کو ریکور کرنا اور اس کے ساتھ ساتھ اگلی کسی اچھی پوسٹنگ کے لیے مزید مال جمع کرنا ہوتا ہے۔ اسے اس سے کوئی غرض نہیں کہ اس کے دفتر میں آنے والے کسی شخص کا کام ہوتا ہے یا نہیں۔

میرا تعلق چونکہ پولیس سے رہا ہے تو میں اس کے بارے میں دیگر محکموں سے زیادہ معلومات رکھتا ہوں۔ ان دنوں پولیس کے تقریباً ہر رینک کے افسران کی اس وقت یہی رائے ہے کہ جیسا حال اس وقت سندھ پولیس کا ہے ایسا کبھی ماضی میں نہیں رہا۔ خصوصاً ہیڈ محرر کی تقرری سے لے کر ضلع افسران کی تعیناتی تک کے لیے جو جو ’’جتن‘‘ کیے جاتے ہیں، اس سے لگتا ہے کہ پولیس کی نوکری بھی ایک منافع بخش کاروبار بن چکا ہے۔ یہاں اس وقت صرف یہ اصول رائج ہے کہ ’’جو زیادہ خرچ کرے گا وہ اپنی مرضی کی پوسٹنگ لے پائے گا‘‘ اب یہ سب کس کی مرضی سے ہو رہا ہے تو یہ بات تو ہر شخص سمجھ سکتا ہے کہ جو کسی سینئر اپنے ماتحت کے ٹرانسفر پوسٹنگ کا اختیار رکھتا ہے، اس تک پہنچے بناء ایسا ہونا ممکن ہی نہیں ہے۔

گو ایماندار اور با اصول لوگ اب ناپید ہوتے جا رہے ہیں لیکن ایسا بھی نہیں ہے کہ تمام ایماندار لوگ ختم ہو چکے ہیں ابھی بھی کچھ سرکاری محکموں میں چند مثالیں موجود ہیں کہ جہاں نہ تو کسی افسر نے خود کرپشن کی اور نہ اپنے حلقہ ذمہ داری میں ہونے دی۔ صرف ایک مثال یہاں دے رہا ہوں کہ جس سے گزشتہ دنوں میرا ذاتی طور پر واسطہ پڑا۔ کیونکہ جہاں ہم ہمیشہ کسی نہ کسی ادارے کی کرپشن پر بات کرتے ہیں تو وہیں اگر کسی ادارے میں اچھا کام ہو رہا ہو تو اس کا ذکر نہ کرنا اپنی صحافتی پیشے سے نا انصافی ہوگی۔ 

کراچی میں موجود ڈرائیونگ لائسنس برانچ، کلفٹن میں چند ماہ قبل آئی جی سندھ غلام نبی میمن نے ڈی ایس پی، احمد علی شاہ کو انچارج تعینات کیا اور اس تعیناتی میں انہیں کن مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ہوگا، اس کا بھی مجھے اندازہ ہے کیونکہ اس سے قبل ڈرائیونگ لائسنس برانچ میں تعیناتی یا تو سندھ کے دو ’’ ہاؤسز‘‘ سے سفارش کروانے پر ملتی تھی یا پھر اس سیٹ کی بولی لگائی جاتی تھی اور جو بڑی بولی دیتا وہی یہاں لگ سکتا تھا، لیکن ان حالات میں ایک ایماندار پولیس افسر کی تعیناتی کا کریڈٹ میمن صاحب کو نہ دینا بددیانتی ہی ہوگی۔ بہرحال، اب وہ ڈرائیونگ لائسنس برانچ جہاں عام شہری گھنٹوں خواری اٹھانے کے بعد، کسی نہ کسی ایجنٹ کو منہ مانگی رشوت دیکر اپنا ڈرائیونگ لائسنس بنوا پاتا تھا، ایک مثالی ادارے کا منظر پیش کرتی ہے۔ اس رشوت کے بدلے اسے کسی قسم کا ڈرائیونگ ٹیسٹ بھی پاس کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی تھی کیونکہ تمام معاملات ’’ایجنٹ‘‘ خود طے کرتا تھا لیکن اب آپ کو کسی سفارش کی ضرورت نہیں ہے اور نہ ہی کسی ایجنٹ کو پیسہ دینے کی۔

اول تو اب وہاں آس پاس کوئی ایجنٹ نظر ہی نہیں آتا۔ کوئی بھی عام شہری اپنا لائسنس بنوانے کے لیے خود وہاں جائے، ڈرائیونگ لائسنس بنوانے کے طریقہ کار پر عمل کرے جس میں ڈرائیونگ ٹیسٹ لازمی ہے اور اس کا لائسنس کوریئر سروس کے ذریعے اس کے گھر تک پہنچا دیا جائے گا۔ یہی منظر کورنگی کی ڈرائیونگ لائسنس برانچ کا بھی ہے جہاں ڈی ایس پی امتیاز اللہ کو گزشتہ دنوں تعینات کیا گیا ہے۔

آئی جی صاحب کی تو کوشش ہے کہ سندھ کی تمام ڈرائیونگ لائسنس برانچوں میں اچھے اور ایماندار پولیس افسران کو پوسٹنگ دی جائے اور اسی تسلسل میں سندھ میں سکھر کی ڈرائیونگ لائسنس برانچ میں ڈی ایس پی عبدالقدوس کلہوڑ کو انچارج بنائے جانے کی اطلاع ہے، جو ایک اچھی شہرت کے ایماندار افسر ہیں۔

لائسنس بنوانے کے لیے سفارشیں اب بھی آتی ہیں لیکن سفارش کرنے والے کو بتا دیا جاتا ہے کہ کوئی بھی امیدوار جب تک مروجہ طریقہ کار کے تحت تما م ٹیسٹ پاس نہیں کرے گا اسے لائسنس نہیں دیا جائے گا۔ اس گھٹن زدہ اور کرپٹ ماحول میں آئی جی صاحب کی یہ کاوش اور ان برانچز میں متعین پولیس افسران کی محنت اندھیرے میں ایک چراغ کی روشنی کی مانند ہے۔ اس سے ایک بات تو ثابت ہوتی ہے کہ اگر کسی محکمے کا سربراہ عملا نیک اور ایماندار شخص ہے تو کسی ماتحت کی مجال نہیں ہے کہ وہ کسی قسم کرپشن کا سوچ بھی سکے جب کہ ایک کرپٹ انسان بہت کمزور شخصیت کا مالک ہوتا ہے جسے اپنے فرائض سے زیادہ اپنی وہ کرسی عزیز ہوتی ہے کیونکہ اس کے ’’ گلشن کا کاروبار‘‘ اسی کرسی کی بدولت چلتا ہے۔ جب کہ ایک ایماندار شخص کو چونکہ اپنی تنخواہ کے سوا کسی اور چیز کی لالچ نہیں ہوتی، اس لیے اسے ایسی کسی بھی کرسی کی طلب نہیں ہوتی جہاں بیٹھ کر وہ کسی کی خوشنودی کے لیے غلط کام کرے یا اپنے ماتحتوں کو کرنے دے۔

 اس نفسا نفسی کے عالم میں بھی اگر کسی ایک محکمے میں کوئی ایماندار افسر کام کررہا ہے تو اسے بھی غنیمت جانیے۔



[ad_2]

Source link

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں