98

خان پور میں سجا سیاحتی میلہ

[ad_1]

ہر سال ستمبر کی ستائیس تاریخ کو دنیا بھر میں سیاحت کی ترقی و ترویج کے لیے عالمی یوم سیاحت جوش و خروش سے منایا جاتا ہے۔ اس موقع پر ریلیاں نکالی جاتی ہیں، سیمینار اور کانفرنسز منعقد کروائی جاتی ہیں، فوٹوگرافی کے مقابلے ہوتے ہیں اور مختلف جگہوں کا دورہ کر کے سیاحت کی اہمیت کو اجاگر کیا جاتا ہے۔

پاکستان اور خصوصاً وسیب میں سیاحت اور تاریخی ورثے کی حفاظت کے لیے سرگرداں تنظیم وسیب ایکسپلورر نے بھی امسال یہ دن کراس روٹ بائیکر کلب کے ساتھ مل کر منایا۔

وسیب ایکسپلورر، ایک تعارف

 وسیب ایکسپلوررز کی بنیاد 2016 میں دو دوستوں، ڈاکٹر مزمل حسین صاحب اور جناب پروفیسر شعیب رضا نے ڈیرہ غازی خان میں رکھی تھی۔ اس تنظیم نے ڈیرہ غازی خان، ملتان اور بہاولپور ڈویژن کے تاریخی و سیاحتی مقامات کے موٹر بائیک ٹورز، کیمپنگ اور فوٹوگرافی ایونٹس کے انعقاد سے سرائیکی وسیب میں سیاحت کو زبردست طریقے سے پروموٹ کیا۔ گذشتہ 8 سالوں میں سیکڑوں سیاح اس فورم سے منسلک ہوئے، سفرنامہ نگاری سیکھی، فوٹوگرافی سیکھی اور روڈ سیفٹی کے اصولوں پر کاربند ہوتے ہوئے موٹربائیک ٹورز کا آغاز کیا۔

وسیب ایکسپلورر کے ارکان نے اپنے برادر کلب کراس روٹ کے ساتھ بین الاقوامی موٹر بائیک ٹورز میں بھی حصہ لیا جن میں ایران، متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب کے دورے شامل ہیں۔ ڈیرہ غازی خان ڈویژن کے مغرب میں کوہ سلیمان کا قبائلی علاقہ جو کہ عوام کی نظر میں ایک پرخطر علاقہ ہے، وہاں سیاحت کو فروغ دیا اور بلوچ قبائل کی ثقافت، روایتی مہمان نوازی اور اس خطے کے مثبت چہرہ کو اجاگر کیا۔ فورٹ منرو کے علاوہ کوہ سلیمان کے دیگر سیاحتی مقامات جیسا کہ ماڑی، یکب، مبارکی، مٹ چانڈیہ، زندہ پیر، گرم آف، گلکی، گرکھڑی، نوری ڈھنڈ، گربن، نوروز آبشار وغیرہ کو اپنے بائیک ٹورز اور فوٹوگرافی کے ذریعے سوشل میڈیا پر متعارف کرایا۔

 اندرون شہر اور ملتان کے مضافات میں واقع تاریخی ورثے کو پروموٹ کیا نیز وسیب ایکسپلورر کی سال گرہ پر ہر سال اکتوبر کے آخری ہفتہ میں ’’دیکھ لو ملتان‘‘ کے عنوان سے گرینڈ فوٹوواک اور سیمینار کا انعقاد بھی کیا جاتا ہے جہاں ملک بھر سے سیاح ملتان کا رخ کرتے ہیں اور ملتان کے ورثے، ثقافت، دست کاریوں کو پروموٹ کرتے ہیں۔

اس سال وسیب ایکسپلورر کے ووٹنگ پول میں قرعہ فال قدیم شہر خانپور اور رحیم یار خان کے نام نکلا اور عالمی یومِ سیاحت کی میزبانی اس خطے کو دی گئی جو سیاحت کے حوالے سے برسوں سے نظر انداز چلا آرہا ہے۔ نہ پاکستان ٹوارزم ڈویلپمنٹ کارپوریشن نے کبھی یہاں کوئی پروگرام منعقد کیا اور نہ کبھی محکمہ آثار قدیمہ یا ٹی ڈی سی پی کو اس علاقے کا خیال آیا۔ یہاں کا ورثہ لاوارث ہی رہا۔ لیکن گذشتہ ہفتے نوے کے قریب بائیکرز اور سیاحوں کی آٓمد نے اس خطے کی رونق میں اضافہ کرنے کے ساتھ ساتھ یہاں کے ثقافتی ورثے کی اہمیت کو بھی اجاگر کیا۔

خان پور، رحیم یار خان اور احمد پور لمہ کے چیپٹرز نے اس دن کی خوب میزبانی کی۔

آ میڈا جانیاں                     آ میڈے دیس وچ

سب سے پہلے بائیکر دوست ملتان میں اکٹھے ہوئے جہاں 28 ستمبر بروز ہفتہ، علی الصبح ملتان سے روانگی ہوئی۔ راستے میں جلال پور پیروالہ، بہاولپور اور احمد پور شرقیہ چیپٹرز نے انہیں خوش آمدید کہا اور ان کے ساتھ شامل ہوتے چلے گئے۔ ظاہر پیر میں انہیں ڈیرہ غازی خان، جام پور اور راجن پور کے بائیکرز نے جوائن کیا یوں خانپور پہنچتے پہنچتے یہ قافلہ بڑھتا چلا گیا۔

دین پور شریف اور مولانا عبید اللہ سندھی

خان پور کے قدیم مضافاتی قصبے دین پور شریف میں ’’خانپور ہیریٹیج کلب‘‘ کے شان دار استقبال کے بعد مہمان سیاحوں کو مولانا عبید اللہ سندھیؒ کی کتب و دیگر استعمال کی اشیاء (برتن، کپڑے، کتب، خط، قلمی نسخے) اور خانپور کٹورہ کے نوادرات (جن میں پرانے دھاتی کٹورے، یہاں کی ٹکسال سے جاری ہونے والے سکے اور ڈاک ٹکٹیں شامل تھیں) دکھائے گئے جہاں مرزا حبیب الرحمان اور جناب مبشر دینپوری نے انہیں نوادرات کے حوالے سے بریفنگ دی۔

اپنی قدیم خانقاہ درگاہ عالیہ قادریہ راشدیہ نقشبندیہ، کے حوالے سے مشہور دین پور شریف کے اس قبرستان کا مطالعاتی دورہ کروایا گیا جہاں خطے کے بے شمار مشاہیر دفن ہیں جن میں تحریک ریشمی رومال کے بانی مولانا عبید اللہ سندھیؒ، عالم دین خلیفہ غلام محمدؒ، حضرت مولانا میاں عبدالہادیؒ، حضرت مولانا میاں سراج احمد دین پوریؒ، تحریک ختمِ نبوت کے سپاہی حضرت مولانا عبداللّہ درخواستی، مجاھد تحریکِ آزادی میاں ظہیرالحق دینپوری، مشہور کتاب یدِبیضاء کے مصنف میاں خلیل احمد دینپوری، سرائیکی ادب کا درخشاں ستارہ میاں انیس احمد، ہمایوں اختر خان دینپوری شامل ہیں۔

یہاں ہمارے والد کے دوست سلیم دینپوری صاحب کی طرف سے روایتی مٹی کے کٹوروں میں ٹھنڈے پانی کا بندوبست کیا گیا تھا۔

پھر شرکاء کو برصغیر کی اہم ترین تحریک، ریشمی رومال کا دفتر اور مولانا سندھیؒ کی پرانی لائبریری اور دین پور کی مسجد دکھائی گئی جس کے بعد ریلی شہر کی طرف روانہ ہوئی۔ ایونٹ کے لیے مہمان مقامی ہوٹل تشریف لے گئے جہاں سب سے پہلے ظہرانہ دیا گیا۔ پروگرام کا آغاز وسیم قریشی کی تلاوتِ کلام پاک سے ہوا جس کے بعد نعتِ رسول مقبول اور خواجہ غلام فرید رح کا کلام پڑھا گیا۔ جناب مرزا حبیب صاحب نے خانپور کی تاریخی اہمیت پر روشنی ڈالی۔ سپاس نامہ ناچیز نے پیش کیا۔

خواجہ غلام فریدؒ کا فریدی رومال

نیلی اجرک کے بارے میں تو آپ سب ہی جانتے ہیں۔ اب تو یہ وسیب کی پہچان بن چکی ہے لیکن ایک ایسا پہناوا بھی ہے جو کبھی صرف ضلع رحیم یار خان و راجن پور تک محدود تھا مگر اب سندھ، تھل اور دامان تک پھیل چکا ہے۔ یہ فریدی رومال ہے جس کی نسبت صوفی شاعر حضرت خواجہ غلام فریدؒ سے بتائی جاتی ہے۔

خواجہ صاحب کے تمام مریدین و عقیدت مند یہ رومال گلے میں ڈالتے ہیں اور اکثر اپنے نام کے ساتھ بھی فریدی لگاتے ہیں۔ لال رنگ کا یہ رومال ہماری ثقافت کا امین ہے جس پر منفرد گل بوٹے بنائے جاتے ہیں۔ کچھ لوگ نارنجی رنگ میں بھی استعمال کرتے ہیں۔ یہ اتنا جاذب نظر ہے کہ مریدین کے علاوہ بھی کئی لوگ اسے گلے میں ڈالتے ہیں۔ میرے والد قبلہ سید زاہد حسین بخاری بھی کافی عرصہ اسے پہنتے رہے ہیں۔ سفید سوٹ پر یہ بہت کھلتا ہے۔ بقول ان کے، پاکستان کا دورہ کرنے والے کچھ انگریزوں کو بھی انہوں نے یہ پہنے دیکھا تھا۔

سو ہمیشہ کچھ منفرد کرنے کا شوق رکھنے والے ہمارے والد صاحب نے عالمی یوم سیاحت کے موقع پر خانپور آنے والے معزز سیاحوں کے لیے خاص کوٹ مٹھن سے یہ رومال منگوائے۔ آپ تقریب میں شرکت نہ کرسکے لیکن ان کی طرف سے سید فدا حسین شاہ صاحب نے اعزازی طور پر ہمارے مہمانوں کو پہنایا۔

مہمانِ خصوصی سید فدا شاہ صاحب اور محتشم نقوی صاحب سمیت ناچیز کو وسیب ایکسپلورر کی طرف سے ملتان کی خوب صورت بلیو پاٹری شیلڈز پیش کی گئیں۔ اس کے بعد خانپور ہیریٹیج کلب کے تمام ارکان وسیم قریشی، ولید ملک عباسی ، خواجہ احمد حفیظ، جناب مرزا حبیب الرحمان، وقاص بھٹی، جنید ظفر، ڈاکٹر را? ارسلان، اعزاز ہاشمی اور حفیظ عباسی کو ڈاکٹر مزمل حسین اور ملک عبدالمنان صاحب نے اعزازی شیلڈ دی۔

پھر چائے کا دور چلا جہاں چائے کے ساتھ ساتھ مہمانوں کے لییے خانپور کے مشہور پیڑے رکھے گئے۔ اسی جگہ خان پور کے مشہور بزنس میں جناب خواجہ بشیر احمد اور وقاص رؤف کی طرف سے تمام بائیکرز کو ایک ایک تحفہ دیا گیا۔

یوں ہنسی خوشی ایک بھرپور ایونٹ کا اختتام ہوا اور ہمارے بائیکر دوست تازہ دم ہوکر رحیم یار خان کے لیے روانہ ہوئے۔

رحیم یار خان و پتن مینارہ

بائیکرز کا قافلہ ساڑھے پانچ بجے رحیم یار خان پہنچا جہاں کراس روٹ کلب ضلع رحیم یار کے کوآرڈینیٹر دوست خرم حفیظ اور عثمان شاہد اپنی پوری ٹیم کے ساتھ استقبال کے لیے موجود تھے۔ مہمانوں پر پھول نچھاور کر کے خوش آمدید کہا گیا اور پولیس لائنز میں یادگارِشہدا پہ فاتحہ و دعا کروائی گئی۔ اس موقع پر حال ہی میں ہونے والے سانحہ کچا کے پولیس شہداء کو بھی خراجِ تحسین پیش کیا گیا۔

ریلی کی صورت میں شہر کا ایک چکر لگایا گیا اور پھر ڈسٹرکٹ پریس کلب میں فوجی بینڈ نے قافلے کا استقبال کیا۔

یہاں سب دوست تازہ دم ہوئے، اپنے موٹرسائیکلوں سے سامان آف لوڈ کیا اور پریس کلب کے خوب صورت لان میں اپنے اپنے خیمے گاڑ دیے۔ چائے کا وقفہ ہوا اور یاروں دوستوں کی گپ شپ کے بعد نو بجے تقریب کا آغاز ہوا۔ اس مرکزی تقریب میں تلاوت و نعت کے بعد ضلع رحیم یار خان کا تعارف کروایا گیا۔ جناب خرم حفیظ نے تمام مہمانوں اور سیاحوں کو خوش آمدید کہا۔ قومی اور بین الاقوامی بائیکرز میں رحیم یار خان چیپٹر کی طرف سے انعامات تقسیم کیے گئے اور مہمان چیپٹرز کے لائے گئے تحائف میزبانوں تک پہنچائے گئے۔

رات کے پُرتکلف عشائیے کے بعد سب لمبی تان کے سو گئے۔ ناشتے کے بعد مُوومُوو کی آوازیں لگیں اور یہ سیاحتی قافلہ پتن مینار جا پہنچا۔

رحیم یار خان کی جنوبی سمت صحرائے چولستان میں واقع پتن مینارہ بارے ناچیز پہلے بھی لکھ چکا ہے کہ اس کے بارے میں تاریخ دانوں کی مختلف آراء ہیں۔ کچھ کے نزدیک یہ دریائے ہاکڑہ کے قریب ایک پرانا لائیٹ ہاؤس ہوا کرتا تھا جس کی روشنی میں کشتیاں دریا میں اپنا راستہ تلاش کرتی تھیں، تبھی اس کا نام پتن (دریا کا کنارہ) مینارہ پڑا۔ دریائے ہاکڑہ اب مکمل خشک ہوچکا ہے۔ کچھ اسے بُدھ مت کی خانقاہ اور بیشتر اسے ہندوؤں کی عبادت گاہ کی باقیات مانتے ہیں۔ اسے بغور دیکھیں تو یہ کسی بڑی عبادت گاہ کی باقیات ہی لگتا ہے جس کے قریب ایک سمادھی بھی واقع ہے (جسے اب مسجد بنا دیا گیا ہے)۔

پتن مینار پر پودے لگانے کے بعد رحیم یار خان کو الوداع کہا اور ہم بائی پاس سے صادق آباد کے مضافاتی قصبے احمد پور لمہ جا پہنچے۔

احمد پور لمّہ کا ورثہ

احمد پور لمہ، جو اب ضلع رحیم یار خان کی تحصیل صادق آباد کی ایک یونین کونسل ہے کسی دور میں ریاست بہاول پور کی اہم تحصیل ہوا کرتا تھا جس کا نام اس دور کے مقامی نواب ’’احمد خان عباسی‘‘ کے نام پر رکھا گیا تھا۔ اس عباسی نواب نے اپنے علاقے کی ترقی کے لیے بہت سے کام کیے۔ صادق آباد سے سات کلومیٹر پر واقع اس شہر میں آج بھی قیامِ پاکستان اور اس سے بھی پہلے کے کئی گھر، مندر، حویلیاں اور ریسٹ ہاؤس موجود ہیں جنھیں دیکھنے کے لیے ہمارا سیاحتی قافلہ ملک تنویر، ملک نوید اور زبیر ملک کی دعوت پر یہاں پہنچا۔

قلعہ احمد پور لمّہ

کھنڈرات کی شکل میں موجود یہ قلعہ شہر کے وسط میں واقع ہے جسے نواب احمد خان عباسی نے سندھ کے کلہوڑا حکم رانوں سے حفاظت کے پیشِ نظر تعمیر کروایا تھا۔ ایک وقت تھا جب یہ قلعہ، دیراوڑ کے بعد ریاست کا اہم قلعہ تصور کیا جاتا تھا۔ اس کی دیواریں لگ بھگ 25 فٹ اونچی تھیں جب کہ حملہ آوروں سے بچاؤ کے لیے چاروں طرف بلند و بالا مٹی کے بُرج بنائے گئے تھے جو آج بھی خستہ حالی کا شکار ہیں۔ محافظوں کی رہائش کے لیے کئی کمرے جب کہ قیدیوں کے لیے حوالات اور پھانسی گھاٹ بھی بنایا گیا تھا۔ اگرچہ اس کی بنیادیں مٹی سے بنائی گئی تھیں لیکن کئی جگہوں پر چھوٹی اینٹ کا استعمال بھی کیا گیا ہے۔ اس کی خوب صورت محرابیں اور اینٹوں کا دل کش کام اب بھی کہیں کہیں سے نظر آ رہا ہے۔

قیامِ پاکستان کے بعد اسے تھانہ بنا دیا گیا تھا۔ قلعے کا پھانسی گھاٹ اور اس کے پیچھے احمد پور لمہ کا پرانا تھانہ آج بھی دیکھا جا سکتا ہے جو جگہ جگہ سے منہدم ہوچکا ہے۔ قلعہ دیکھنے کے بعد ہم نے اندرون شہر کا رخ کیا اور بازاروں سے ہوتے ہوئے مختلف حویلیاں دیکھیں جن پر علیحدہ سے لکھوں گا، لیکن ایک اہم جگہ جس کا ذکر کیے بغیر آگے بڑھنا نا انصافی ہوگی، وہ ہے رنگ محل۔

رنگ محل

چوںکہ لمہ تقسیم سے پہلے ریاست بہاول پور کی ایک بڑی تحصیل تھی سو یہاں مسلمان اور ہندو دونوں بڑی تعداد میں رہتے تھے، اور آپ جانتے ہی ہیں کہ ہندو تاجروں کو خوب صورت گھر اور کوٹھیاں بنانے کا بہت شوق تھا۔ وہ بڑی چاہ سے اپنا سرمایہ ان تعمیرات پر لگاتے تھے۔

احمد پور لمہ کے اندرون شہر میں ایک کونے پر کھڑا رنگ محل، 1870 میں رنگوں کے تاجر ’’بھگت موہن داس‘‘ کا تعمیر کردہ شاہ کار ہے جو اندر سے اپنی خوب صورتی برقرار رکھے ہوئے ہے۔ چار منزلہ عمارت کی دو منزلیں نہ جانے کب کی گر چکی ہیں جب کہ بقیہ دو ہماری بے حسی پر نوحہ کناں ہیں۔ سرخ اینٹوں کی اس عمارت میں بہترین لکڑی سے بنائی گئی کھڑکیاں، روشن دان، تیرہ دروازے اور اندرونی ہال کی ایک خوب صورت بارہ دری اب بھی موجود ہے۔ بارہ دری سمیت چھتوں پر مختلف رنگوں سے نقش و نگار بنائے گئے ہیں جن کے بیچ میں کہیں کہیں شیشے بھی دیکھنے کو ملتے ہیں۔ شاید اسی لیے اس کا نام رنگ محل ہے۔ اس کے مالکان تقسیم کے وقت ہندوستان چلے گئے تھے۔ کہتے ہیں کہ کبھی اس کے ہر کونے میں سرِشام چراغ جلائے جاتے تھے۔ سوچیں اس دور میں یہ رنگ محل کیسا خوب صورت لگتا ہوگا۔ کاش کہ ہمارا کوئی محکمہ اسے پاکستان کا قومی ورثہ سمجھتے ہوئے سنبھال لے اور بھگت موہن داس کی روح کو سکون مل جائے۔

رنگ محل کے جنوب میں ہم نے ایک پرانا مندر دیکھا جو اب بھی مکمل طور پر موجود تھا۔ اس کے آس پاس اب بھینسوں کا طویلہ بنا دیا گیا ہے۔ خوشی اس بات کی ہے کہ لمّے کے لوگوں نے اپنے تاریخی ورثے کو نقصان نہیں پہنچایا بلکہ اسے سنبھال کے رکھا ہے۔

احمد پور لمّہ میں میزبانوں کی طرف سے ظہرانہ دیا گیا اور تمام بائیکرز نے اپنے اپنے شہروں کی طرف واپسی کی راہ لی۔

دوستو، ابھی احمد پور لمہ میں بہت کچھ باقی ہے۔ یہ شہر تاریخ سے بھرا پڑا ہے جو آپ تک پہنچانا مجھ پہ ادھار رہا۔



[ad_2]

Source link

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں