31

پاکستان فلم انڈسٹری کا چراغ وحید مراد

[ad_1]

اداکار وحید مراد اب دنیا میں نہیں مگر ان کے پرستاروں کے دل میں آج بھی ان کا نام آبرو مندانہ طریقے سے روشن ہے وہ واقعی باکمال تھے ، ان کے پرستار آج بھی انھیں ستارے کی طرح چمکتا ہوا دیکھتے ہیں۔ ان کی زندگی کے آخری لمحات بہت خوبصورت نہیں گزرے ۔

وحید مراد کہتے تھے کہ’’ میرے پرستاروں نے ہمیشہ مجھ سے محبت کا ثبوت دیا آج بھی ان کے پرستاروں نے ان کی یادوں کو روشن رکھنے کے لیے بے شمار تنظیمیں بنا رکھی ہیں کچھ تنظیمیں تو ایسی ہیں جو اکثر ان کے نام کو زندہ رکھنے کے لیے کبھی کبھی سالانہ وحید مراد ایوارڈ کی تقریب منعقد کرتے رہتے ہیں جس کے لیے وہ مبارک باد کے مستحق ہیں کہ انھوں نے وحید جیسے بڑے اداکار کو فن کی دنیا میں زندہ رکھا ہوا ہے۔

 معروف مصنف علی سفیان آفاقی ہمارے لیے استاد کا درجہ رکھتے ہیں اور یہ ہمیں اعزاز ہے کہ ہم نے ان سے بہت کچھ سیکھا ،اکثر لاہور میں جانا رہتا تھا اور ہم نے ان سے صحافت کی تعلیم لی۔ کچھ محترم حضرات نے ہمیں انگلی پکڑ کر چلنا سکھایا اور ان کے بتائے ہوئے اصولوں کے تحت چھوٹے صحافیوں میں ہمارا بھی شمار ہونے لگا۔ اسد جعفری ، الیاس رشیدی ، اے آر سلوٹ یہ وہ لوگ ہیں جنھوں نے ہمیں صحافت کی سیڑھیوں پر چلنا سکھایا ۔

وحید مراد بہت کم گو تھے ان کی طبیعت میں سنجیدگی تھی مگر وہ مغرور نہیں تھے، علی سفیان آفاقی کہتے تھے کہ’’ وحید مجھے پیار سے سفیان کہتے تھے جبکہ انڈسٹری مجھے آفاقی کہتی تھی‘‘ موسیقار نثار بزمی نے ہمیں بتایا تھا کہ’’ فلمیں ،انجمن اور ناگ منی کے گیت بہت ہٹ تھے مگر گانے کی فلم بندی میں وحید اپنی مثال تھے‘‘ مجھے بھارتی اداکار راجیش کھنہ اور دھرمیندر نے بتایا تھا کہ’’ گانے کی فلم بندی تو وحید مراد کراتے ہیں ان کا انڈوپاک میں ثانی نہیں وہ بڑے فنکار ہیں ‘‘

وحید مراد کی ذاتی پنجابی فلم ’’مستانہ ماہی‘‘ جس کا گیت ’’سیونی میرا ماہی مینوں ہیر بناؤن آگیا‘‘ اس گیت کو ملکہ ترنم نور جہاں نے گایا تھا اس گیت کے حوالے سے میڈم نورجہاں نے ہمیں بتایا تھا کہ ’’وحید مراد بڑا فنکار ہے، ایسے فنکار بڑے ہوتے ہیں اب وحید پیدا نہیں ہوگا ‘‘اور اس گیت پر تو عالیہ نے خوبصورت پرفارمنس دی تھی عالیہ نے لاہور میں ایک انٹرویو میں ہمیں بتایا کہ’’ اس گیت کی پرفارمنس نے بحیثیت اداکارہ کے میری قسمت ہی بدل گئی ماضی کی مشہور آرگنائز تنویر نقوی نے ایک شام صحافیوں کے نام منائی،

یہ 1993 کی بات ہے جس میں صحافیوں کو ایوارڈز دیے گئے، عالیہ تنویر نقوی کے ہاں مقیم تھیں اور ہماری اکثر ملاقاتیں عالیہ سے ان کے گھر پر ہوتی تھیں ۔عالیہ نے بتایا تھا کہ’’ وحید مراد ،خواتین فنکاروں سے بہت تہذیب سے بات کرتے تھے اور کراچی سے لے کر پنجاب تک ان کی فلموں کے شو ہاؤس فل ہوتے تھے‘‘ احمد بٹ ایک بڑے بزنس مین تھے اور پروڈیوسر حضرات کے ساتھ اکثر تعاون کرتے تھے۔

یہ وحید مراد کے جگری یار تھے انھوں نے فلم ’’مستانہ ماہی‘‘ کی کامیابی کی خوشی میں ایک دعوت کا اہتمام کیا تھا یہ واقعہ ہمیں ہمارے استاد معروف صحافی اسد جعفری نے سنایا تھا، احمد بٹ نور جہاں کی بہنوں کی طرح عزت کرتے تھے جب وحید مراد محفل میں آئے تو انھوں نے شلوار قمیض زیب تن کر رکھا تھا تو نور جہاں نے انھیں مستانہ ماہی کی سپرہٹ کامیابی پر انھیں مبارک باد دی تو وحید نے کہا’’ میڈم! اس فلم کا کوئی بڑا کمال نہیں آپ کے خوبصورت گیت ’’سیونی میرا ماہی‘‘ اور عالیہ کی خوبصورت پرفارمنس نے فلم کو کامیابی سے ہم کنار کیا ہے‘‘

پھر کراچی میں تنویر نقوی کے پروگرام میں عالیہ نے اس گیت پر پرفارمنس دی یہ وہ پروگرام تھا جس میں عمر شریف، معین اختر، لہری نے شرکت کی ہم بھی اس پروگرام کا حصہ تھے، بحیثیت کمپیئر کے اس زمانے میں ہم پی ٹی وی سے کرنٹ افیئر کے پروگرام کرتے تھے جس کے پروڈیوسر اسلم بھٹی تھے۔

 ہم نوجوان نسل کو بتاتے ہیں، پاکستان کی پہلی پلاٹینم جوبلی فلم ’’ارمان‘‘ تھی جس کے ہیرو وحید مراد تھے ۔ہدایت کار ایم اے رشید کو لوگ انڈسٹری میں ’’ڈیڈی ‘‘کہتے تھے یہ قابلیت کے حوالے سے ایم اے تھے۔ ان کی پہلی فلم’’ پاٹے خاں‘‘ تھی۔ ہمارا ان سے محبت کا رشتہ تھا۔ ایم اے رشید نے بتایا کہ جب میں نے ’’تم سلامت رہو‘‘ فلم بنانے کا سوچا تو وحید مراد اور محمد علی کو کافی عرصے کے بعد ایک پلیٹ فارم پر کھڑا کیا اور میں علی سفیان آفاقی کا شکر گزار تھا کہ ان کی کوششوں سے محمد علی، وحید مراد یکجا ہوئے ۔

فلم کی خاص بات یہ تھی کہ آسیہ کو علی اور ممتاز وحید مراد کے ساتھ تھیں جبکہ میری ذاتی رائے زیبا کو کاسٹ کرنے کی تھی ۔آسیہ کو اس زمانے میں فلم ساز کاسٹ نہیں کر رہے تھے جبکہ میں زیبا کو کاسٹ کرنا چاہتا تھا۔ علی بھائی نے کہا ’’آپ زیبا کے بجائے آسیہ کو کاسٹ کرلیں ‘‘یہ علی بھائی کا بڑا پن تھا۔ ایم اے رشید کہتے تھے ’’وحید مراد تو تراشا ہوا ہیرا تھے۔ ‘‘ہدایت کار گوہر علی نے ماضی میں فلم ’’مانگ میری بھردو‘‘ بحیثیت ہدایت کار کے بنائی تھی، جس کے مرکزی کردار علی، وحید نے کیے تھے۔

ہدایت کار گوہر علی نے ہمیں وحید کے بارے میں بتایاکہ’’ وہ نیک دل اور رحم دل انسان تھا۔ یہ 1970 کی بات ہے میرے ایک رشتے دار کا بچہ شدید بیمار ہوا اسے اسپتال میں ایڈمٹ کیا ۔اسپتال کا بل 800 روپے آیا میں نے وحیدو (میں پیار سے انھیں وحیدو کہتا تھا) سے تذکرہ کیا۔ انھوں نے کہا خیریت تو ہے کیا ضرورت پڑ گئی800 روپے کی؟ انھوں نے 800 روپے دیے اور کہا کہ اس بچے کا بل ادا کردیں۔‘‘ گوہر علی نے بتایا کہ’’ وحید پان کھاتے تھے اور اکثر پان مجھ سے منگواتے تھے میں لسبیلہ میں رہتا تھا اور وہاں کی مشہور دکان گڑیا پان شاپ تھی وہ اکثر مجھ سے ہی پان منگواتے تھے۔‘‘ روحی بانو نے وحید مراد کے بارے میں ہمیں بتایا کہ’’ ایسا نفیس انسان میں نے نہیں دیکھا جب بھی سیٹ پر آتے تو کہتے ’’ٹی وی کی ہیروئن کیسی ہو۔‘‘

 وہ فلم انڈسٹری کا چاند تھے جو بہت جلد غروب ہو گیا ۔وحید مراد ایک کار کے حادثے میں زخمی ہوئے تھے چونکہ شوبزنس میں منافقت کمال کی حد تک بھری ہوئی ہے اور انڈسٹری کے لوگوںنے ان سے آنکھیں پھیر لیں ،وہ یہ صدمہ برداشت نہ کر سکے۔ جب راقم الحروف فرسٹ ایئر کا طالب علم تھا ہمارے ایک عزیز DK اختر جو فلموں کے کامیاب ترین فوٹوگرافر تھے ان سے میں نے کہا’’ انکل مجھے وحید مراد سے ملوا دیں ‘‘وہ زمانہ ایسٹرن اور ماڈرن اسٹوڈیو کا تھا کسی حد تک فلمیں یہاں بنتی تھیں جن میں پشتو، سندھی اور اردو فلمیں شامل تھیں وہ ہمیں وحید مراد کے پاس لے گئے۔

وہ ایک صوفے پر بیٹھے تھے پرکشش چہرہ ماتھے پر خوبصورت بال ہمیں دیکھ کر مسکرائے (وہ مسکراہٹ مجھے آج بھی یاد ہے) DK اختر نے بتایا ’’یہ برخوردار آپ سے ملنے آئے ہیں‘‘ بڑی محبت سے ہمارا ہاتھ اپنی گود میں رکھا پوچھا ’’پڑھتے ہو؟‘‘ ’’جی! میں فرسٹ ایئر کا طالب علم ہوں‘‘’’کیا مستقبل میں فلموں میں کام کرنا چاہتے ہو‘‘ میں نے کہا’’ جی نہیں‘‘ آپ سے ملنے کا شوق تھا، بہت خوش ہوئے اور کہا ’’برخوردار پہلے تعلیم پر توجہ دینا، اگر تعلیم یافتہ ہوگئے تو زندگی میں کامیاب رہو گے‘‘ (وحید مراد خود انگلش میں ایم اے تھے) ۔

 اپنی عمر کے آخری ایام اداکارہ انیتا ایوب کے والد کرنل ایوب کے گھر پر گزارے، ان کی سپرہٹ فلمیں تو بے شمار ہیں مگر چند فلموں کا تذکرہ ضرور کروں گا، دل میرا دھڑکن تیری، دولت اور دنیا، سالگرہ، شمع، بہارو پھول برساؤ، انجمن قابل ذکر ہیں، ان کی بیوی سلمیٰ مراد ایک معروف صنعتکار کی بیٹی تھیں، جن کا حال ہی میں انتقال ہوا ہے، انھوں نے بھی وحید کے بارے میں بہت کچھ بتایا تھا کہ ان سے ہماری بہت یاد اللہ تھی، بہت نیک سیرت اور تہذیب دار خاتون تھیں، رب وحید مراد اور ان کی اہلیہ کی مغفرت کرے ۔(آمین)



[ad_2]

Source link

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں