[ad_1]
پاکستان دنیا کا پانچواں سب سے زیادہ آبادی والا اور دوسرا سب سے بڑا مسلم آبادی والا ملک ہے، جب کہ رقبے کے لحاظ سے تیتیسواں بڑا ملک ہے اس وقت پوری دنیا کو عالمی ماحولیاتی تبدیلیوں کا سامنا ہے اور جو ممالک بری طرح متاثر ہو رہے ہیں ان میں پاکستان کا پانچواں نمبر ہے۔ ایک تحقیق کے مطابق ماحولیاتی تنزلی سے ہر سال پاکستانی معیشت کو تقریباً پانچ سو ارب روپے کا نقصان ہوتا ہے اور اس میں بتدریج اضافہ ہورہا ہے، جس سے پاکستان کے دیگر مسائل بڑھتے چلے جا رہے ہیں۔
دنیا بھر میں ہونے والی ماحولیاتی تبدیلیوں سے ہونے والا یہ ایسا نقصان ہے جس میں پاکستانیوں کا قصور نہیں، بلکہ اس کا تعلق امیر ممالک سے ہے، جن کے ہاں کاربن کے زیادہ اخراج سے یہ تبدیلیاں واقع ہورہی ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پاکستان کے شہری اتنی زیادہ ماحولیاتی تبدیلی کی قیمت کسی غلطی کے بغیر کیوں ادا کر رہے ہیں؟ موسمیاتی تبدیلیوں کا سبب بننے والی گرین ہاؤس گیسز کے اخراج میں پاکستان کا کردار نہ ہونے کے برابر ہے جب کہ دُہری قیمت پاکستان اور یہاں بسنے والے لوگوں کو ادا کرنا پڑ رہی ہے۔
آج کل عالمی ماحولیاتی تبدیلی سے پاکستان بری طرح متاثر ہو رہا ہے۔ پہلے بڑھتے ہوئے درجۂ حرارت اور پھر سیلاب کا سامنا کیا۔ حالاں کہ دنیا میں جو کاربن فضا میں بھیجی جارہی ہے، پاکستان کا اس میں ایک فی صد سے بھی کم حصہ ہے، جب کہ پاکستان کو جن مسائل کا سامنا ہے ان کی وجہ خود پاکستان نہیں ہے۔
ضرورت ہے کہ پاکستان کو جس قسم کے نقصان کا سامنا کرنا پڑا آیندہ اس سے نمٹنے کے لیے تیار ہوا جائے اور اس کے لیے عالمی برادری کو پاکستان ساتھ دینا چاہیے ورلڈ بینک دنیا بھر میں کلائمیٹ فنانسنگ کے نام پر منصوبے جاری کیے ہوئے ہے۔ تاہم موسمیاتی کارروائی کا مطلب یہ نہیں ہونا چاہیے کہ ترقی پذیر ممالک کو اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے جو انھوں نے پیدا ہی نہیں کیا ہے، مزید قرض دیا جائے بلکہ ان کی مدد کی جائے تاکہ وہ ان حالات سے نبرد آزما ہوسکیں، کیوں کہ قرض اور قومی آمدنی کے تناسب میں اضافہ کم زور معیشتوں کی کریڈٹ ریٹنگ کو مزید متاثر کررہا ہے۔
اس وقت صوبہ سندھ میں ورلڈ بینک کے 3.4 ارب ڈالرز کے 14 منصوبے جاری ہیں جبکہ پاکستان میں عالمی بینک کے تعاون سے 58 منصوبوں پر کام جاری ہے۔ منصوبوں کی مجموعی لاگت 14 ارب 80 کروڑ ڈالر ہے۔
پاکستان کو اب تک 6 ارب 16 کروڑ ڈالر مل چکے ہیں۔ عالمی بینک 2029 تک مزید 8 ارب 70 کروڑ ڈالر قرضہ فراہم کرے گا جب کہ ایشیائی ترقیاتی بینک کے قرض پر 40، گرانٹ میں سے 14 منصوبے جاری ہیں۔ اے ڈی بی کے 40 منصوبوں کی لاگت 7 ارب 23 کروڑ 24 لاکھ ڈالر ہے۔ ان 40 منصوبوں کے لیے اے ڈی بی 3 ارب 20 کروڑ 27 لاکھ ڈالر جاری کرچکا ہے۔ اس میں موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے نمٹنے کے لیے مالی معاونت کے متعدد منصوبے شامل ہیں۔
اقوام ِمتحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس نے بھی پاکستان کے سیلاب زدہ علاقوں کا دورہ کرنے کے بعد یہ تجویز دی تھی کہ پاکستان اور اس جیسے دیگر ممالک جو ماحولیاتی تبدیلیوں کے اثرات سے زیادہ متاثر ہیں اور انتہائی مشکل معاشی صورتِ حال سے بھی گزر رہے ہیں۔
ان کے لیے قرضوں کی ادائیگی میں آسانی کا نظام بنایا جائے، جب کہ دولتِ مشترکہ کی سیکریٹری جنرل پیٹریشیا سکاٹ لینڈ نے بھی کہا تھا کہ گرین ہاؤس گیسز کے اخراج میں پاکستان کا ہاتھ نہ ہونے کے برابر ہے لیکن پھر بھی پاکستان کو 2022 کے سیلاب میں سب سے نقصان پہنچا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ ایک پاکستانی شہری کا آب و ہوا میں تبدیلی کے بحران یا واقعات سے مرنے کا امکان دوسرے ممالک کے مقابلے میں 15 گنا زیادہ ہے۔
اگر ہم ماضی کی بات کریں تو بہت سے ممالک جہاں قحط یا دیگر قدرتی آفات آئیں، انہیں ماضی میں قرض معاف کیا جاتا رہا ہے جیسا کہ ایک وقت میں مصر کے قرضے بھی معاف کیے گئے تھے جو عراق جنگ میں امریکی اتحاد میں شامل رہا تھا اور اس کے نتیجے میں بطور انعام امریکا اور اس کے 17 اتحادی ممالک نے اس کے ذمہ اپنے آدھے قرضے معاف کردیے تھے، جو 10 ارب ڈالر سے زائد تھے۔ مصر کو اس زمانے میں سیاحوں کی آمد میں کمی، سوئز کینال سے حاصل ہونے والی آمدنی میں کمی اور بیرون ملک مقیم مصریوں کی جانب سے غیرملکی زرِمبادلہ کم ملنے سے کافی معاشی مشکلات کا سامنا تھا۔
ایک تحقیق کے مطابق 2025 تک پاکستان کی آبادی تقریباً 23 کروڑ 40 لاکھ تک پہنچ جائے گی جس کا مطلب ہے کہ بڑے شہروں میں گاڑیوں کی تعداد میں مزید اضافہ ہوگا۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق اس عرصے میں تقریباً 30 لاکھ مزید گاڑیاں بشمول موٹرسائیکلیں اور رکشے سڑکوں پر موجود ہوں گے اور آلودگی میں مزید اضافے کا باعث بنیں گے۔ آبادی کے بڑھنے سے ہمارے پانی کے ذخائر پر بھی برا اثر پڑے گا اور ان میں نہ صرف کمی آئے گی بلکہ ان کی آلودگی میں بھی خطرناک حد تک اضافہ ہوگا جو واقعی ایک خطرے کی گھنٹی ہے۔
بڑھتی ہوئی آبادی اور شہروں میں نقل مکانی سے ٹھوس فضلے میں بھی سنگین اضافہ ہورہا ہے۔ ہمارے ہاں کبھی بھی سنجیدگی سے اس مسئلے پر توجہ نہیں دی گئی اور ٹھوس فضلے کو ختم کرنے کے جدید طریقوں پر کم ہی انحصار کیا گیا ہے۔ عموماً ہمارے ہاں ٹھوس فضلے (سالڈ ویسٹ) کو جلا دیا جاتا تھا ہے جس کی وجہ سے ہوائی آلودگی میں اضافہ دیکھنے میں آیا، جب کہ دوسری طرف صنعتی فضلہ بھی بغیر کسی صفائی کے سمندر اور دریاؤں میں بہا دیا جاتا ہے یا کھلی جگہوں پر پھینک دیا جاتا ہے۔ یہ فضلہ آخر کار ہمارے زیر زمین پانی کے ذخائر میں شامل ہو کر انہیں بھی آلودہ کر دیتا ہے۔
پاکستان کو موسمی تبدیلی سے بھی بہت خطرے لاحق ہیں۔ یہ خطرات ہمارے جغرافیائی محل وقوع، بہت بڑی آبادی اور کم تیکنیکی مہارت کی وجہ سے مزید مہلک ہوگئے ہیں۔ ہمارے جنگلات کے کٹاؤ سے قدرتی آفات کے واقعات میں خطرناک حد تک اضافہ ہوا۔ اس کے ساتھ جیسے جیسے ہماری ترقی میں اضافہ ہو رہا ہے اسی طرح گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں بھی غیرمعمولی اضافہ دکھائی دے رہا ہے۔ ہمارے ہاں موسمی تبدیلی سے متعلق کافی ادارے قائم کیے گئے ہیں مگر ان کی کارکردگی توقعات کے برعکس رہی ہے۔
موسمی تبدیلی اور اس سے متعلقہ مسائل پاکستان کے لیے ایک وجودی خطرہ ہے اور ضروری ہے کہ تمام متعلقہ ادارے اس سنگین خطرے سے نمٹنے کے لیے بین الاقوامی اداروں کے ساتھ مل کر ایک مربوط منصوبے کا آغاز کریں۔ ماحولیاتی تبدیلیاں پاکستان کے لیے مشکلات لا رہی ہیں جب کہ ہمسایہ ممالک کے برعکس پاکستان میں ڈیمز پر بالکل توجہ نہیں دی گئی جس سے ملک کو پینے کے صاف پانی کی قلت کے باعث کئی مسائل درپیش ہیں۔ ماہرین کے مطابق ماحولیاتی تبدیلیاں اور عالمی درجۂ حرارت میں اضافے کی وجہ سے آنے والے وقت میں یہ مسائل زیادہ شدید ہوسکتے ہیں۔
پاکستان کو امداد کے بجائے موسمیاتی انصاف کی بات کرنا چاہیے کیوں کہ امداد، دیگر ممالک احسان سمجھ کردیتے ہیں جب کہ ہمیں ترقی یافتہ ممالک کی جانب سے کاربن کے اخراج کی صورت میں پہنچنے والے نقصان کا ازالہ درکار ہے۔ اس کے لیے دنیا کو پاکستان کا کیس صحیح طریقے سے پیش کرنے کے ساتھ سفارتی دباؤ کو بھی استعمال کرنا ہوگا۔ پاکستان کے سفیروں اور سفارتی عملے کو اس حوالے سے آگاہی ہونی چاہیے تاکہ وہ عالمی سطح پر پاکستان کا مقدمہ لڑ سکیں، کیوںکہ ماضی کے ریکارڈ کو سامنے رکھتے ہوئے تجزیہ کیا جائے تو پاکستان کی کسی بھی حکومت یا دفتر خارجہ نے گذشتہ دس برسوں کے دوران ایک بار بھی موسمیاتی تبدیلی اور پاکستان کی سلامتی کو اس سے لاحق خطرات کو ملک کی سفارت کاری کا مرکز و محور نہیں بنایا۔
اس غیرفعالیت کی وجوہات ہم سب پر عیاں ہیں جس میں کرپشن کے بعد اہم ترین وجہ یہ ہے کہ بین الاقوامی سطح پر پاکستان کا مقدمہ پیش کرنے کے لیے ہمارے پاس موسمیات سے متعلق سفارت کاری یا عوامی سفارت کاری کی استعداد نہیں ہے جب کہ دوسری طرف ترقی یافتہ ممالک کی اخلاقی ذمے داری ہے کہ وہ امداد فراہم کریں نہ کہ قرض کی صورت میں ہم پر احسان کریں۔
ہمارا ملک موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے نمٹنے کے لیے مالی معاونت کے قرضوں کے بوجھ تلے دبتا جارہا ہے جس کا خمیازہ آخر ایک عام شہری کو ہی بھگتنا پڑتا ہے۔ کسی بھی نئے پراجیکٹ کو شروع کرنے سے پہلے کمیونٹیز اور ان لوگوں کے ساتھ براہ راست پہلے ڈیزائننگ کی مشاورت ہونی چاہیے اور اس بات کو یقینی بنایا جانا چاہیے کہ عام آدمی کی زندگی اس سے متاثر تو نہیں ہوگی۔ کمیونٹی کو اعتماد میں لے کر منصوبہ شروع کرنے سے منصوبوں کو دیرپا بنایا جا سکتا ہے۔
[ad_2]
Source link