36

کیں راہ بہ ترکستان است

[ad_1]

پاکستان میں ان دنوں ’’ٹاپوٹاپ‘‘ انڈسٹری ’’نمبرون‘‘ کے بارے میں تو ہم کچھ نہیں کہیں گے کیونکہ ابھی ہمارا سر اپنے کاندھوں پر بھاری نہیں ہوا ہے، ویسے بھی مرشد نے کہا ہے کہ جس کو ہو دین و دل عزیز اس کی گلی میں جائے کیوں؟دوسری انڈسٹری تو آپ کو بھی پتہ ہے کہ سیاست ہے، اس لیے اس کے بارے میں کچھ کہنا فضول ہے۔

مشک آنست کہ خود ببوید

نہ کہ عطار بگوید

اور اس’’مشک‘‘ کی ’’بو‘‘ سے تو سارا عالم گویا ’’ختن‘‘ ہوگیا ہے

مژدہ گانی بدھ وے خلوتی نافہ کشائی

کہ زصحرائے ختن آہوئے مشکیں آمد

اس لیے ہم تیسری ٹاپوٹاپ جانے والی انڈسٹری اور مالا مال کرنے والی حرفت کے بارے میں آپ کو بتانا چاہتے ہیں۔ اس انڈسٹری کا نام ویسے تو تعلیم ہے لیکن آپ’’چائلڈ ڈسٹرکشن‘‘انڈسٹری بھی کہہ سکتے ہیں کیونکہ بچوں کو بیکاری، بیروزگاری اور ضایع کرنے میں یہ آج کل نہایت سرگرم ہے۔

گزشتہ دنوں حکومت کی طرف سے اخبارات میں ایک اشتہار آیا تھا جس میں قوم کو یہ مژدہ جاں فزا دیا گیا کہ پندرہ لاکھ بچے پرائمری اسکولوں میں داخل ہوگئے ہیں۔ظاہر ہے کہ یہ تو صرف سرکاری سیکٹر کی بات ہے جب کہ دو اور بھی بہت بڑے سیکٹر ہیں جو اکٹوپس کے بیروں کی طرح گلی گلی،کوچے کوچے اور محلے محلے پھیلے ہوئے ہیں،چنانچہ اگر ان میں صرف دس دس لاکھ بھی شمار کریں تو تیس پینتیس لاکھ سمجھ لیجیے۔

یہ تو’’داخلے‘‘ ہوئے لیکن داخل کے ساتھ ’’خارج‘‘ بھی تو ہوتے ہیں۔ چلیے ، ان میں آدھے اپنی ’’تعلیم‘‘ مکمل کرکے نکلے ہیں۔اب ذرا یہ تصور کرلیجیے کہ وہ کوئی ہنر تو سیکھتے نہیں صرف’’تعلیم‘‘ سیکھتے ہیں اور ’’تعلیم‘‘ سے صرف نوکری حاصل کی جاسکتی ہے اور کچھ نہیں۔تعلیم یافتہ یا ایجوکیٹڈ لوگ۔ یا ’’وائٹ کالر‘‘لوگ۔ یہ کوئی ’’کمیٹیوں‘‘ والا کام تو کرنہیں سکتے اور نوکریوں کے بارے میں تو دنیا جانتی ہے کہ پاکستان میں اس ’’رادھا‘‘ کو نچانے کے لیے نومن تیل کی ضرورت ہوتی ہے۔

یوں کہیے کہ اس’’مدھوبن‘‘میں یہ ’’رادھیکا‘‘ صرف خاص خاص آنگنوں میں ناچتی ہے۔ مدھوبن میں رادھیکا ناچے رے۔اس سارے معاملے پر گہرائی اور گیرائی سے نظر ڈالیے کہ ان بچاروں کے ’’سفر‘‘ کا احتتام بیروزگاری کے جنگل پر ہوتا ہے یا یوں کہیے کہ ان کا سفر کا وقت تو نکل چکا ہوتا ہے، اس لیے وہ کسی نہ کسی’’شارٹ کٹ‘‘ پر ہولیتے ہیں اور ظاہر ہے کہ شارٹ کٹ ہمیشہ خطرناک اور تباہی کی طرف لے جانے والا ہوتا ہے۔

ترسم کہ بمنزل نہ رسی دے اے اعرابی

کیں راہ کہ تومی روی بہ ترکستان است

ترجمہ۔اے اعرابی ڈر ہے کہ تم منزل پر نہیں پہنچ پاؤگے کیونکہ جو راستہ تم نے پکڑا ہے وہ’’ترکستان‘‘ کو جاتا ہے۔اور’’ترکستان‘‘ تو بے حد وسیع ہے جس میں جرائم کے دلدل ،منشیات کی کھائیاں اور قتل و قتال کی گھاٹیاں اور بے راہروں کے طلسم ہوشربا ہی ملتے ہیں۔

یہاں کسی کو کوئی راستہ نہیں دیتا

مجھے گراکے اگر تم سنبھل سکو تو چلو

لارڈ میکالے نے برطانوی حکومت کو مستحکم کرنے کے لیے یہ ’’نسخہ کمیا‘‘ایجاد کیا تھا تو اس لیے نہیں کہ انھیں اکثریتی ’’کالوں‘‘ کا فائدہ مقصود تھا بلکہ اقلیتی گوری حکومت کے لیے سدھائے ہوئے غلام پیدا کرنے کا منصوبہ تھا۔جو نہایت ہی کارگر ہے اور کارگر رہے گا۔اور یہ تو کہنے کی ضرورت ہی نہیں کہ غلامی کے لیے سدھائے ہوئے انسان یا جانور کوئی دوسرا کام کرہی نہیں سکتا، تانگے کھینچنا اور دوڑ کے لیے سدھایا ہوا گھوڑا،ہل نہیں کھینچتا اور ہل کے لیے سدھایا ہوا بیل تانگہ نہی کھینچ سکتا۔میرے ایک محترم استاد نے بتایا کہ ایک معروف مدرسہ میں طلبہ کو دینی تعلیم کے ساتھ’’ہنر‘‘ بھی سکھائے جاتے تھے۔

کسی کو کفش دوزی کا،کسی کو ترکھان کا ، کسی کو لوہار کا، درزی کا ،کپڑا بننے کا کام سکھایا جاتا تھا۔کہ اس وقت یہی ہنر مروج تھے۔ خود انھوں نے بھی درزی کاکام سیکھا تھا لیکن خوش قسمتی سے ہنر آنے کی وجہ سے ان کی بارانی زمین نہری ہوگئی تھی، اس لیے ضرورت نہیں پڑی۔

ایک پشتو کہاوت ہے کہ ’’ہنر‘‘ سیکھ لو اور اونچے طاق میں رکھ دو۔ضرورت پڑی تو استعمال کرو، نہیں تو پڑا رہے۔لیکن یہاں تو فیشن ایبل تحریک’’چائیلڈلیبر‘‘ بھی کارفرما ہے۔بچوں کو چائلڈلیبر سے بچاکر تعلیم یافتہ بنایا جاتا ہے۔ میں جب کسی راستے سے صبح یا دوپہر کو گزرتا ہوں اور گلی میں بچوں اور بچیوں کو چھٹی یا حاضری کے وقت طرح طرح کے یونیفارم پہنے ہوئے، ان بچوں سے راستے بھرے ہوتے ہیں تو سوچتا ہوں کہ تعلیم یافتہ ہونے کے بعد یہ بچارے کہاں جائیں گے؟اور کیا کریں گے۔

بلکہ کسی حد تک مجھے معلوم بھی ہے کہ میں نے ان میں سے اکثر کو گلی گلی موجود پرائیویٹ اسکولوں یا تعلیمی دکانوں دو دو ہزار روپے لے کر دس ہزار کی ’’تنخواہوں‘‘ پر دستخط کرتے ہوئے دیکھا۔اور لڑکیوں کے بارے میں تو کچھ نہ بتاؤں تو اچھا ہے کہ ایں خانہ ہمہ آفتاب است۔اس کا حل بالکل ہی آسان ہے لیکن آزادی؟ کے بعد یہاں کوئی’’حکومت‘‘ آئی ہوتی تو یہ مسئلہ آسانی سے حل ہوسکتا تھا۔لیکن یہاں جو بری ٹیکنکل ووکیشنل اور کمرشل درسگاہیں تھیں، وہ بھی ’’تعلیم‘‘ کی انڈسٹری بن جانے کے بعد برائے نام رہ گئیں۔اس اندھی حکومت بلکہ ’’کینگ وار‘‘سے تو ریکروٹنیگ’’ ایجنسیاں‘‘ بھی اچھا کام کررہی ہیں۔لیکن وہ گینگ وار سے فارغ ہوں تو کچھ سوچیں۔



[ad_2]

Source link

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں