[ad_1]
اسلام آباد میں کرسٹیز کیفے کے نام سے ڈونٹس شاپ ہے‘ یہ آج سے پانچ سال قبل ایک خاتون نے اسٹارٹ کیاتھا‘ اس نے کوہسار مارکیٹ کی ایک دکان میں چھوٹی سی کافی شاپ بنائی ‘ کاروبار چل پڑا تو بیٹے نے بھی اسے جوائن کر لیا‘ سیل میں اضافہ ہوا تو دوسرا اور تیسرا بیٹا بھی آ گیا‘ یہ ڈاکٹروں کی فیملی ہے‘ پورا خاندان میڈکل پروفیشن سے وابستہ ہے‘ یہ لوگ میڈیکل لائن چھوڑ کر ڈونٹس کے کاروبار میں آ گئے اور دن دوگنی اور رات چوگنی ترقی کرنے لگے‘ اسلام آباد میں اس وقت ان کی سات برانچز ہیں‘ اگست کے مہینے میں ان کی بلیوایریا کی برانچ میں ایک واقعہ پیش آیا‘ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ ان کی بیکری پر آئے‘ ان کی بیگم اور صاحب زادی بھی ان کے ساتھ تھیں‘ وہاں ایک ملازم نے ان کی وڈیو بنا لی اور ان کے ساتھ بدتمیزی بھی کی‘ چیف جسٹس کے ساتھ موجود پولیس اہلکار نے فون کر کے پولیس بلا لی لیکن وہ لڑکا اس وقت تک سات مختلف پلیٹ فارمز پر وڈیو شیئر کر چکا تھا اور کیفے سے فرار بھی ہو گیا تھا۔
پولیس اور خفیہ اداروں نے بیکری کے دو ملازم گرفتار کر لیے‘ مالکان کو بھی بلا کر پوچھ پڑتال کی گئی مگر بدتمیزی کرنے والا لڑکا نہیں ملا‘ اس دوران 25ستمبرکو اچانک یہ وڈیو وائرل ہو گئی اور اگلے پورے ہفتے ٹاپ ٹرینڈ میں رہی‘ ان دنوں 26 ویں ترمیم اور جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی ایکسٹینشن کا معاملہ چل رہا تھا لہٰذا پی ٹی آئی کی سوشل میڈیا ٹیموں نے وڈیو کو اٹھا لیا اور کرسٹیز بیکری ان کے لیے زیارت گاہ بن گئی‘ بیکری پر ہزاروں لوگ پہنچ گئے جس سے ان کی سیل نے ریکارڈ توڑ دیا‘ لوگوں نے انھیں فرنچائز کی پیش کش کرنا شروع کر دی‘ کرسٹیز کے مالکان صرف بزنس مین ہیں۔
ان کا کسی سیاسی جماعت سے کوئی تعلق نہیں لیکن پی ٹی آئی نے انھیں اپنے ساتھ لپیٹ لیا‘ اسلام آباد کی انتظامیہ نے ایک دو مرتبہ بیکری کو سیل بھی کیا اور مالکان کو پولیس اور عوام سے چھپنا بھی پڑ گیامگر بہرحال ایس سی او شروع ہو گئی اور اس ریلے میں یہ ایشو بھی ختم ہو گیا‘ 25 اکتوبر کو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ ریٹائر ہو گئے‘ عین اس دن اسد قیصر اور شہرام تراکئی کرسٹیز بیکری پہنچے اور وہاں سے ڈونٹس خرید کر چیف جسٹس کی ریٹائرمنٹ کا جشن منایا‘ یہ خبر اس دن سوشل میڈیا پر بہت وائرل رہی۔
اسد قیصر اور شہرام تراکئی کا 25 اکتوبر کو بیکری جانا اور ڈونٹس انجوائے کرنا محض اتفاق بھی ہو سکتا ہے لیکن پی ٹی آئی کے نوجوان اور سوشل میڈیا ’’ماہرین‘‘ اسے قاضی فائز عیسیٰ سے نجات کا اعلان قرار دے رہے ہیں‘ ہم چند لمحوں کے لیے اس تاثر کودرست مان لیتے ہیں چناں چہ اس کے بعد یہ سوال پیدا ہوتا ہے‘ کیا یہ اسد قیصر جیسے ایسے شائستہ شخص کو سوٹ کرتا ہے جو قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلی کے اسپیکر رہے ہوں‘ جو تعلیم کے شعبے سے وابستہ ہوں اور مہذب خاندان کے ساتھ تعلق بھی رکھتے ہوں‘ اسی طرح شہرام تراکئی بھی تراکئی خاندان سے ہیں اور یہ خاندان مہذب اور خوش حال ہے‘ کیا اس خاندان کے سپوت سے ایسی مریضانہ حرکت کی توقع کی جا سکتی ہے۔
اسی طرح چیف جسٹس کی ریٹائرمنٹ پر دو یوٹیوبرز اور صحافیوں نے بھی ان کے ساتھ جو سلوک کیا اور چند بزرگ وکلاء نے بھی ان کے ساتھ جو کیا یہ ٹرینڈ بھی درست ہے؟ بے شک سرکاری عہدوں پر بیٹھے لوگوں کے زیادہ تر فیصلے متنازع ہوتے ہیں‘ ان فیصلوں سے کسی کو فائدہ اور کسی کو نقصان ہوتا ہے‘ ہم میں سے کوئی شخص خدا نہیں جس کا ہر فیصلہ حرف آخر اور درست ہو گا‘ ہم سب انسان ہیں اور انسان اپنے محدود علم اور تھوڑے سے تجربے کی بنیاد پر فیصلے کرتا ہے اور ان فیصلوں کے غلط ہونے کا سو فیصد امکان ہوتا ہے لیکن کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم اس شخصیت یا اس عہدے کو بے عزت کر دیں‘ ہم اسے بے توقیر کر دیں؟ پاکستان میں بدقسمتی سے پچھلے پانچ صدر‘ پانچ وزیراعظم‘ پانچ چیف جسٹس اور پانچ آرمی چیف بے توقیر ہو کر ریٹائر ہوئے ہیں‘ ہم نے کسی کو عزت کے ساتھ ریٹائر ہونے دیا اور نہ رخصت کیا‘ آپ صدر رفیق احمد تارڑ کو لے لیجیے‘ جنرل مشرف نے انھیں ایوان صدر سے اس طرح رخصت کیا تھا کہ وہ دوست سے گاڑی مانگ کر ایوان صدر سے لاہور گئے تھے اور حکومت نے 2014 تک انھیں سرکاری مراعات دی تھیں اور نہ سرکاری رہائش گاہ‘ جنرل مشرف کو بھی ذلیل کر کے رخصت کیا گیا اور ان کی باقی زندگی ملک سے باہر گزری ‘ صدر آصف علی زرداری ایوان صدر سے نکل کر جیلوں اور عدالتوں میں دھکے کھاتے رہے۔
صدر ممنون حسین بے عزت ہو کر اسلام آباد سے کراچی گئے‘ صدر عارف علوی کے ساتھ کیا ہوا اور کیا ہو رہا ہے؟ہم سب جانتے ہیں‘ وزیراعظم شوکت عزیز فارغ ہوئے تو وہ عدالت اور پولیس کو مطلوب تھے‘ انھیں فیئر ویل تک نہیں دی گئی‘ وہ وزیراعظم ہاؤس سے سیدھے ائیرپورٹ گئے اور اس کے بعد کبھی واپس نہیں آئے‘ یوسف رضا گیلانی سپریم کورٹ کے کورٹ نمبر ون سے فارغ ہوئے‘ راجہ پرویز اشرف بدنامی کی پوٹلی لے کر رخصت ہوئے‘ میاں نواز شریف کے گلے میں پاناما کا ہار ڈال کر رخصت کیا گیا اور اس سے پہلے انھیں سڑکوں اور میڈیا پر ذلیل کیا گیا‘ شاہد خاقان عباسی وزیراعظم ہاؤس سے اڈیالہ جیل پہنچے اور انھیں وہاں سزائے موت کے سیل میں رہنا پڑا‘ عمران خان کو گھسیٹ کر اقتدار سے نکالا گیا اور یہ اس کے بعد آج کل اڈیالہ جیل کی کوٹھڑی میں بجلی کی راہ دیکھ رہے ہیں۔
چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے ساتھ بھی کیا ہوا؟ پھر جسٹس ثاقب نثار‘ جسٹس کھوسہ‘ جسٹس عمر عطاء بندیال اور اب جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے ساتھ کیا سلوک ہوا؟ جنرل مشرف‘ جنرل کیانی‘ جنرل راحیل شریف اور جنرل باجوہ کے ساتھ بھی کیا ہوا اور اس وقت موجودہ آرمی چیف جنرل عاصم منیر کے ساتھ سوشل میڈیا پر کیا ہو رہا ہے؟ یہ ٹرینڈز کیا ثابت کر رہے ہیں؟ یہ ثابت کر رہے ہیں ہم نے ملک میں کوئی باعزت عہدہ اور کوئی باعزت شخصیت نہیں چھوڑی‘ ہم سب کو بے عزت کر رہے ہیں‘ اب سوال یہ ہے اس کا نتیجہ کیا نکلے گا؟ اس کے دو نتائج نکلیں گے‘ کوئی عزت دار شخص کوئی اہم عہدہ قبول نہیں کرے گا‘ دوسرا ملک کے اہم ترین عہدوں پر صرف وہ لوگ بیٹھیں گے جوریٹائرمنٹ کے بعد بے عزتی برداشت کر سکیں گے۔
یہ مسئلہ آج کا نہیں ہے‘ ہم نے بدقسمتی سے قیام پاکستان کے بعد سے اپنے عہدوں اور عہدے داروں کی بے عزتی شروع کر دی تھی‘ قائداعظم سے لے کر عمران خان تک اور ایوب خان سے لے کر جنرل باجوہ تک اور حسین شہید سہروردی سے لے کرنواز شریف تک ہم نے کسی شخص کی عزت برقرار نہیں رہنے دی چناں چہ آج اس کا یہ نتیجہ نکل رہا ہے ملک پٹواریوں اور یوتھیوں میں تقسیم ہو چکا ہے‘ پاکستان میں پہلے سنی اور شیعہ اور وہابی اور بریلوی اور مسلم اور غیر مسلم کی فالٹ لائینز تھیں اور اب یہ یوتھیے اور پٹواریوں تک پھیل چکی ہیں اور یہ سب ایک دوسرے کی بے عزتی کو اپنا حق سمجھتے ہیں اور یہ حق روز بروز بڑھتا جا رہا ہے‘ ہمیں اب ہر عہدے پر اپنی مرضی کا عہدیدار چاہیے اور وہ شخص ہمیں فیور کرتے ہوئے قانون دیکھے‘ آئین اور نہ ہی کوئی قاعدہ بس ہمارا قائدفتح یاب ہونا چاہیے جب کہ اس کے مقابلے میں آپ دائیں بائیں دیکھ لیں۔
بھارت میں لاکھ اختلاف کے باوجود تمام عہدیداروں کو عزت کے ساتھ رخصت کیا جاتا ہے‘ امریکا‘ برطانیہ اور یورپی ممالک تو اس معاملے میں بہت آگے ہیں‘ وہاں ڈونلڈ ٹرمپ بھی عزت سے جوبائیڈن کا استقبال کرتا ہے اور جوبائیڈن عزت کے ساتھ ڈونلڈ ٹرمپ کوگاڑی میں بٹھا کر رخصت کرتا ہے‘بے شک امریکا میں بھی پولیٹیکل فالٹ لائینز گہری ہو رہی ہیں لیکن یہ وہاںابھی بے عزتی کے فیز میں داخل نہیں ہوئیں‘ لوگ آج بھی وہاں اختلاف کے باوجود ایک دوسرے کا احترام کرتے ہیں‘ لوگ کیفے میں داخل ہوتے ہیں تو مخالفین اپنے ہیٹ اتار کر سائیڈ پر رکھ دیتے ہیں‘ میں ہرگز نہیں کہتا ہمیں چند برسوں میں امریکا‘ یورپ‘جاپان یا چین بن جانا چاہیے لیکن ہم کم از کم نفرت کنٹرول کر کے اور عزت میں اضافہ کر کے ملک میں سکون ضرور پیدا کر سکتے ہیں‘ ماہرین کہتے ہیں انسان میں عزت سے شائستگی پیدا ہوتی ہے‘ شائستگی سے تہذیب آتی ہے‘ تہذیب سے سکون اور اطمینان آتا ہے۔
اطمینان سے معاشرے میں استحکام پیدا ہوتا ہے اور استحکام سے خوش حالی آتی ہے لہٰذا ہم اگر معاشرے کو خوش حال بنانا چاہتے ہیں تو پھر ہمیں اختلاف اور اختلاف رائے کے باوجود ایک دوسرے کو عزت دینی ہو گی اور اس کے جواب یا ردعمل میں ہم جلد یا بدیر خوش حال ہو جائیں گے‘ ماہرین یہ بھی کہتے ہیں خانہ جنگیاں اور قوموں کا زوال بے عزتی سے اسٹارٹ ہوتا ہے‘ انسان جب دوسروں کو بے عزت کرنا شروع کر دے تو معاشرے میں نفرت آ جاتی ہے‘ نفرت تصادم کو جنم دیتی ہے۔
تصادم خانہ جنگی میں تبدیل ہوجاتا ہے اور خانہ جنگی ملک اور قوم کو بربادکر دیتی ہے اور ہم اگر آج معاشرتی لحاظ سے زوال پذیر ہیں یا خانہ جنگی کے دہانے پر کھڑے ہیں تو اس کی وجہ نفرت ہے‘ یہ زہر ہم سب کی رگوں کا حصہ بن چکا ہے چناں چہ ہم خانہ جنگی سے چند انچ کے فاصلے پر ہیں تاہم آج بھی ہم صرف دوسرں کو عزت دے کر زوال کے اس سفر کو پلٹ سکتے ہیں‘ہم بہتری کی طرف آ سکتے ہیں‘ میرا دعویٰ ہے آپ آج سے دوسروں کو اختلاف کے باوجود عزت دینا شروع کر دیں‘ آپ کو نتائج حیران کر دیں گے‘آپ اس کے برعکس آج سے اپنے بیٹے یا والد کی بے عزتی شروع کر دیں اور آپ اس کے بعد نتیجہ دیکھ لیجیے گا بیٹا والد کے خلاف ہو جائے گا‘ عزت کا ٹول خوش حالی اور استحکام کے لیے لازم ہے اور ہمارے ملک میں یہ لازمی حصہ ختم ہو چکا ہے اور ہم جب تک اسے واپس نہیں لائیں گے یہ معاشرہ اس وقت تک ترستا رہے گا۔
[ad_2]
Source link