[ad_1]
ایک دن نبی کریم ﷺ کسی انصاری کے باغ میں داخل ہوئے۔ اچانک ایک اونٹ آیا اور آپ ﷺ کے قدموں میں لوٹنے لگا۔ اس وقت اس کی آنکھوں میں آنسو تھے۔ نبی کریم ﷺ نے اس کے سر پر ہاتھ پھیرا جس سے وہ پُرسکون ہوگیا۔ پھر نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ’’اس اونٹ کا مالک کون ہے؟ تو وہ دوڑتا ہُوا آیا۔ آپ ﷺ نے اس سے فرمایا: ’’اس کو اﷲ تعالیٰ نے تمہاری ملکیت میں کر دیا ہے، اﷲ سے ڈرتے نہیں ؟ یہ مجھ سے شکایت کر رہا ہے کہ تم اسے بھوکا رکھتے ہو اور اس سے محنت و مشقت کا کام زیادہ لیتے ہو۔‘‘
ظلم چاہے انسان کے ساتھ ہو کہ جانور کے ساتھ دونوں صورتوں میں ناقابلِ قبول اور اﷲ تعالی کے عذاب کو دعوت دینے کے مترادف ہے۔ انسان تو پھر بھی عقل و شعور رکھتا ہے اور اپنے اوپر ہونے والے ظلم کے خلاف عملی رد عمل نہیں تو کم از کم زبان سے تو اس کے خلاف بولنے کی طاقت رکھتا ہے۔ یہ تو بے زبان جانور ہیں کہ جو ان دونوں نعمتوں سے محروم ہیں لہذا اس اعتبار سے ان پر ظلم کرنا یقیناً ظلم کی بھی بدترین صورت ہے! یہی وجہ ہے جانوروں کے ساتھ ظالمانہ رویہ رکھنے والوں پر لعنت کی گئی ہے۔ یہاں تک کہ جس طرح انسان کے چہرے پر مارنے سے منع کیا گیا ہے اسی طرح جانوروں کے چہروں پر بھی مارنے سے منع کیا گیا ہے، بل کہ ایسے لوگوں کے لیے تو نبی کریم ﷺ نے بَددعا فرمائی ہے۔ چناں چہ نبی کریم ﷺ کے پاس سے ایک گدھا گزرا جس کے چہرے کو داغ دیا گیا تھا تو آپ ﷺ نے فرمایا: ’’کیا تمہیں یہ بات نہیں پہنچی ہے کہ میں نے اس شخص پر لعنت کی ہے جو جانوروں کے چہرے کو داغ دے یا ان کے چہرہ پہ مارے۔‘‘ پھر آپ ﷺ نے اس سے منع فرمایا۔
بلاشبہ! حیوانات اﷲ تعالیٰ کی عطا کردہ عظیم نعمت ہیں کہ جنہیں نہ صرف انسانوں کے تابع کیا گیا ہے بل کہ انسانوں کے بے شمار مفادات بھی انہی سے وابستہ ہیں۔ دین اسلام نے ان جانوروں کو جو غیر معمولی حیثیت دی ہے اسے بیان کرنے کے لیے یہی بات کہہ دینا کافی ہے کہ قرآن مجید میں متعدد حیوانات کا تذکرہ کیا گیا ہے بل کہ کئی ایک سورتیں البقرہ (گائے)، الانعام (چوپائے)، النحل (شہد کی مکھی)، النمل (چیونٹی)، العنکبوت (مکڑی)، الفیل (ہاتھی) ہیں کہ جنہیں حیوانات کے ناموں سے موسوم کیا گیا ہے۔
جس طرح کسی انسان پر ظلم و زیادتی کرنا حرام ہے اسی طرح ان بے زبان جانوروں پر بھی ظلم و زیادتی کرنا حرام ہے حتی کہ ان حیوانات کو بلاوجہ جسمانی اذیت دینا تو دور کی بات ان کو برا بھلا کہنے اور ان پر لعنت کرنے سے بھی نبی ﷺ منع فرمایا ہے، تاکہ اس خود غرضی پر قائم رویے کی (کہ جانوروں سے فائدہ بھی حاصل کیا جائے اور انہیں تکلیف بھی پہنچائی جائے چاہے وہ زبان ہی سے کیوں نہ ہو) حوصلہ شکنی ہو۔ چناں چہ ایک خاتون نے جب اپنی سواری (اونٹنی) پر لعنت کی تو آپ ﷺ نے بہ طورِ زجر و توبیخ (ڈانٹ کے) اس سواری کو استعمال کرنے سے منع فرما دیا اور فرمایا، مفہوم: ’’اس سے (کجاوہ اور سامان ) اتار دو بلاشبہ یہ اب ملعونہ ہے۔‘‘
چناں چہ صحابہؓ نے اس سے (سامان وغیرہ) اتار دیا۔
ایک اور روایت میں آپ ﷺ نے مرغ کو گالی دینے سے منع فرمایا: چنانچہ فرمایا، مفہوم:
’’مرغ کو گالی نہ دو، چوں کہ وہ نماز کے لیے جگاتا ہے۔‘‘
سوچیے! جب زبان سے ان جانوروں کو تکلیف پہنچانے سے منع کیا گیا ہے حالاں کہ یہ ان باتوں کو سمجھتے بھی نہیں ہیں تو ہاتھوں سے ان پر ظلم کرنا اور انہیں تشدد کا نشانہ بنانا یا ان کے کسی عضو کو کاٹ ڈالنا اس کی کیوں کر اجازت ہوسکتی ہے ؟
جانوروں پر ظلم کرنے کا انجام:
ایک بندہ مؤمن کے لیے سب سے بڑی وعید جہنم ہے اور جس عمل پر یہ وعید وارد ہوئی ہو یقیناً وہ کام بھی انتہائی ملعون اور قابلِ نفرت ہے۔ جانوروں پر ظلم کرنے کا معاملہ بھی اسی طرح کا ہے۔ ایک عورت کو اس لیے عذاب دیا گیا کہ وہ بلی کو باندھ کر رکھتی تھی۔ نہ کھلاتی نہ پلاتی اور نہ اس کو چھوڑتی تھی کہ وہ خود کچھ کھا لے۔
جانور کے ساتھ حسنِ سلوک کا انجام:
جس طرح ایک بندۂ مومن کے لیے جہنم کی وعید سب سے خطرناک وعید ہے اسی طرح کسی عمل پر مغفرت کا وعدہ اس کے لیے ایک عظیم خوش خبری ہے کہ جو اسے اس عمل کو سر انجام دینے پر ابھارتا ہے۔ چناں چہ ایک بدکار عورت کو محض جانور کے ساتھ حسنِ سلوک کی بنا پر بخش دیا جانا یہ اس عمل کی عظمت اور اﷲ تعالی کی خوش نُودی کی دلیل ہے۔ صحیح بخاری کی روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا، جس کا مفہوم یہ ہے کہ ایک دفعہ کوئی کتّا کسی کنویں کے چاروں طرف گھوم رہا تھا۔ قریب تھا کہ پیاس کی شدت سے اس کی جان نکل جائے۔ اچانک ایک بدکارہ عورت نے اسے دیکھ لیا تو اس نے اپنا موزہ اتارا اور کتے کو پانی پلایا۔ اﷲ تعالیٰ کے ہاں اسی عمل کی وجہ سے اسے معاف کر دیا گیا۔
نبی صلی اﷲ علیہ وسلم نے جانوروں کے ساتھ بَدسلوکی کرنے والوں کو بد دعا دی ہے۔
حضرت ابنِ عمر رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ ان کا گزر قریش کے چند نوجوانوں کے پاس سے ہوا جو کسی پرندے یا مرغی کو نشانہ بنا رہے تھے۔ حضرت ابنِ عمر رضی اﷲ عنہ نے ان کو دیکھا تو وہ وہاں سے منتشر ہوگئے اور آپؓ نے فرمایا کہ نبی ﷺ نے اس شخص پر لعنت فرمائی ہے جو کسی جان دار چیز کو باندھ کر اس پر نشانہ لگائے۔
غور کیجیے! جس عمل پر نبی ﷺ نے لعنت فرمائی ہو اور وہ انسان کو جہنم کی طرف لے جاتا ہو تو وہ اﷲ تعالی کے نزدیک کتنا سنگین جرم ہوگا؟
نبی کریم ﷺ نے تو ہر ان امور سے منع فرمایا ہے کہ جس سے جانوروں کو تکلیف پہنچتی ہو۔ یہی وجہ ہے کہ نبی کریم ﷺ نے جانوروں کو آپس میں لڑانے سے بھی منع فرمایا ہے۔ یہاں تک کہ جانور کو ذبح کرنے کے بھی آداب بیان فرمائے ہیں تاکہ انسان کی کسی عجلت اور غفلت کی وجہ سے جانوروں کو تکلیف نہ ہو۔ چناں چہ ایک شخص بکری کو لٹانے کے بعد جب چھری کو تیز کرنے لگا تو نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ’’کیا تم اس کو دو موت مارنا چاہتے ہو؟ کیوں تم نے اپنی چھری کو اس کے لٹانے سے پہلے تیز نہیں کر لیا؟۔‘‘
اور فرمایا: ’’جب تم ذبح کرو تو اچھے طریقے سے ذبح کرو، اپنی چھری کو تیز کرلو اور جانور کو آرام دو۔‘‘
نبی ﷺ نے جانوروں کے ساتھ بہترین سلوک کرنے کا حکم دیا ہے لہذا ہمیں چاہیے کہ ہم جانوروں کے ساتھ اپنے برتاؤ کا جائزہ لیں کہ کیا ہمارا جانوروں کے ساتھ وہی برتاؤ ہے کہ جس کی تاکید ہمیں کی گئی ہے؟ کہیں ہم بھی جانوروں کے حقوق کی ادائی میں کوتاہی کرکے اﷲ تعالی کے عذاب کے مستحق تو نہیں ٹھہر رہے؟
ضرور سوچیے!
[ad_2]
Source link