47

26 ویں آئینی ترمیم ،کس نے کیا کھویا کیا پایا؟ (آخری حصہ)

[ad_1]

26 ویں آئینی ترمیم کے معرکے میں کس نے کیا کھویا کیا پایا پر بات کرتے ہوئے گزشتہ کالم ہم تحریک انصاف پر بات کر چکے ہیں۔

ان ترامیم سے مسلم لیگ ن کے دامن میں اتنا نہیں آیا جتنا وہ توقع کیے بیٹھی تھی، انھوں نے تھوڑا پایا اور زیادہ کھویا۔ سیاسی چہرہ مزید داغدار ہوا۔ مطلوبہ نتائج حاصل نہ کرنے پر اسٹیبلشمنٹ کی نظروں میں بھی اپنا مقام کھو دیا۔ مگر کہا جاسکتا ہے کہ ترمیمی بل پاس ہونے پر حکمران جماعت کو فیس سیونگ کا موقع مل گیا۔ پیپلز پارٹی کی پوزیشن مسلم لیگ ن سے کافی بہتر رہی، تحریک انصاف کے بعد بلاول بھٹو زرداری مولانا کے نقادوں میں سے بڑے نقاد تھے انھوں نے نہ صرف مولانا جیسے زیرک سیاستدان کا قرب اور اعتماد حاصل کیا بلکہ مولانا کی کشتی میں سوار ہو کر قومی اتفاق رائے کی بات کرنے لگے، پہلی بار اپنے والد کے انداز سیاست کو لے کر چلے اور اپنے بارے میں ایک زیرک سیاستدان کا تاثر دینے میں کامیاب ہوئے، بلاول بھٹو زرداری نے مولانا کے گھر میں ایسے ڈیرے ڈالے کہ تحریک انصاف کی قیادت سے بھی وہاں ملاقات ہوگئی جو سیاسی اعتبار سے بڑی پیش رفت ہے اس لیے کہہ سکتے ہیں کہ انھوں نے کھونے سے زیادہ پایا۔

اب آتے ہیں مولانا فضل الرحمٰن اور ان کی جماعت کی طرف تو یہ زبان زد عام ہے کہ مولانا نے پایا ہی پایا ہے، وہ بھی پایا جو کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا اور شاید خود مولانا کوبھی اتنا کچھ پانے کی توقع نہیں تھی، انھوں نے آگ اور پانی کو ملایا، بکری اور شیر کو ایک گھاٹ پر پانی پلایا اور ایک مدبر، دانا اور بزرگ سیاستدان ہونے کا رول ادا کرتے ہوئے ملک کو ایک بڑے آئینی بحران سے بچایا۔ ایک دوسرے سے ہاتھ نہ ملانے والے سیاسی حریفوں کو قریب لانے میں کامیاب ہوئے۔ اگر چہ یہ ترامیم متفقہ نہیں مگر اس پر وہ قومی اتفاق رائے پیدا کر کے آگے بڑھے، عوامی سطح پر جو پذیرائی ان کو ملی وہ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں ایسے مواقع پر کسی کو نہیں ملی۔ آئینی ترمیمی بل اس طرح خوش اسلوبی سے پاس ہونے کا سہرا مولانا فضل الرحمٰن کے سر سجا، مولانا فراست سے کام نہ لیتے تو ملک ایک بڑے آئینی بحران کی جانب چلا جاتا۔ اس پر دوست دشمن، حلیف، حریف سب قائل ہیں کہ آئینی ترمیم بل کے معرکے میں مولانا نے وہ کچھ حاصل کیاجو کسی کے وہم و گمان میں نہیں تھا۔

 قومی اسمبلی اور سینیٹ کی چند سیٹوں کے ساتھ مولانا کے کردار نے سب کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا۔ ایسا لگ رہا تھا کہ یہ پوری بساط اللہ رب العزت نے مولانا فضل الرحمٰن کو نوازنے اور مخلوق کے ہاتھوں ان کو دیے گئے دکھوں کا مداوا کرنے کے لیے بچھائی تھی۔ پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم سے مولانا کے کندھوں پر چڑھ کر ایوان اقتدار تک رسائی حاصل کرنے بعد مولانا کی کمر میں خنجر پیوست کرنے والے انھیں اپنا مرشد مان گئے۔ وہ نواز شریف جو فون تک نہیں سنتے تھے مولانا کے در پر حاضری کی درخواستیں کرنے لگے۔

وہ بلاول بھٹو زرداری جنھوں نے کبھی مولانا کے بارے کلمہ خیر نہیں کہا وہ مولانا کے ساتھ چمٹ کر رہ گئے اور مولانا کو اپنا سیاسی مرشد مان کر ان کے سامنے سر تسلیم خم کر دیا۔ وہ تحریک انصاف جس کے گالم گلوچ بریگیڈ نے مولانا کی بے توقیری میں بدتمیزی کی ہر حد پھلانگ دی تھی اور مولانا فضل الرحمٰن کو اپنا سب سے بڑا سیاسی دشمن گردانتے تھے جن کی پوری سیاست مولانا دشمنی اور نفرت پر قائم تھی وہ ان کے در پر ایسے سجدہ ریز ہوئے کہ یقین نہیں آتا، تحریک انصاف کے وہ قائدین جو مولانا کو مولانا کہنا لفظ مولانا کی توہین سمجھتے تھے مولانا کی اقتدا میں نمازیں پڑھنے میں سرور محسوس کرنے لگے۔

پتہ نہیں مسلم لیگ، پیپلزپارٹی اور خصوصاً تحریک انصاف کے قائدین اس یوٹرن پر اپنے کارکنان کو کیا منہ دکھائیں گے، کیونکہ کہ اگر مولانا کو سیاسی مرشد بنانا تھا تو پھر کیوں ماضی میں مولانا کے خلاف سوشل میڈیا پر اخلاقیات سے گرے ہوئے ٹرینڈز چلوائے، نام بگاڑے؟ اس معرکے میں مولانا کا سیاسی قد کس ناقابل یقین حد تک بڑھ گیا ہے اس کا اندازہ سوشل میڈیا اور اخبارات میں لکھنے والے اہل دانش کے خیالات سے لگایا جاسکتا ہے۔

وہ لوگ جن کے منہ اور قلم سے کبھی مولانا کے بارے میں کلمہ خیر نہیں نکلا وہ مولانا کو سیاست کی یونیورسٹی قرار دے کر تمام سیاستدانوں کو مشورہ دے رہے ہیں کہ سیاست کرنی ہے تو مولانا کی شاگردی اختیار کریں۔

میرے خیال میں مولانا کو چاہیے کہ ایک شارٹ کورس تو تمام سیاستدانوں کے لیے شروع کریں تاکہ اس ملک میں سیاسی استحکام آجائے۔ اگر مولانا نہ ہوتے تو ملک ایک آئینی بحران، انتشار اور نفرت کی سیاست کی نئے دلدل کی طرف بڑھ رہا تھا، انھوں نے کمال مہارت و فراست سیاسی استحکام میں بدل کر تمام سیاسی جماعتوں اور اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ پوری قوم پر احسان کرکے ملک کو بحرانی کیفیت سے نکالا۔ افہام و تفہیم کے بادشاہ مولانا نے کچھ لو اور کچھ دو کی بنیاد پر معاملات کو آگے بڑھا کر سب کو راضی کیا۔ مولانا کی سب سے بڑی کامیابی سود اور مدارس کے رجسٹریشن کے حوالے سے ترامیم ہیں جس سے مولانا خالق و مخلوق دونوں کی نظروں میں سرخرو ہوئے۔

مولانا نے جو ترامیم اس سلسلے میں پیش کیں، وہ اسلامی اور اخلاقی اقدار کا مظہر اور ان کے منشور کا حصہ ہیں، کراچی سے لے کر خیبر تک عوام نے ان پر دل وجان سے خوشیاں منائی، گزشتہ جمعہ کو ملک بھر کی دینی جماعتوں اور ہر مکتبہ فکر نے ان ترامیم پر یوم تشکر منایا۔ ان ترامیم میں سب سے بڑی، اعلٰی اور ارفع ترمیم 2028تک سود ی نظام کے خاتمے کے لیے تاریخ کا تعین ہے، اس سے پہلے دو بار وفاقی شریعت عدالت سودی نظام کے خاتمے کے لیے فیصلے دے چکی ہے، دونوں باران فیصلوں کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیلیں کی گئیں۔

 اس سارے عمل میں کئی دہائیاں گزر چکی ہیں، آگے کتنا وقت لگتا کسی کو کچھ علم نہیں لیکن مولانا نے اس ترمیم کے ذریعے آئینی گارنٹی حاصل کرلی ہے جس کے تحت حکومت پابند ہے کہ وہ اس ملک سے 2028 تک سودی نظام ختم کردے گی۔ اگر وفاقی شریعت عدالت کا فیصلہ سپریم کورٹ میں چیلنج کیا جائے گا تو عدالت عظمیٰ اس پر ایک سال کے اندر فیصلہ سنانے کی پابند ہوگی، اگر ایک سال میں فیصلہ نہ آیا تو وفاقی شریعت عدالت کے فیصلے پر ہی عمل ہوگا۔ ایک بڑی آئینی ترمیم مدارس دینیہ کے حوالے سے ہوئی، مولانا کی تجویز پر پارلیمنٹ سے سوسائٹیز ایکٹ ترمیمی بل منظور کروایا گیا، جس سے ہزاروں مدارس کی ایک بڑی مشکل حل ہوگئی، اب دینی مدارس کی رجسٹریشن کا معاملہ علماء کی منشاء کے مطابق ہوگا۔

 ملک بھر کے دینی مدارس نہ صرف رجسٹرڈ بلکہ بینک اکاؤنٹ بھی کھول سکیں گے۔ پہلے سے قائم مدارس کو بھی قانونی تحفظ مل گیا ہے، رجسٹریشن کے لیے چھ ماہ سے ایک سال کی مہلت بھی دستیاب ہوگی۔ لب لباب یہ کہ مولانا فضل الرحمٰن نے وہ کچھ پایا جو کسی کے وہم و گمان میں نہیں، سب سے بڑھ کر انھوں نے عوامی سطح پر وہ بے مثال مقبولیت پائی جس کی نظیر نہیں ملتی، اپنے پرائے سب مولانا کے گن گانے لگے ہیں۔ واقعی وہ سیاست کے سلطان بن کر وکٹری اسٹینڈ پر بہت بڑے سیاسی قد کے ساتھ کھڑے ہیں اور باقی سارے سیاستدان ان کے سامنے بونے نظر آرہے۔

شنید ہے کہ حکومت 26 ویں آئینی ترمیم بل کی کسر نکالنے کے لیے 27 ویں آئینی ترمیم لانے کی تیاریاں کررہی ہے مگر مولانا نے چناب نگر میں عظیم الشان ختم نبوت کانفرنس کے لاکھوں شرکا اور شمع رسالت کے پروانوں سے خطاب کرتے ہوئے دو ٹوک الفاظ میں یہ اعلان کردیاہے کہ جن چیزوں کو ہم نے مسترد کردیا تھا انھیں کسی کا باپ بھی آئین کا حصہ نہیں بنا سکتا۔ انھوں نے ثابت کر دیا کہ وہ ذاتی مفاد کے بجائے اسلام کی سربلندی اور پاکستان کی سالمیت کے لیے میدان میں کھڑے ہیں، اب مولانا ہی اس ملک کے مظلوم عوام کی آخری امید ہیں، اللہ تعالیٰ مولانا کو استقامت عطا کرے۔ آمین



[ad_2]

Source link

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں