[ad_1]
بعض حلقوں کی جانب سے کہا جا رہا ہے کہ گیزر میں کونیکل بیفل کی تنصیب سے گیس بل میں 25 فی صد کی کمی کی جا سکتی ہے۔ صورتحال یہ ہے کہ سردیوں میں گھریلو استعمال کے لیے لوگوں کو گیس کی درست سطح پر فراہمی نہیں ہوتی ہے بلکہ اب گرمیوں میں بھی گیس کی لوڈ شیڈنگ دیکھنے میں آ رہی ہے اور گھریلو صارفین سخت پریشان رہتے ہیں۔ عوام اس بات پر حیران ہیں کہ گرمیوں میں گیزر استعمال ہوتے ہیں نہ ہیٹر مگر ملک میں کئی سالوں سے ناقص پالیسیوں کے باعث گرمیوں میں بھی صارفین کو مکمل گیس کی فراہمی نہیں ہو رہی ہے، جب گرمیوں میں یہ حال ہے تو سردیوں میں گیزروں کے لیے گیس کیسے فراہم ہے۔
جو حلقے گیس صارفین پر مزید بوجھ بڑھانے کے لیے انھیں کونیکل بیفل نصب کروانے کا مشورہ دے رہے ہیں، تو سوچنے کی بات ہے کہ اگر گرمیوں میں گھریلو چولہوں کے لیے گیس نہیں ہے تو گیزروں کو گیس کہاں سے ملے گی؟ کہ گیس صارفین اب کونیکل بیفل نصب کرائیں جب کہ ہیٹر استعمال کرنے والوں کو کوئی مشورہ نہیں دیا جا رہا کہ وہ سردیوں میں سردی سے بچنے کے لیے اگر ہیٹر استعمال کریں گے تو ان کے لیے بھی بلوں میں کمی کیسے ممکن ہوگی۔
بجلی کی طرح سوئی گیس صارفین کو بھی پی ٹی آئی حکومت کے دور سے لوٹنے کا نیا ریکارڈ قائم ہوا ہے ، ہر صارف کو ہزاروں روپے کے اضافی بل بھیجے گئے تھے جس پر عام صارفین ہی نہیں بڑے لوگ بھی بلبلا اٹھے تھے، جس پر اس وقت کے وزیر اعظم نے اعلان کیا تھا کہ آیندہ بلوں میں صارفین کو اضافی رقم واپس کرائی جائے گی مگر کسی کو بھی اضافی رقم واپس نہیں کرائی گئی تھی، بس گیس صارفین کو بھاری بلوں کی قسطیں کرانے کی سہولت دی گئی تھی۔
جب لوگوں نے گیس کے میٹر لگوائے تھے اس وقت گیس میٹروں کی قیمت صارفین نے بھاری بھرکم چالانوں کے ذریعے ادا کردی تھی۔ اس وقت بلوں کے بل گیس سستی ہونے کی وجہ سے کم اور زیادہ استعمال پر سیکڑوں میں آتے تھے جو سوئی گیس بہت مہنگی کر دیے جانے سے ہزاروں میں پہنچ گئے جس پر سیکیورٹی کی مد میں ہر صارف سے مزید رقم وصول کی گئی تھی جب کہ سیکیورٹی ایک بار ہی وصول کی جاتی ہے جو ناقابل واپسی ہوتی ہے کیونکہ کوئی گیس صارف اپنے گھر میں لگی گیس کا کنکشن منقطع نہیں کراتا اور سیکیورٹی گیس کمپنیوں کے پاس جمع اور صارف کی امانت ہوتی ہے۔ کمرشل گیس کنکشن اگر کوئی منقطع کرائے تو اسے برائے نام سیکیورٹی کی رقم واپس ملتی ہے جب کہ کمرشل گیس پہلے ہی بہت مہنگی ہے۔
سوئی گیس فراہمی کا نظام کئی سال قبل بجلی کے نظام سے بہت بہتر تھا جہاں گیس بل مناسب آتے تھے اور اضافی بلز کی شکایت پر شنوائی بھی جلد ہو جاتی تھی اور صارفین کو پریشان نہیں کیا جاتا تھا اور صارف گیس کمپنی کی تعریف کرتے تھے مگر گیس بے انتہا مہنگی کیے جانے کے بعد گیس کمپنیوں کے رویے بدل گئے وہاں بھی بجلی کمپنیوں کی طرح شکایتیں بڑھ گئیں جہاں صارفین کا اب بھی بے پناہ رش ہے اور ٹوکن لے کر گھنٹوں خوار ہو کر کاؤنٹر پر نمبر آئے تو شکایت سنی ہی نہیں جاتی بلکہ صارفین سے کہا جاتا ہے کہ خود گیس زیادہ استعمال کرتے ہیں اور زیادہ بلوں کی شکایت لے کر آ جاتے ہیں۔ گیس کے اضافی بل درست ہی نہیں کیے جاتے اور بجلی والوں کی طرح قسطیں کرانے کا مشورہ دیا جاتا ہے۔
گیس صارفین کی تحریری شکایات وصول نہیں کی جاتیں نہ شکایات دور ہوتی ہیں۔ گیس لیکیج جس سے خود گیس کمپنی کا نقصان ہوتا ہے وہاں بھی ایمرجنسی صورت حال میں بھی ایکشن نہیں لیا جاتا۔ گیس صارفین کے اپنے ہی میٹروں کا کرایہ چالیس روپے ماہانہ وصول کیا جاتا ہے جب کہ فکس چارجز ایک ہزار روپے یا چار سو روپے کم زیادہ گیس استعمال پر وصول کیے جا رہے ہیں اور ہر گیس صارف سے قسطوں میں ساڑھے چار ہزار روپے ایڈیشنل ایس ٹی کے طور پر وصول کیے جا رہے ہیں مگر ہر حکومت نے خاموشی اختیار کر رکھی ہے اور عوام کے ساتھ سالوں سے یہ لوٹ کھسوٹ جاری ہے اور صارفین کی شکایات پر کوئی توجہ نہیں دی جا رہی۔
کے الیکٹرک سمیت دوسری بجلی کمپنیاں فیول ایڈجسٹمنٹ کی مد میں وصولی کر رہی ہیں اور پٹرولیم مصنوعات کم ہونے کا فائدہ صارفین کو بمشکل دیا جاتا ہے۔ جس طرح بجلی کے بلوں میں جبری طور پر مختلف ٹیکس وصول کیے جا رہے ہیں، اسی طرح گیس کے بلوں میں اصل رقم سے کہیں زیادہ دیگر مختلف چارجز وصول کیے جا رہے ہیں مگر کوئی پوچھنے والا موجود نہیں۔
بجلی چوری کے مقابلے میں گیس کی چوری بہت کم ہے کیونکہ عام آدمی گیس چوری کر ہی نہیں سکتا نہ گیس لائنوں پر کنڈا ڈالا جا سکتا ہے۔ گیس چوری گیس عملے کی ملی بھگت سے فیکٹریوں، کارخانوں، بڑے ہوٹلوں اور بڑی بیکریوں میں ہو رہی ہے جہاں گیس کی کھپت زیادہ ہے اور عملے سے ملے بغیر وہاں گیس کی چوری ممکن ہی نہیں ہے۔گیس بل زیادہ آنے پر صارفین کے گھروں میں گیس لیکیج کے الزامات لگا دیے جاتے ہیں اگر گھروں کے باورچی خانوں میں گیس لیک ہو تو اس کی بُو پورے گھر میں محسوس ہوتی ہے اور ایسی صورت میں گھر میں آگ لگنے کا خطرہ رہتا ہے اور کوئی صارف اپنے گھر کو خطرے میں نہیں ڈالتا۔
گیس لیکیج میٹروں سے پہلے کنٹرول کرنا کمپنی کی ذمے داری ہوتی ہے اور میٹر گلیوں اور سڑکوں پر لگے ہوتے ہیں جس سے صارفین کو نہیں گیس کمپنی کی گیس ضایع ہوتی ہے اور آگ لگنے کا خطرہ رہتا ہے مگر صارفین کو صرف آسرے دیے جاتے ہیں کہ گاڑی بھیجتے ہیں مگر گاڑی نہیں آتی۔اسٹینڈرڈ کے نام پر گیس کمپنی مرضی کی رقم وصول کرتی آ رہی ہے 49 یونٹ پر 145 روپے اور 63 یونٹ پر اسٹینڈرڈ چارجز 194 روپے وصول کیے جا رہے ہیں۔ کے الیکٹرک ہر میٹر پر بیس روپے ماہانہ اور پی ٹی وی فیس 35 روپے الگ وصول ہو رہی ہیں جب کہ اکثر گھروں میں پی ٹی وی دیکھا ہی نہیں جاتا مگر پی ٹی وی نہ دیکھنے کا جرمانہ ہر مہینہ صارفین بجلی ادا کر رہے ہیں۔
جس علاقے میں بجلی چوری اور بل ادا نہیں کیے جاتے وہاں بجلی چوری کے یونٹ ہر ماہ بل ادا کرنے والوں کے کھاتے میں ڈال دیے جاتے ہیں۔ کراچی میں واٹر اینڈ سیوریج بورڈ بھی صارفین کو لوٹنے میں گیس و بجلی کمپنیوں سے کم نہیں جس نے ستمبر کے بلوں میں 21 فی صد اضافہ کیا ہے، 870 روپے ماہانہ والا بل اب 1490 روپے بھیجا گیا ہے۔ پانی آئے نہ آئے مگر واٹر بل مسلسل بڑھ رہا ہے اور 8روپے ماہانہ بل وصولی بینک چارجز بھی ہر گھر سے وصول کیے جا رہے ہیں۔ کے الیکٹرک نے تو بلوں کی قسطیں بھی بند کر دی ہیں جس سے صارفین سخت پریشان ہیں۔
[ad_2]
Source link