35

مزدور سے امیر ترین انسان بننے تک

[ad_1]

آپ جانتے ہیں کہ ترپین سالہ ایلن مسک دنیا کا امیر ترین انسان ہے۔ مگر شاید یہ نہ جانتے ہوں کہ اُس کی زندگی نشیب و فراز سے پُر رہی ہے۔ پھر وہ عجیب و غریب طبیعت کا بھی مالک ہے۔

مروجہ معاشرتی اصول و قوانین کو طنز کا نشانہ بناتا ہے۔ کافی کنجوس ہے مگر اپنے من پسند منصوبوں پر دل کھول کر رقم خرچ کرتا ہے۔ ایلن کی انوکھی اور متنازع شخصیت تخلیق کرنے میں اس کے بچپن و لڑکپن کے حالات کا اہم حصّہ ہے۔

ماں باپ میں طلاق

ایلن مسک 28 جون 1971ء کو جنوبی افریقا کے شہر پریٹوریا میں پیدا ہوا۔ باپ، ایرول (Errol) مسک کے اجداد برطانیہ سے جنوبی افریقا آئے تھے۔ ماں، میو (Maye) مسک کینیڈا میں پیدا ہوئی مگر اُس کے والدین جنوبی افریقا چلے آئے۔ وہیں میو کی پرورش ہوئی اور شادی بھی۔گھرانا خاصا امیر تھا۔ ایرول ایک کان (mine) میں شراکت دار تھا۔ ایلن بڑا بیٹا ہے۔ اس کے ایک اور بیٹا بیٹی بھی دنیا میں آئے۔ مگر ایرول اور میو ساتھ نہ چل سکے اور 1980ء میں طلاق ہو گئی۔ اِس واقعے نے نو سالہ ایلن پر منفی اثرات مرتب کیے اور وُہ تنہائی پسند اور اَپنے آپ میں گم رہنے والا لڑکا بن گیا۔

ماں ماڈل تھی، اشتہاروں میں کام کرتی تھی۔ وہ کینیڈا چلی گئی۔ ایلن کینیڈا نہیں جانا چاہتا تھا، اِس لیے باپ کے پاس رہا۔نہ جانے کی اہم وجہ یہ تھی کہ ماں کمپیوٹر اور برٹینکا انسائیکلوپیڈیا کے اخراجات برداشت نہیں کر سکتی تھی۔ مگر بعدازاں اِس فیصلے پر ایلن بہت پچھتایا۔ وہ اَپنے باپ کو ’’شیطان‘‘ کہا کرتا ہے۔ کہتا ہے کہ دنیا میں جو برا کام ہو سکتا ہے، وہ اُس نے انجام دیا۔

بچپن اچھا نہ تھا

مغربی معاشرے میں دراصل خصوصاً طلاق کے بعد ماں باپ، دونوں اپنے بچوں پر زیادہ توجہ نہیں دیتے۔ وہ اَپنی نئی دنیا میں مگن ہو جاتے ہیں۔ اِس لیے وہاں ٹوٹے گھرانوں کے اکثر بچے جرائم کی دنیا میں پہنچ کر مجرم بن جاتے ہیں۔ یہ تو ایلن کی خوش قسمتی ہے کہ وہ ایک بدکردار باپ کے ساتھ رہ کر مجرم نہیں بنا۔ 2017ء میں ایرول مسک نے اعتراف کیا تھا کہ وہ اَپنی سوتیلی بیٹی کے بچے کا باپ ہے۔

ناخوشگوار گھریلو حالات نے پرورش پاتے ایلن کو خاصا غصیلا بنا دیا۔ وہ اسکول میں لڑکوں سے لڑ جھگڑ کر اپنا غصّہ باہر نکالتا۔ ایک بار لڑکوں نے اُسے اتنا مارا کہ ایلن کافی زخمی ہو گیا۔ اُسے اسپتال میں زیرِعلاج رہنا پڑا۔ اِس واقعے نے بہرحال اُس کے سر سے بدمعاشی کا بھوت اتار دِیا۔

ایلن کمپیوٹر سے دلچسپی رکھتا تھا۔ 1981ء میں اُس نے کموڈور کمپیوٹر خریدا۔ پھر کمپیوٹری ہدایات کی روشنی میں بیسک لینگوئج کے ذریعے ’’بلاسٹر‘‘ نامی گیم بنا ڈالی۔ یہ گیم ایک تکنیکی رسالے نے پانچ سو ڈالر میں خرید لی۔ یہ ایلن کی پہلی کاروباری مہم تھی۔

معمولی ملازمتیں

اسکول سے فراغت کے بعد ایلن نے کینیڈا جانے کا فیصلہ کیا۔ ماں چونکہ کینیڈین شہریت رکھتی تھی لہٰذا اُسے وہاں جانے میں زیادہ دُشواری نہیں ہوئی۔ ماں مگر ماڈلنگ سے اتنا نہیں کما رہی تھی کہ وہ بڑے بیٹے کے اخراجات پورے کر پاتی۔ باپ سے تو ایلن ویسے ہی ناراض تھا۔ لہٰذا والدین سے مالی مدد نہیں ملی تو ایلن کو اَپنے روزمرہ اور تعلیمی اخراجات پورے کرنے کی خاطر کھیتوں اور لکڑی کے کارخانے میں معمولی ملازمتیں کرنا پڑیں۔ وہ وہاں بطور مزدور کام کرتا رہا۔

1990ء میں اُس نے کینیڈین شہر، کنگسٹن میں واقع کوئینز یونیورسٹی میں داخلہ لے لیا۔ دو سال وہاں پڑھا اور پھر امریکی درس گاہ، یونیورسٹی آف پینسلوانیا (Pennsylvania) میں منتقل ہو گیا۔ 1995 میں وہیں سے گریجویشن کی۔ طبیعات اور سائنس گریجویشن کے بنیادی موضوع تھے۔ اس دورانِ تعلیم بھی اپنے اخراجات پورے کرنے کی خاطر ایلن مسک مختلف ملازمتیں کرتا رہا۔ کبھی وئیرہاؤس میں سامان ڈھویا، تو کبھی کسی دفتر کی چوکیداری کی۔بہرحال اُس کی محنت رنگ لائی اور وُہ تعلیم مکمل کرنے میں کامیاب رہا۔

سٹانفورڈ یونیورسٹی

یونیورسٹی سے فراغت کے بعد ایلن نے سلیکون ویلی کی دو کمپنیوں میں انٹرن شپ کی۔ سائنس و ٹیکنالوجی اُس کی دلچسپی کا مرکز تھے۔ وہ سمجھتا تھا کہ اِس شعبے میں نت نئی ایجادات اور نظریات دریافت کر کے انسان انقلاب لا سکتا ہے۔ 1995ء میں مشہور اَمریکی یونیورسٹی سٹانفورڈ (Stanford) میں بطور پی ایچ ڈی طالبِ علم اُس کا داخلہ ہو گیا۔ اُس نے ’’میٹیریلز سائنس‘‘ کا مطالعہ کرنا تھا۔

ایلن مگر دو دِن ہی یونیورسٹی گیا۔ اُسے احساس ہوا کہ پی ایچ ڈی کرتے ہوئے وہ شعبہ سائنس و ٹیکنالوجی میں مہم جوئی کا اپنا شوق پورا نہیں کر سکتا۔ چناں چہ اس نے تعلیم کو خیرباد کہہ دیا۔ مگر یہ مہم جوئی اُسی وقت انجام پاتی جب ایلن کے پاس کافی سرمایہ ہوتا۔ سرمایہ پانے کی خاطر ایلن نے کاروبار کرنے کا فیصلہ کر لیا۔

پہلی کمپنی کا آغاز

1995ء میں اُس نے بھائی، کمبل (Kimbal) اور چند دوستوں کے ساتھ مل کر سافٹ ویٔر بنانے والی کمپنی، زپ۔2 قائم کی۔ اینجل انویسٹرز نامی سرمایہ کار کمپنی نے اُسے سرمایہ فراہم کیا۔ اُس کمپنی نے اخبارات کی ویب سائٹس کے لیے ایک ’’سٹی گائیڈ‘‘ تیار کی۔ یہ سٹی گائیڈ نقشے، راستوں کی ہدایات، بلو صفحات اور دِیگر معلومات پر مبنی تھی۔

ایلن نے کمپنی کو مستحکم کرنے کی خاطر بہت کام کیا۔ حتیٰ کہ وہ اَکثر دفتر ہی میں سو جاتا جو ایک چھوٹے سے فلیٹ میں تھا۔ وہ ہفتے کے سات دن کام کرتا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جب ایلن اور کمبل کے مابین کسی مسئلے پر اختلاف ہوتا، تووہ آپس میں کُشتی کر کے حل نکالتے۔ جو مقابلہ جیت جاتا، اُسی کے فیصلے پر عمل درآمد ہوتا۔ بہرحال دونوں بھائیوں نے بہت محنت کی اور نیویارک ٹائمز اور شکاگو ٹریبون جیسے بڑے اخبارات کے علاوہ چھوٹے اخبار بھی کمپنی کے گاہک بن گئے۔

کمپنی کا چیٔرمین اور سی ای او رِچ سورکن تھا۔ ایلن اُسے فرسودہ و دَقیانوسی خیالات کا مالک سمجھتا تھا۔ اُس کا کہنا تھا کہ رچ سورکن کے ہوتے ہوئے کمپنی زیادہ ترقی نہیں کر سکتی۔ لہٰذا اِیلن نے سی ای او بننے کے لیے کوشش کی۔ بورڈ کے ارکان مگر اُسے ناتجربے کار بلکہ کھلنڈرا سمجھتے تھے۔ اُنھوں نے ایلن کی سعی ناکام بنا دی۔



[ad_2]

Source link

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں