[ad_1]
(آخری قسط)
صبح سو کر اٹھا تو پہلا خیال نانگا پربت کا ہی آیا۔ نانگا پربت کی چوٹی مکمل طور پر بادلوں میں چھپی ہوئی تھی۔ صرف چوٹی ہی نہیں بلکہ نانگا پربت کا زیادہ تر حصہ بادلوں سے ڈھکا ہوا تھا۔ میرے پاس ابھی پورا دن تھا۔ یہی سوچا کہ کچھ نہ کچھ دیر بعد بادل چھٹ ہی جائیں گے۔ میں کیمپ سے باہر نکلا، کھانے پینے کے لیے کچھ ہلکا پھلکا سا پکڑا، پانی کی بوتلیں لیں اور اپنا رخ لاتبو جھیل کی جانب کر دیا۔
کتابوں میں پڑھا تھا کہ مقامی لوگ نانگا پربت کو نانگا پربت نہیں کہتے بلکہ شل مکھی کہتے ہیں یعنی سو چہروں والا پہاڑ۔ کہتے ہیں بلتستان کے مختلف مقامات سے اس نانگا پربت کے مختلف چہرے نظر آتے ہیں۔
نئی نسل شاید اب شل مکھی کے نام کو تسلیم نہیں کرتی۔ مقامی بھی اب پنجابیوں کی طرح نانگا پربت کو ’’مرشد‘‘ ہی کہتے ہیں حالاں کہ مجھے یہ خطاب کچھ پسند نہیں مگر میں نے جس بھی پنجابی کو نانگا پربت بارے بات کرتے سنا، اسے شل مکھی یا نانگا پربت کے بجائے مرشد ہی کہتے ہوئے سنا۔ پہلے بھی ذکر کیا تھا کہ نانگا پربت کے روپل چہرے یا جنوبی چہرے کی اصل وجہ شہرت چوٹی سے لے کر نیچے بیس کیمپ تک کا وہ چٹانی چہرہ ہے جو ساڑھے چار ہزار میٹر بلند ہے۔ دنیا میں کسی جگہ کسی بھی پہاڑی سلسلے میں کوئی مقام نہیں جہاں آپ کھڑے ہوں اور آپ کے سامنے ایک چٹان ساڑھے چار ہزار میٹر کی اونچائی کی ہو۔ یہ ایک ناقابلِ یقین منظر ہے اور کئی سیاح صرف دنیا کی بلند ترین چٹان کو دیکھنے آتے ہیں۔
ہرلنگ کوفر میں اگر بیس افراد تھے تو ان میں سے کم از کم پندرہ غیرملکی تھے۔ میں اتنے سارے غیرملکی مرد و خواتین پہلی بار دیکھ رہا تھا۔ ان میں سے ایک جوڑا تھا، دونوں ہی اپنے اپنے شعبوں سے ریٹائرمنٹ کے بعد نانگا پربت چلے آئے تھے۔ باقی لوگ سب جوان تھے۔ پتلے پتلے سے اور مجھ سے کہیں زیادہ چست۔ لاتبو جھیل تک جانے کے لیے ہرلنگ کوفل کے بائیں ہاتھ ایک چڑھائی چڑھتی ہے۔
اوپر تقریباً ایک درہ سا بنا ہوا ہے جسے پار کرنے کے بعد آپ کے بازین گلیشیئر کی طرف اترنا ہے۔ یہ چڑھائی اگر اتنی مشکل نہیں تو اتنی آسان بھی نہیں۔ چڑھائی تو پھر چڑھائی ہے۔ مجھے سہولت یہ تھی کہ میرے پاس زیادہ سامان نہیں تھا۔ بس ایک چھوٹا سا بیگ تھا جس میں کھانے پینے کی چیزیں تھیں اور وہ بیگ بھی میں نے اپنے گائیڈ کو پکڑا دیا تھا۔ نیا گائیڈ کرنے سے بہتر میں نے یہ سمجھا کہ کل والے کو ہی لاتبو تک لے چلوں۔
ہرلنگ کوفل سے لاتبو بیس کیمپ جاتے ہوئے ہمیں نہ صرف گدھے ملے، بلکہ بہت سارے گدھے ملے۔ یہ کہنا زیادہ مناسب ہو گا کہ گدھوں کے قافلے ملے جن پر لکڑیاں لادی گئی تھیں۔ معلوم ہوا کہ آگے سے بے دردی کے ساتھ روزانہ کی بنیاد پر لکڑیاں کاٹی جا رہی ہیں۔ راستے میں ایک میدان ایسا بھی آیا جہاں فقط چند درخت کھڑے تھے۔ بہت ساروں کو تنے سمیت ہی کاٹ دیا گیا تھا، کچھ کو آگ لگا دی گئی تھی۔ میرا رہنما مجھے بتانے لگا کہ ایک وقت تھا کہ یہ میدان درختوں سے بھرا پڑا تھا مگر اب لوگ ایندھن کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے درخت کاٹنے پر مجبور ہیں۔ ہرلنگ کوفل کے راستے میں ہی ایک چھوٹا سا جنگل نما راستہ آیا جس کے ایک طرف اونچائی تھی۔ ہم اسی اونچائی پر سے گزر رہے تھے۔
نیچے وہ جنگل نما صاف دکھائی دیتا تھا مگر وہ کسی بھی زاویے سے جنگل نہ لگتا تھا۔ میرے گائیڈ نے راہ نمائی کی کہ یہاں پہلے اتنا گھنا جنگل تھا کہ اگر کوئی انسان اس کے اندر کھڑا ہوتا تو دکھائی نہ پڑتا تھا مگر اب وہاں تقریباً میدان ہی تھا۔ مقامی افراد کہتے ہیں کہ حکومت ہمارے لیے گیس کا بندوست نہیں کرتی، ہم اپنے کھانے پکانے کا انتظام کیسے کریں۔ آبادی بڑھ چکی ہے، اس لئے مقامی درخت کاٹنے پر مجبور ہیں۔ میں نے دل میں سوچا کہ یہ مقامی لوگ اپنی آبادی ہر قابو کیوں نہیں کرتے؟ پھر سوچا کہ ’’کم آبادی ہی ہمارے بہت سے مسائل کا حل ہے۔‘‘ یہ بات ابھی تک ہم پنجابیوں کی سمجھ نہیں آئی جن کے پاس روزگار کے سب سے زیادہ وسائل ہیں تو ان پہاڑی لوگوں کو کیسے سمجھ آئے گی۔
ہم اب بازین گلیشیئر پر چلتے جاتے تھے تو نانگا پربت کے چوٹی کے قریب بازین گیپ سے نیچے آ رہا تھا۔ گلیشیئر خطرناک نہ تھا مگر بہت وسیع تھا۔ کہیں جگہوں پر بہت بہت نرم تھی۔ اتنی نرم کہ اگر ہاتھ میں پکڑا ہوا ڈنڈا ہم برف کے اندر ڈالتے تو ڈانڈا اندر گہرائی میں چلا جاتا۔ دور سے پتا نہیں چلتا کہ آپ گلیشیئر پر چل رہے ہیں مگر چلتے وقت آپ کو مکمل احساس ہوتا ہے کہ آپ کے قدموں کے نیچے زمین یا مٹی نہیں بلکہ برف ہے۔ میری نگاہوں میں نانگا پربت ہی تھا۔ میں سامنے دیکھ کر چل رہا تھا مگر دھیان میرا نانگا پربت پر ہی تھا۔ بادلوں میں لِپٹا ہوا نانگا پربت میرے بالکل دائیں جانب تھا اور مسلسل بادلوں میں ہی لپٹا ہوا تھا۔ بادلوں کی سفید چادر اتارنے کا شاید اس کا موڈ نہیں تھا۔ میری خواہش تھی کہ فقط ایک، صرف ایک تصویر میں نانگا پربت کی اتار سکوں جس میں یہ اپنے نام کی طرح بالکل بے حجاب ہو مگر نہ جانے کیوں بادل مسلسل اسے حجاب میں رکھے ہوئے تھے۔
مزے کی بات تو یہ تھی کہ میرے اوپر بادل کا ایک چھوٹا سا ٹکرا بھی نہ تھا اور میرے ساتھ جو نانگا پربت کھڑا تھا، اس سے بادل ہٹ ہی نہ رہے تھے۔ مجھے یقین ہو چلا تھا کہ یہ بادل آج نہیں ہٹنے والے۔ میں مایوسی کے عالم میں چلتا رہا۔ اتنے میں بازین گلیشیئر ختم ہوگیا۔ بازین گلیشیئر تو وہیں پر تھا مگر ہم بائیں جانب ایک چڑھائی چڑھ گئے۔ چڑھائی چڑھنے کے بعد جو نظارہ کھلا تو میری آنکھیں اور منہ بھی کھلے کا کھلا رہ گیا۔ میں اب ایک درے پر کھڑا تھا۔ میری دائیں جانب راستہ ایک دم نیچے کو سر سبز و شاداب میدان میں اتر رہا تھا جب کہ بائیں جناب بازین گلیشیئر پھیلا ہوا تھا۔
ایک طرف سبز میدان تھے جب کہ دوسری طرف برف ہی برف۔ قدرت بھی آپ کو اپنے کیا کیا رنگ دکھاتی ہے۔ نیچے والا میدان لاتبو میدان تھا۔ یہیں سے ہی لاتبو جھیل چاند کی ہلال نما صورت نظر آ رہی تھی۔ یہاں سے راستہ ایک دم نیچے اتر رہا تھا۔ نیچے اترنے سے پہلے ہی میں سوچ رہا تھا کہ ابھی نیچے تو اگر جاؤں گا مگر واپس اوپر کیسے چڑھو گا؟ میں ان ہی سوچو میں گم تھا کہ ہرلنگ کوفر سے وہی ریٹائر جوڑا گھوڑا کی مدد سے بازین گلیشیئر پار کرتا ہوا اوپر میرے پاس آن پہنچو۔ خاتون کی جوں ہی پہلی نظر لاتبو میدان پر پڑی تو وہ بھی خوشی کے مارے ویری نائس، ویری نائس کرنے لگی۔ نہ جانے دونوں میاں بیوی کس دیس سے ہمارے یہاں نانگا پربت دیکھنے کے لیے آئے تھے۔
وہ گھوڑوں پر تھے، تازہ دم تھے، تھوڑی دیر نظارے دیکھنے کے بعد وہ نیچے لاتبو میدان میں اتر گئے۔ میرے سانس سے سانس میں مل رہا تھا۔ میرے گائیڈ کی نیت پوری خراب تھی کہ میں یہیں سے واپس لوٹ جاؤں مگر لاتبو دیکھے بنا میرا واپس جانے کا کوئی ارادہ نہ تھا۔ سانس درست کرنے کے بعد میں نے پھر سے ایک بار حسرت سے بادلوں میں لپٹے ہوئے نانگا پربت کو دیکھا اور نیچے لاتبو میدان میں اتر گیا۔ یہ ایک شدید فٹے منہ اترائی تھی اور مجھے پتہ تھا کہ یہ چڑھائی چڑھتے وقت میں نے تقریباً شہید ہو جانا تھا مگر میں اترتا رہا۔ اترائی ختم ہوئی تو نانگا پربت کی جھیل کے دامن سے آنے والے نالے نے ساری تھکان اتار دی۔
تھوڑی دیر کی استراحت کے بعد میں نے بہتر یہی سمجھا کہ سفر جاری رکھا جائے۔ یہاں مجھے چند مزید غیر ملکی نوجوان ملے۔ دراصل میں اوپر برف سے آنے والے ٹھنڈے یخ نالے پاؤں ڈال کر بیٹھ گیا تھا۔ اگرچہ کہ بیٹھا نہ جاتا تھا مگر لطف بہت آ رہا تھا۔ پانی برف سے بھی زیادہ ٹھنڈا تھا۔ نانگا پربت کہیں گم ہو گیا تھا۔ معلوم پڑا کہ کچھ سفر کے بعد پھر سے دکھائی دینے لگے گا۔
میری منزل نانگا پربت بیس کیمپ 2 تھی جسے لاتبو بیس کیمپ بھی کہا جاتا ہے۔ میرا یہ خیال تھا کہ ہم پہلے بیس کیمپ 2 جائیں گے، وہاں سے واپسی پر نانگا پربت کے بازین گلیشیئر سے جنم لینے والی لاتوبو جھیل کی طرف جائیں گے اور پھر واپس ہرلنگ کوفر کی جانب رخ کریں گے۔ میرے را ہ نما نے میرے منصوبے کو حاتم طائی کی قبر جانا اور اس پر غصے سے لات مار دی۔
میرے غیرملکی خودساختہ دوستوں نے مجھے لاتوبو بیس کیمپ پر چائے کی دعوت دے ڈالی جسے میں نے خوش دلی سے قبول کرتے ہوئے کہا آپ لوگ بیس کیمپ 2 پہنچو، میں بس پہلے جھیل دیکھ لوں پھر آپ کی طرف آتا ہوں۔ میرے راہ نما نے میری راہ نمائی کی کہ ہم ایک مختصر راستے سے پہلے جھیل کی طرف جائیں گے اور پھر بیس کیمپ کی طرف اتریں گے۔ جوں ہی میرے گائیڈ نے مختصر راستے کا لفظ استعمال کیا تو میں نے اسے گھور کر دیکھا۔ میں ان پہاڑی لوگوں کو جانتا ہوں۔ یہ جب بھی مختصر راستے کا لفظ استعمال کرتے ہیں تو وہ راستہ ہمارے لیے بہت مشکل ہوتا ہے جس میں چڑھائیاں بہت شدید نوعیت کی ہوتی ہیں۔
ہم چلتے جاتے تھے کہ کالی بلی کی طرح ایک نالے نے ہمارا راستہ کاٹ دیا۔ معلوم پڑا کہ لاتوبو جھیل سے آنے والا پانی ہے۔ پانی انتہائی صاف تھا۔ جی خوش ہوا کہ ہم کچھ دیر کے بعد ایک صاف شفاف جھیل کے کنارے کھڑے ہوں گی کیوں کہ جھیل براہ راست نانگا پربت کے بازین گلیشیئر سے جنم لے رہی تھی۔ اس نالے کو پار کرنے کے بعد میرے سارے خودساختہ فرنگی دوست آگے سیدھے راستے پر چل دیے جب کہ میرا راہ نما میرا ہاتھ پکڑے اوپر نالے کے ساتھ ساتھ ایک چڑھائی چڑھ گیا۔ وہاں میرا گائیڈ چڑھائی چڑھتا جاتا تھا اور یہاں میرا پارہ مسلسل بڑھ رہا تھا۔ یہ چڑھائی نہایت بری تھی۔ ایسی بری کہ یہاں چڑھنے کے لیے آپ کو اپنی بوتھی بھی اوپر کرنا پڑتی تھی۔ کچھ لمحات تو وہ بھی آئے کہ مجھے دو کی بجائے چار ٹانگوں پر چلنا پڑ رہا تھا بلکہ ایک وقت وہ بھی آیا جب مجھ سے چار ٹانگوں پر بھی چلا نہ جاتا تھا۔
راستہ سو فی صد کھڑا سا تھا۔ چڑھائی کم نہیں تو اَسی ڈگری کی تو ضرور تھی۔ میرے گائیڈ نے اتنی مہربانی ضرور کی کہ اس نے میرا ہاتھ پکڑ لیا اور پھر مجھے اوپر کھینچنے لگا۔ راستہ واقعی مختصر تھا مگر تھا تقریباً تقریباً جان لیوا۔ میں آخری چڑھائی چڑھا تو میرے سامنے نانگا پربت کی جھیل تھی۔ جھیل دیکھ کر میں چپ سا ہوگیا۔ جھیل بڑی تھی اور بہت بڑی تھی۔ نانگا پربت کی برفوں سے جنم لیتی تھی، بس یہی اس کی خاصیت تھی۔ جھیل کے پانی بدرنگ تھے۔ میں اوپر ہی کہیں بیٹھ گیا۔ ہم جھیل کے پانیوں کو ہاتھ نہیں لگا سکتے تھے۔ جھیل خشک پتھروں کے درمیان بہت نیچے تھی اور یقیناً بہت گہری تھی۔ نیچے بیٹھنے کو بھی جگہ نہ تھی اور نیچے اترنے کی کوشش میں اگر آپ کا پاؤں ذرا سا بھی پھسل جاتا تو عین ممکن
تھا کہ آپ اس جھیل کی گہرائیوں میں چلے جاتے۔ آپ اسے لاتوبو جھیل کہہ لیں یا نانگا پربت جھیل، ایک ہی بات ہے مگر یہ جھیل ایسی نہ تھی کہ اس کے لیے اتنی چڑھائی چڑھی جائے مگر اتنی دور آ کر بھی لاتوبو جھیل دیکھے بنا گزارہ نہ تھا، لہٰذا اس کے لیے محنت کرنا ہی پڑی۔ میں کچھ دیر سستانے کے واسطے ایک درخت کے نیچے بیٹھ گیا۔ کبھی کبھار اوپر سے کوئی بڑا پتھر آواز کرتا ہوا نیچے جھیل کے پانیوں تک آجاتا۔
میں ایک منحوس چوٹی کے سامنے کھڑا تھا۔ دنیا میں سب سے زیادہ کوہ پیماؤں کی جان اسی چوٹی نے لی ہے اور اب اس چوٹی کے کم بخت بادل میری جان لے رہے تھے۔ ہر گزرتے وقت کے ساتھ بادل گہرے اور مزید گہرے ہوتے جا رہے تھے۔ پہلے نانگا پربت کی چوٹی بادلوں میں لپٹی ہوئی تھی، اب تقریباً پورے کا پورا نانگا پربت ہی بادلوں میں لپٹا جاتا تھا اور نیچے ہم دھوپ میں کھڑے تھے۔
لاتوبو جھیل سے اب ہمیں لاتوبو میدان میں اترنا تھا مگر ہمیں راستہ نہ ملتا تھا۔ اوپر کھڑے ہو کر اندازہ ہو رہا تھا کہ ہم لاتوبو میدان سے کتنی اونچائی پر کھڑے تھے۔ ہم نے مشترکہ طور پر نیچے اترنے کا راستہ تلاش کیا اور بمشکل لاتوبو میدان میں اترے۔ لاتوبو جھیل تک جانے کے لیے کوئی باقاعدہ راستہ نہیں، کوئی ایک پگڈنڈی بھی نہیں کیوں کہ لوگ اس جانب نہیں جاتے۔ مجھے جتنے بھی لڑکے راستے میں ملے، کوئی بھی لاتوبو جھیل نہیں گیا۔ سب نیچے نیچے سے براہ راست لاتوبو میدان میں گئے اور واپس ہرلنگ کوفر چلے گئے۔ اس کی دو وجوہات تھیں۔ ایک تو لاتوبو جھیل، لاتوبو میدان سے بہت بلند ہے اور آپ کو اچھی خاصی چڑھائی چڑھنی پڑتی ہے۔
دوئم جھیل کوئی خاص خوب صورت بھی نہیں۔ پتھریلی گزرگاہوں کا مٹی بھرا پانی جھیل کی شکل کی تبدیل کردیتا ہے۔ لوگ جو یہاں آنے سے پہلے اس کی تصاویر دیکھ لیتے ہیں، وہ اس طرف کا رخ نہیں کرتے۔ میرے گائیڈ نے بھی پوری کوشش کی تھی کہ میں اوپر نہ بڑھوں مگر مجھے افسوس ہوتا کہ لاتوبو میدان آ کر اگر لاتوبو جھیل نہ دیکھتا۔ نانگا پربت کی اس جھیل کا حق ہے کہ اسے دیکھا جائے۔ ہم بہ مشکل لاتوبو میدان میں اترے تو مجھے اپنے ان فرنگی دوستوں کا خیال آیا جن کے کیمپ لاتوبو میدان میں لگ چکے تھے اور وہ چائے پر میرے منتظر تھے مگر میں نے مخالف سمت میں نانگا پربت کی برف سے آنے والے ایک نالے کے کنارے کالی نیکر میں نہاتے ہوئے ایک پوٹھوہاری لڑکے کو دیکھا جس سے کچھ فاصلے پر ہی اس کے تین دوست ایک درخت کے نیچے استراحت فرما رہے تھے۔
میں نے دل ہی دل میں اپنے ان فرنگی دوستوں کو الوداع کہا اور اس کالی نیکر والے لڑکے کی طرف بڑھنے لگا جو نانگا پربت کی برفوں کے ٹھنڈے ٹھار پانی سے نہا رہا تھا۔ گائیڈ نے بہت اصرار کیا کہ ہمیں فرنگیوں کی چائے پارٹی پر ضرور جانا چاہیے مگر میرا بہانہ اصل تھا کہ میں بہت تھک چکا تھا اور اسی درخت کے نیچے نالے کنارے کچھ دیر آرام کرنا چاہتا تھا۔ میرے گائیڈ نے انتہائی غصے سے میری طرف دیکھا اور میرے پیچھے پیچھے اسی کالی نکر والے لڑکے کی طرف چلنے لگا جہاں اب کچھ دیر مجھے آرام کرنا تھا۔
………
میں لاتوبو بیس کیمپ میں نانگا پربت کی برفوں سے جنم لینے والے ایک نالے کے کنارے لیٹا مسلسل نانگا پربت کو دیکھے جا رہا تھا۔ صبح نانگا پربت کی صرف چوٹی اور اس سے کچھ نیچے کا حصہ بادلوں میں لِپٹا ہوا تھا جب کہ اب تقریباً پورا نانگا پربت ہی بادلوں میں ڈوب چکا تھا۔ دل چسپ بات تو یہ تھی کہ میرے اوپر تیز دھوپ تھی۔ اتنی تیز کہ مجھے ایک درخت کی چھاؤں میں لیٹنا پڑا مگر نانگا پربت کا موسم الگ ہی تھا۔ وقت کم تھا، مجھے نہ صرف ابھی ہرلنگ کوفر واپس پہنچنا تھا بلکہ شام تک استور بھی پہنچنا تھا۔ میں نے لاتوبو بیس کیمپ سے بادلوں میں لپٹے ہوئے نانگا پربت کو دکھی دل سے الوداع کہا اور واپسی کی راہ لی۔ ہرلنگ کوفر سے آپ کو نانگا پربت اپنے بالکل سامنے نظر آتا ہے مگر لاتوبو بیس کیمپ میں نانگا پربت ایسا ہوتا ہے جیسے آپ اپنے کسی دیرینہ دوست کو سامنے کھڑا کر کے اس سے رازونیاز باتیں کی باتیں کر رہے ہوں۔
میرا مشورہ ہے کہ آپ جب بھی لاتوبو بیس کیمپ جائیں تو پوری کوشش کریں کہ رات وہیں گزاریں یا پھر کم از کم گھوڑے پر ہی پورے لاتوبو میدان کا چکر ضرور لگائیں۔ نانگا پربت کے جتنا قریب ہوسکتے ہیں، آپ وہاں تک جائیں۔ میں لاتوبو بیس کیمپ (نانگا پربت بیس کیمپ 2) میں تھا اور میرے سامنے گہرے بادلوں میں لپٹا ہوا نانگا پربت تھا۔ بادل اتنے گھنے تھے کہ لگتا ہی نہیں تھا کہ ان کی پیچھے دنیا کا نواں عظیم ترین پہاڑ کھڑا ہے۔
لاتوبو کے میدان سے تھوڑا ہی آگے ایک قبرستان بھی ہے جہاں نانگا پربت کو سَر کرنے کی کوشش کرنے والے چند کوہ پیماؤں کی قبریں بھی ہیں۔ نانگا پربت کا موسم مسلسل خراب ہو رہا ہے۔ بادل تقریباً اس عظیم پہاڑ کے پاؤں کو چھو رہے تھے۔ میں نے لاتوبو کے میدان کو چھوڑا اور واپسی کی راہ لی۔ اب چوں کہ ہمیں لاتوبو جھیل نہیں جانا تھا، اس لیے راستہ بالکل سیدھا سیدھا تھا۔ لاتوبو میدان پار کرکے میں نے بازین گلیشیئر پر قدم رکھے تو دھوپ بہت تیز ہوچکی تھی۔ بازین گلیشیئر کی برف بہت تیزی سے پگھل رہی تھی۔ جس برف کی سختی کی وجہ سے میں بڑے آرام سے اس پر چل رہا تھا، اب وہ برف نرم پڑ رہی تھی مگر نانگا پربت ابھی تک گھنے بادلوں کی لپیٹ میں تھا۔
بازین گلیشیئر کو پار کر کے میں آخری چڑھائی چڑھا تو مجھے ہرلنگ کوفر میں فرنگیوں کے لگے کیمپ نظر آنے لگے۔ سہ پہر تک ہم ہرلنگ کوفر واپس پہنچ چکے تھے۔ میں ایک کرسی پر بیٹھا بادلوں میں لِپٹے نانگا پربت کو مایوسی سے دیکھ رہا تھا۔
میرا ہرلنگ کوفر سے رخصت ہونے کا وقت ہوا چاہتا تھا مگر میں نے ابھی تک نانگا پربت کو بے حجاب نہیں دیکھا تھا۔ نہ جانے اچانک کیا ہوا کہ سورج نانگا پربت کے بالکل بائیں جانب سے نکلا اور سارے بادل رفتہ رفتہ چَھٹنے لگے۔ نانگا پربت پر دھوپ یک دم تیز ہوئی۔ اس کی برف سے دھواں اٹھنے لگا۔ دھوپ کی وجہ سے برف کے ذرات بخارات بن کر اڑ رہے تھے۔ نہ جانے میری کون سی نیکی کام آئی کہ اچانک نانگا پربت میرے سامنے بے حجاب ہوگیا۔ میرے سامنے دنیا کا نواں بڑا پہاڑ بغیر کسی پردے کے کھڑا تھا۔ میرا جسم ایک دم ٹھنڈا پڑگیا۔ جسم ایسے تھا کہ کاٹو تو خون نہ ہو۔ میں دھیرے سے مسکراتا جاتا تھا اور نانگا پربت کو تکتا جاتا تھا۔ میں اب مطمئن تھا۔ میں نے نانگا پربت کو بنا بادلوں کے دیکھ لیا تھا۔
[ad_2]
Source link