[ad_1]
ایک سال سے زائدکا عرصہ ہوچکا ہے، فلسطین پر ہونے والے اسرائیلی مظالم مسلسل جاری ہیں، بلکہ اب ان کا دائرہ دیگر اسلامی ممالک تک پہنچ گیا ہے اور بڑھتے بڑھتے یہ ہمارے پڑوس ملک ایران کے اندر بھی داخل ہوگیا ہے۔ فلسطین اور غزہ پر ہونے والے مظالم پر ساری دنیا صرف زبانی کلامی مذمتی بیانوں تک محدود رہی ہے، کسی نے آگے بڑھ کر اس کے ہاتھ نہیں روکے۔
اقوام متحدہ اور سلامتی کونسل نے بھی صرف قراردادیں ہی پاس کی ہیں اُن پر عمل درآمد کے لیے اسرائیل پر نہ کوئی زور دیا ہے اور نہ قراردادوں کی کھلم کھلا خلاف ورزیوں پرکوئی تادیبی کارروائی کی۔ پچاس ہزار کے لگ بھگ بے گناہ فلسطینی شہید کردیے گئے، جن میں دس سال سے کم عمر بچوں کی ایک بہت بڑی تعداد بھی ہے مگر کسی نے اُن کے لیے اپنے آنسو بھی نہیں بہائے۔
تقریباً دو ارب افراد پر مشتمل دنیا کے اسلامی ممالک بھی نہ جانے کس ڈر اور خوف سے اسرائیل کے خلاف کوئی جوابی کارروائی کرنے سے ہچکچا رہے ہیں۔ انھیں لگتا ہے کہ یہ جنگ اگر اُن کے ملک تک پہنچ گئی تو وہ اس کا مقابلہ نہیں کر پائیں گے۔ اُن کے عوام ایسی کسی تباہی کے متحمل نہیں ہوسکتے ہیں جیسی فلسطین میں اس وقت ہو رہی ہے۔
سب کو اپنی اپنی فکر لاحق ہے۔ کسی کو یہ احساس نہیں ہے کہ موت تو ہر شخص کو آنی ہے، آج نہیں توکل،کسی کو بھی یہ پتا نہیں ہے کہ کل اس کے ساتھ کیا ہونے والا ہے۔ ہر جانب چاروں طرف سے اسلامی ملکوں میں گھرا ہوا، ایک واحد ملک اسرائیل جتنی ڈھٹائی اور دلیری سے فلسطین، لبنان اور ایران پر حملے کر رہا ہے اورکوئی بھی اسے روکنے والا نہیں۔ وہ جانتا ہے کہ اسلامی ممالک میں اب وہ حمیت باقی نہیں رہی جو پہلے کبھی ہوا کرتی تھی۔ اُسے اقوام متحدہ کی قراردادوں کی بھی کوئی پرواہ نہیں، اُسے اچھی طرح معلوم ہے کہ دنیا اس کا ہاتھ روک نہیں سکتی۔
یہ حرکت اگرکسی اور اسلامی ملک نے کی ہوتی تو آج اقوام متحدہ اپنی قراردادوں پر عمل کروانے کی خاطر اس پر حملہ آور بھی ہوچکا ہوتا۔ ہم نے افغانستان اور عراق میں یہ سب کچھ ہوتا دیکھا ہے۔ یو این اور نیٹو ممالک نے ملکر دہشت گردی کی جنگ کے نام پر وہاں جس طرح چڑھائی کی وہ ہمیں اچھی طرح یاد ہے۔ کیا وجہ ہے کہ آج ایک چھوٹا سا ملک اسرائیل کسی کے قابو نہیں آرہا۔ محض اس لیے کہ اس کے پیچھے اسے سپورٹ کرنے کے لیے امریکا بہادر موجود ہے۔
امریکا گزشتہ دو تین دہائیوں سے جس طرح اکیلا ساری دنیا میں حکومت کر رہا ہے وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے۔ تمام اسلامی ممالک بھی اس کے کنٹرول میں ہیں۔ وہ جانتا ہے کہ کوئی اس کے آگے سر اُٹھا کے جی نہیں سکتا۔ وہ جس طرح چاہے گا، اس دنیا میں ویسے ہی ہوگا۔ اکیلے اسرائیل کی کوئی حیثیت نہیں، وہ دراصل ایک دوسرا امریکا ہی ہے۔ امریکا اپنی زمین پر کوئی جنگ نہیں لڑنا چاہتا ہے۔ اس نے آج تک جتنی جنگیں لڑی ہیں سب دوسروں کی زمینوں پر۔
وہ اپنی پالیسیوں اور منصوبوں کو دوسرے ممالک کو سبق سکھانے اورکنٹرول کرنے کے لیے ترتیب دیتا ہے۔ وہ سب کو اپنے تابع اور غلام رکھنا چاہتا ہے۔ خاص کر اسلامی ممالک میں آج کوئی ایک ایسا ملک باقی نہیں بچا ہے جو اس کی ان پالیسیوں کے خلاف جنگ لڑ سکے یا آواز اُٹھا سکے۔ سب کے پر اس نے کاٹ کے رکھ دیے ہیں۔ پاکستان تو ایک پسماندہ غریب ملک ہے، یہاں تو امیر اسلامی ممالک بھی اس کی مرضی کے خلاف کوئی قدم اُٹھا نہیں سکتے ہیں۔ اسرائیل کی اس منہ زوری کی ایک بہت بڑی وجہ بھی یہی ہے۔ امریکا اس کے شانہ بشانہ کھڑا ہے اورکسی اسلامی ملک میں یہ ہمت بھی نہیں کہ اس کا مقابلہ کر سکے۔ نہ وہ خود کوئی کارروائی کرسکتے ہیں اور نہ دیگر ممالک کو ساتھ ملا کر کوئی جوابی اقدام کے بارے میں سوچ بھی سکتے ہیں۔
خود فلسطینی حکومت کے بارے میں بھی کچھ پتا نہیں، وہاں حماس کی حکومت ہے یا محمود عباس کی۔ اسی طرح لبنان میں بھی جس کی حکومت ہے اس کا کوئی نام نہیں لے رہا، صرف حزب اللہ کا ذکر ہم سنتے رہے ہیں۔ اسرائیل بھی انھی دو تنظیموں کو نشانہ بنا رہا ہے۔ حماس اور حزب اللہ کے کئی سربراہ ٹارگٹ کر کے شہید کردیے گئے۔ غزہ شہرکو ملبوں کا شہر بنا دیا گیا۔ ہرطرف تباہی کے آثار دکھائی دے رہے ہیں۔ اسپتالوں کو بھی نہیں چھوڑا گیا ہے۔ غزہ کے لوگوں کے پاس نہ نوکریاں رہی ہیں اور نہ جینے کا کوئی سامان۔
اسرائیل جارحیت بڑھتے بڑھتے ایران تک پہنچ گئی ہے، اورکوئی بعید نہیں کہ وہ ہماری حدود کے اندر میں داخل ہوجائیں۔ کوئی چھوٹا سا بہانہ اُسے اس طرح کی کارروائی کے لیے کافی ہے، وہ ہراس ملک کو نشانہ بنا رہا ہے جس سے اسے مستقبل میں کوئی خطرہ لاحق ہے۔ ذرا سوچیے کل ہم پر اگر اسرائیل نے بمباری شروع کردی تو ہم کیا کریں گے۔ ہم خاموش رہیں گے یا غزہ بن جانے کو تیار ہوجائیں گے۔ ہم نے آج تک ایسی تباہی نہیں دیکھی ہے جیسی فلسطین اور غزہ کے لوگ کئی برسوں سے دیکھ رہے ہیں۔
ہم پر جب خدانخواستہ ایسا وقت آیا تو ہم کہاں کھڑے ہونگے۔ ہمارے لیے بھی غزہ کے لوگوں کی طرح کوئی جائے پناہ نہیں ہے۔ ہمیں یا تو خاموش رہتے ہوئے موت کو گلے لگانا ہوگا یا پھر لڑ کر شہادت کا رتبہ حاصل کرنا ہوگا۔ ہم میں سے بہت سے صاحب ثروت لوگ یقینا اپنا مال اور پیسہ سمیٹ کر کسی اور ملک میں جا بیٹھیں گے۔ سیاستدانوں کی ایک بہت بڑی تعداد تو پہلے سے دوسرے ممالک میں رہائش اور سکونت کا انتظام کیے بیٹھی ہے۔
مرنے کے لیے تو اس ملک کے غریب عوام ہی رہ جائیں گے، وہ نہ کہیں بھاگ سکیں گے اور نہ ہجرت کر پائیں گے۔ اُن کے پاس لڑ کر شہید ہونے کے لیے اسلحہ اور ساز و سامان بھی نہیں ہوگا، وہ یا تو بمباری سے مر جائیں گے یا پھر بھوک اور ننگ سے۔ دنیا ان کی موت کا نظارہ کر رہی ہوگی۔ کیا ہم اس صورتحال کے لیے تیار ہیں۔ کسی ملک کے لوگوں کی تباہی کے لیے ضروری نہیں کہ انھوں نے اعمال بھی ایسے ہی کیے ہوں جس کی انھیں سزا دی جا رہی ہو۔
غزہ کے مسلمانوں نے ایسا کیا جرم کیا تھا کہ انھیں ایسی درد ناک سزا دی گئی ہے۔ ہمارا قصور یہ ہے کہ ہمارا تعلق اسلام سے جڑا ہوا ہے ہم یا تو بے حمیت اور لاپروا بن جائیں تو شاید اسرائیلی اور امریکی جارحیت سے بچ جائیں گے، اگر کوئی مزاحمت کی تو انجام ایسا ہی ہونا ہے۔ اب یہ ہم پر منحصر ہے کہ ہم اپنے لیے کونسا راستہ چنتے ہیں۔ موت تو برحق ہے ہر حال میں آنی ہے۔ آج نہیں تو کل۔ ڈر کر مرجائیں یا پھر اللہ کی راہ میں لڑ کر شہادت کا رتبہ پا لیں۔
[ad_2]
Source link