[ad_1]
26 ویں آئینی ترمیم کو متنازعہ بنانے کی بہت کوشش کی گئی۔ سب سے پہلے تحریک انصاف نے اس کو متنازعہ بنانے کی کوشش کی اور ملک میں ایک ماحول بنانے کی کوشش کی، اس کو قبول نہیں کیا جائے گا۔ اسی طرح وکلاء کے ایک دھڑے کی جانب سے بھی اس ترمیم کے خلاف بہت بات کی گئی اور ہمیں بتایا گیا کہ اگر یہ ترمیم منظور ہو گئی تو ملک بھر کے وکلا ایک بڑی تحریک شروع کر دیں گے۔ پھر یہ بھی بتایا گیا کہ اگر ترمیم کے تحت سینئر موسٹ کو چیف جسٹس نہیں بنایا گیا تو سپریم کورٹ کے ججز اس کو قبول نہیں کریں گے اور سپریم کورٹ میں ایک بہت بڑا بحران آجائے گا۔ عوامی رد عمل کی کہانی تو بہت سنائی جاتی تھی کہ عوام اس ترمیم کے خلاف سیسہ پلائی دیوار بن جائیں گے۔ اس طرح اس ترمیم کی منظوری کے وقت ایک تناؤ کی کیفیت موجود تھی۔
لیکن اب 26ویں آئینی ترمیم کو سب نے قبول کر لیا ہے۔ سب سے پہلے اگر تحریک انصاف کی بات کی جائے تو تحریک انصاف اس ترمیم کے خلاف منظوری سے پہلے وسیع عوامی احتجاج کی بات کر رہی تھی۔ وزیر اعلیٰ کے پی گنڈا پور پورا ملک بند کرنے کی بات کر رہے تھے۔ اسلام آباد پر چڑھائی کی بات کی جا رہی تھی۔ لیکن اب صورتحال دیکھیں ایسی کوئی بات نظر ہی نہیں آرہی۔ وہی گنڈا پور اس ترمیم کے تحت بننے والے چیف جسٹس کی حلف برداری میں سب سے پہلے پہنچے ہوئے تھے۔ خبر کے مطابق انھیں حلف برداری میں شرکت کی اتنی جلدی تھی کہ تقریب سے سوا گھنٹہ پہلے ہی پہنچ گئے تھے۔ انھوں نے تو پورا ملک بند کرنا تھا، احتجاج کرنا تھا لیکن وہ ترمیم کے حق میں کھڑے نظر آئے۔انھوں نے تو جسٹس منصور علی شاہ کے ساتھ کھڑے ہونا تھا لیکن وہ جسٹس یحیٰ آفریدی کے حق میں کھڑے نظر آئے۔ اس لیے مجھے یہ سمجھنے میں کوئی مشکل نہیں کہ تحریک انصاف نے 26ویں آئینی ترمیم کو قبول کر لیا ہے۔ اسی لیے اسے عدالت میں چیلنج نہ کرنے کا فیصلہ بھی نظر آرہا ہے۔ اسلام آباد میں کوئی احتجاج نہ کرنے کا فیصلہ بھی نظر آرہا ہے۔
26ویں آئینی ترمیم کی منظوری سے پہلے چند وکلا رہنماؤں نے ماحول بنایا کہ اگر یہ ترمیم منظور کی گئی تو ملک میں ایک بڑی وکلا تحریک شروع ہو جائے گی۔اگر سینئر موسٹ کو چیف جسٹس نہ بنایا گیا تو عدالتوں کا بائیکاٹ کیا جائے گا۔ عدالتوں میں احتجاج کیا جائے گا، سڑکوں پر احتجاج کیا جائے گا۔ ہمیں بتایا گیا کہ وکلاء تحریک جب بھی شروع ہوتی ہے تو حکومتیں ختم ہو جاتی ہیں۔ آمریت بھی قائم نہیں رہ سکتی تو یہ حکومت کیا چیز ہے۔ اس لیے وکلا تحریک کا بہت شور سنا گیا۔ تاہم حقیقت یہ ہے کہ اس نئی ترمیم کے تحت بنائے جانے والے چیف جسٹس پاکستان کو ملک کی تمام بار اور دیگر وکلا تنظیموں نے قبول کر لیا ہے۔ سب نے مبارکباد دی ہے۔ سب کی قبولیت نظر آرہی ہے۔ کہیں کوئی ہڑتال نہیں ہوئی بلکہ ترمیم سے پہلے جو وکلا کنونشن نظر آرہے تھے، وہ اب نظر نہیں آرہے۔ جو وکلا احتجاج کی بات کر رہے تھے وہ بھی اب نظر نہیں آرہے۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ احتجاج کی بات کرنے والے سب غائب ہو گئے۔ جسٹس یحییٰ آفریدی چیف جسٹس کا حلف اٹھانے کے بعد احتجاجی تحریک کا منظر نامہ ہی ختم ہو گیا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ وکلا کے سب دھڑوں نے نہ صرف ترمیم کو قبول کر لیا ہے بلکہ نئے چیف جسٹس کو بھی قبول کر لیا ہے۔
اب سپریم کورٹ کو دیکھیں تو ایک ماحول یہ بھی بنایا گیا تھا کہ اگر چیف جسٹس کے لیے سنیارٹی کے اصول کو نظر انداز کیا گیا تو سپریم کورٹ میں شدید رد عمل ہوگا۔ پہلے یہ بتایا گیا کہ ممکن ہے کہ جسٹس یحییٰ آفریدی چیف جسٹس کا حلف ہی نہ لیں۔ اگر حکومت ان کو لگائے گی بھی تو وہ حلف نہیں لیں گے۔ لیکن ایسا بھی کچھ نہیں ہوا۔ انھوں نے نہ صرف چیف جسٹس کا حلف لے لیا بلکہ بطور چیف جسٹس کام بھی شروع کر دیا ہے۔ اس لیے یہ سب ابہام بھی دور ہو گیا ہے۔ آپ کہہ سکتے ہیں سپریم کورٹ نے بھی 26ویں آئینی ترمیم کو قبول کر لیا ہے۔
یہ درست ہے کہ قاضی فائز عیسیٰ کے فل کورٹ ریفرنس میں سپریم کورٹ کے چھ ججز نے شرکت نہیں کی۔ لیکن یہ بھی تو حقیقت ہے کہ سپریم کورٹ کے ججز کی اکثریت نے قاضی فائز عیسیٰ کے فل کورٹ ریفرنس میں شرکت کی۔ اس طرح یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ قاضی صاحب کو آخری دن تک سپریم کورٹ کے اکثریتی ججز کی حمایت حاصل رہی۔ ایک جج نے ان کے خلاف خط لکھا۔ اس خط کو اس تناظر میں بھی دیکھا جا رہا ہے کہ مذکورہ جج صاحب خود چیف جسٹس بننے کے امیدوار تھے ۔ سب جانتے ہیں کہ چیف جسٹس بننے کے لیے سپریم کورٹ میں ایک سیاسی لڑائی جاری تھی۔ مخصوص نشستوں کا فیصلہ بھی اسی سیاسی لڑائی کی ایک مثال ہے۔ نظر ثانی کا نہ لگنا بھی اسی سیاسی لڑائی کی ایک مثال کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ سیاسی ججز چاہتے تھے کہ جب تک ان کی مرضی کا چیف جسٹس نہ آجائے تب تک جیوڈیشل ایکٹوزم کے ذریعے آئینی ترمیم کا راستہ روکا جائے۔
نظر ثانی کو روکنا بھی اسی حکمت عملی کا حصہ تھا۔ لیکن دیکھا جائے تو یہ حکمت عملی ناکام ہو گئی۔ نظر ثانی روکنے سے بھی ترمیم نہیں رک سکی۔ اس طرح سپریم کورٹ سے ترمیم رکوانے کی تمام سیاست ناکام ہو گئی۔ اسی طرح یہ بھی کہا جا رہا تھا کہ اگر ترمیم منظور ہو گئی تو سپریم کورٹ سے بڑے مستعفی ہو جائیں گے۔ ججز کی ایک بڑی تعداد اجتماعی استعفیٰ دینے کے لیے تیار بیٹھی ہے۔ سب اکٹھے ہیں۔ استعفے حکومت کے در و دیوار ہلا کر رکھ دیں گے۔ ایک آئینی بحران آجائے گا۔ ہم دوستوں کو سمجھاتے تھے کہ لاہور ہائی کورٹ میں دو جج سپر سیڈ ہو گئے ہیں انھوں نے بھی استعفیٰ نہیں دیا۔
اسی طرح جو سپریم کورٹ میں سپر سیڈ ہوں گے وہ بھی استعفیٰ نہیں دیں گے۔ یہ عدلیہ ہے فوج نہیں،نہ ہی عدلیہ فوج کی طرح کام کرتی ہے۔ فوج میں سپر سیڈ ہونے پر استعفیٰ دیا جاتا ہے۔ عدلیہ میں ایسا کوئی رجحان یا روایت نہیں۔ اب دیکھا جائے تو جسٹس منصور علی شاہ نے نہ تو نئے چیف جسٹس کی حلف برداری میں شرکت کی ہے اور نہ ہی قاضی فائز عیسیٰ کے فل کورٹ میں شرکت کی لیکن انھوں نے بھی استعفیٰ نہیں دیا۔ اسی طرح باقی ہم خیال ججز نے تو حلف برداری میں شرکت کی ۔ کوئی استعفیٰ جب سپریم کورٹ سے ہی نہیں آیا تو ہائی کورٹس سے آنے کا تو کوئی چانس ہی نہیں تھا۔ اس لیے یہ سب بھی پراپیگنڈا ہی ثابت ہوا ۔ اس میں بھی کوئی حقیقت نہیں۔اس تناظر میں عدلیہ تحریک انصاف اور وکلا تنظیموں سمیت سب نے 26 ویں آئینی ترمیم کو قبول کر لیا ہے۔ اس کے تحت بننے والے چیف جسٹس کو قبول کر لیا ہے۔ آئینی بنچز کو قبول کر لیا ہے۔ اس لیے اس کی قبولیت ہر طرف نظرآرہی ہے۔ باقی سب خیر ہے۔
[ad_2]
Source link