38

بے روزگاری اور جبری انصاف

[ad_1]

ملک بھر میں جونیئر وکیلوں کی تعداد سینئر وکلا سے کہیں زیادہ ہو چکی ہے جن میں سے چند ایک کے ناروا رویے، ججز سے بدتمیزی، عدالتوں میں موکلین اور خصوصاً پولیس و عدالتی عملے کے ساتھ ہونے والی بد تہذیبی سے مسائل پیدا ہوئے جس سے عدالتوں اور سینئر وکلا میں بھی تشویش پیدا ہوئی اور جونیئر پر الزامات بھی لگے مگر غیر وکالتی سرگرمیوں میں کمی واقع ہونے میں نہیں آئی۔ بعض جونیئرز نے نچلی سطح کی عدالتوں کے ججز کو بھی آڑے ہاتھوں لیا۔ ججز کی عدالتوں میں ججز سے تکرار بڑھتے بڑھتے ججز کو قابل اعتراض الفاظ سے نوازنا معمول ہو جانے سے سینئر وکلا بھی پریشان نظر آئے ۔ ایوان عدل لاہور میں 5 سال قبل ایک سینئر وکیل سے اس سلسلے میں راقم کی بات ہوئی تھی جن کا کہنا تھا کہ بے روزگاری سے تعلیم یافتہ نوجوان بھی متاثر ہوئے جنھیں سرکاری ملازمتیں ملتی نہیں تھیں۔ یہ نوجوان بی اے تو کر ہی لیتے تھے جس کے بعد انھیں وکالت میں اپنا مستقبل نظر آیا اور انھوں نے پرائیویٹ لا کالجز کا رخ کیا اور جیسے تیسے ایل ایل بی کرکے پہلے وہ سینئر وکلا کے ساتھ منسلک ہوئے اور بہت سے وکلا کے اسسٹنٹس بن کر عدالتوں میں آنے جانے لگے اور تھوڑا بہت تجربہ حاصل کرکے سینئر وکلا کے چیمبرز سے منسلک ہوئے جب کہ وہ جن میں سنجیدگی کا فقدان تھا انھوں نے ہم مزاج جونیئر وکلا کے ساتھ چھوٹے موٹے کیس لینا شروع کر دیے۔

سینئر اور پرانے تجربے کار وکلا اہم کیسوں میں ہی وکالت پر راضی ہوتے ہیں اور ان کی فیس بھی لاکھوں میں ہوتی تھی جن میں نام ور وکلا بھی تھے جو سیاست میں بھی آئے اور نام بنایا۔ یہ سیاسی وکلا اپنی پارٹی کے قائدین اور رہنماؤں کی مفت وکالت کرتے تھے جن کے چیمبرز بھی مشہور تھے کیونکہ بعض نامور وکلا کے ججز سے اچھے تعلقات تھے اور سیاسی طور پر نامور وکلا کے چیمبرز سے وابستہ وکیلوں کو عدلیہ میں داخل ہونے کا موقعہ ملا۔ ایسے نام ور وکلا صرف اہم اور بڑے کیس اپنی مہنگی اور منہ مانگی فیس لے کر لڑتے ہیں ۔ بھاری فیس لینے والے وکلا چھوٹے موٹے کیس اپنے جونیئر کے حوالے کر دیتے تھے جن کی ابتدائی فیسیں کم تھیں اور کم آمدنی والے لوگوں کے مقدمات میں جونیئر وکلا سہارا بنے اور انھیں روزگار بھی میسر آیا۔

جونیئر وکیلوں کو اپنی پسند کی سیاسی پارٹیوں میں شمولیت کا موقعہ ملا اور سیاسی پارٹیوں میں لائرز فورم قائم ہوئے اور جو پارٹی حکومت میں آئی پارٹی نے مختلف سطح کے سرکاری وکیلوں کا تقرر کیا۔ انھیں اعلیٰ عہدے ملے۔ جس مشہور چیمبرز کے وکیل جج بنے انھیں سیاسی طور پر ترقیاں بھی ملتی رہیں۔

عدلیہ بحالی تحریک میں بعض کو سیاسی طور پر تحریک میں شامل ہونے کا موقعہ ملا ۔ عدلیہ تحریک کی کامیابی کے بعد نوجوانوں کی بڑی تعداد وکالت سے وابستہ ہوگئی اور بعض جذباتی وکیلوں نے جارحانہ رویہ اپنایا۔ جونیئرز وکلا کی تعداد بڑھنے سے بار کونسلوں میں بھی ان کا ووٹ بینک بڑھتا رہا جن کے آگے سینئر ججز بھی ووٹوں کے لیے ان سے گفتگو کرتے رہے اور انھیں بعض جونیئر وکیلوں کی نامناسب رویے کا بھی سامنا کرنا پڑا۔ جونیئر کورٹس کے ججز بھی ان جونیئرز وکلا سے محفوظ نہ رہے اور بعض تشویش ناک واقعات بھی رونما ہوئے۔ ججز سے بدتمیزی بھی کی گئیں۔ پولیس اہلکار ہی نہیں ان کے افسر بھی جونیئر وکلا کے ہاتھوں مارپیٹ کا شکار ہوئے مگر انھیں وکیلوں کی طرح ہڑتالوں کا حق نہیں تھا لہٰذا پولیس بھی جونیئر وکلا سے فاصلے پر رہتے ہیں۔ جونیئر وکیلوں کو شروع میں ہی اگر کنٹرول کر لیا جاتا تو آج جیسی صورت حال نہ ہوتی۔بعض جونیئر وکلا نے عزت سے سرکاری ملازمتیں حاصل کیں اور فائدے میں رہے اور اپنی من پسند حکومتوں میں سیاسی فائدے اٹھائے۔ق لیگ کی حکومت میں ہر عدالت میں ضرورت سے زائد لا افسرز بھر دیے گئے ۔ سندھ میں 16 سال سے پی پی کی حکومت میں فائدے اٹھانے والے جونیئرز وکیل فائدے میں رہے۔ بہت سے جج بن کر ریٹائر بھی ہوگئے مگر پنجاب کی صورت حال مختلف رہی۔ سیاسی مفادات کے لیے بعض جونیئر وکیلوں کو استعمال بھی کیا گیا۔ جونیئر وکیلوں کی وجہ سے وکلا اور ججز بھی دھڑے بندی اور گروپ بندی کا شکار ہوئے، اگر بے روزگار نوجوانوں کو نوکریاں ملی ہوتیں تو جونیئر وکلا کی تعداد بے انتہا نہ بڑھتی اور انھیں اپنے مطالبات منوانے کے لیے وہ کچھ نہ کرنا پڑتا جو انھوں نے کیا اور عدالتی مسائل بڑھائے۔



[ad_2]

Source link

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں