[ad_1]
آپ نے اکثر لوگوں کو یہ کہتے ہوئے سنا ہوگا کہ غصے میں تو میں دو روٹیاں زیادہ کھاتا ہوں۔ شاید اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ پیدائش کے بعد سے ہی بچے کے رونے کا مطلب اس کی بھوک سمجھا جاتا ہے۔
وہ جب تھوڑا سا بڑا ہوتا ہے تو بچہ جہاں اپنے غصے کا اظہار کرتا ہے اس کو کوئی نہ کوئی بسکٹ، ٹافی یا چپس جیسی کھانے کی چیزیں دے کر اُسے بِہلانے کی کوشش کی جاتی ہے، یعنی کہ ایک طرح سے غصے کی حالت میں کھانا ہماری تربیت کا حصہ ہی بن جاتا ہے۔ ویسے کھانا پینا کوئی بُری بات نہیں نہ ہی اس پر کوئی اعتراض ہے، لیکن ہر گزرتے دن کے ساتھ ہمارے اندر یہ عادت اتنی پختہ ہو جاتی ہے کہ عمر کے کسی بھی حصے میں یہ بلاوجہ، غصے یا اضطراب کی حالت میں کھانا پینے کی عادت ’ایٹنگ ڈس آرڈر‘ جیسی خطرناک بیماری کی شکل اختیار کر لیتی ہے۔
ایٹنگ ڈِس آرڈر جیسی بیماری کسی بھی شخص کو عمر کے کسی بھی حصے میں لاحق ہو سکتی ہے۔ لیکن ایٹنگ ڈس آرڈر (کھانے کی عادت کی خرابی) ایک ایسی پیچیدہ اور سنگین بیماری ہے جس کا شکار زیادہ تر خواتین ہوتی ہیں۔ امریکا میں ہونے والے حالیہ سروے کے مطابق 10 میں سے ایک خاتون ایٹنگ ڈِس آرڈر کے باعث ماں بننے میں تاخیر کا شکار ہے۔
یہ مسئلہ نہ صرف خواتین کی جسمانی صحت کو متاثر کرتا ہے، بلکہ ان کی نفسیاتی اور ذہنی صحت پر بھی گہرے اثرات مرتب کرتا ہے۔ خواتین میں ’ایٹنگ ڈس آرڈر‘ کی بڑی وجوہات میں سماجی دباؤ، خود اعتمادی کی کمی، ’مینو پاز‘ اور جسمانی شکل کے غیر حقیقت پسندانہ معیارات شامل ہیں۔
ویسے تو ایٹنگ ڈس آرڈر کے اثرات ہر عمراور زندگی کے مختلف مراحل میں ظاہر ہو سکتے ہیں، لیکن خواتین میں مینو پاز کے دوران یہ اثرات زیادہ شدت اختیار کر سکتے ہیں۔ ماہرینِ صحت کے مطابق اس موضوع پر زیادہ بات نہیں کی جاتی، نہ ہی خواتین میں اس حوالے سے آگاہی موجود ہے۔
خواتین میں ’ایٹنگ ڈس آرڈر‘ اکثر خود اعتمادی کی کمی سے جڑا ہوتا ہے۔ اپنے جسم کے بارے میں منفی خیالات، جسمانی وزن اور شکل کے حوالے سے حد سے زیادہ فکرمندی اور دوسروں کے سامنے اپنی جسمانی ساخت کو چھپانے کی کوشش خواتین کی خود اعتمادی کو نقصان پہنچاتی ہے۔
ساتھ ہی ایٹنگ ڈس آرڈر میں مبتلا خواتین ڈپریشن اور ذہنی اضطراب کا شکار بھی ہو سکتی ہیں۔ مسلسل کھانے اور وزن کے بارے میں سوچتے رہنا، انھیں شدید ذہنی تناؤ میں مبتلا کر دیتا ہے، جو آگے چل کر ڈپریشن کا باعث بن سکتا ہے۔ اضطراب بھی اس بیماری کے نتیجے میں بڑھ جاتا ہے، کیونکہ خواتین خود کو معاشرتی معیار پر پورا اتارنے کے لیے دباؤ میں محسوس کرتی ہیں۔
ایٹنگ ڈس آرڈرجیسی بیماری کے جسمانی اثرات خواتین کی صحت کو شدید نقصان پہنچا سکتے ہیں۔
ایٹنگ ڈس آرڈر ایک ایسی بیماری ہے، جوخواتین میں غذائیت کی شدید کمی پیدا کرتی ہے۔ یعنی کہ آسان الفاظ میں سمجھیے تو وقت بے وقت کھانا، کبھی کم یا کبھی زیادہ کھانا یا پھر ہر وقت کھانا خواتین کے لیے صحت مندانہ امر نہیں۔ اس طرح کھانے سے جسم کو بہ جائے توانائی اور غذائیت ملنے کے الٹا خواتین میں غذائی اجزا کی کمی کا باعث بن سکتا ہے، جس کی وجہ سے جسمانی وزن میں خطرناک حد تک کمی ہو سکتی ہے، جس سے ہڈیاں کمزور ہو جاتی ہیں اور ساتھ ہی ’ماہ واری‘ کی بے قاعدگی، اور جسمانی کمزوری کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
’ایٹنگ ڈس آرڈر‘ سے دل کی بیماریاں ہونے کا خطرہ بھی بڑھ جاتا ہے۔ زیادہ قے کرنا یا کھانے کو محدود کرنا جسم میں الیکٹرولائٹس کی کمی پیدا کرتا ہے، جس سے دل کی دھڑکن میں بے ترتیبی، ہائی بلڈ پریشر، اور حتیٰ کہ دل کے دورے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔
اس کے علاوہ خواتین میں ایٹنگ ڈِس آرڈر نظام انہضام کو بھی متاثر کرتی ہے۔ بلیمیا نرووسا میں قے کرنے سے معدے کی تیزابیت بڑھ جاتی ہے، جس سے گلے اور منہ میں زخم، دانتوں کی خرابی، اور معدے کے مسائل پیدا ہوتے ہیں۔
ایٹنگ ڈِس آرڈر سے جڑی بیماریوں کے اثرات جسمانی صحت کے ساتھ ساتھ ذہنی صحت کو بھی بری طرح متاثر کرتے ہیں۔ ہمیں ایسا لگتا ہے کہ ہم ہر تھوڑی دیر میں کچھ نہ کچھ کھا کر جسم کو توانائی فراہم کر رہے ہیں، لیکن درحقیقت ایٹگ ڈِس آرڈر کے باعث جسم میں ہونے والی غذائیت کی کمی ہماری دماغی فعالیت کو بھی کمزور کر دیتی ہے۔ ’ایٹنگ ڈس آرڈر‘ میں مبتلا خواتین اکثر توجہ مرکوز کرنے اور یادداشت کے مسائل کا سامنا کرتی ہیں۔ ان کے دماغ کو مناسب غذائی اجزا نہ ملنے کی وجہ سے دماغی کارکردگی متاثر یا کم ہو جاتی ہے۔
’ایٹنگ ڈس آرڈر‘ خواتین کو سماجی طور پر الگ تھلگ کر دیتا ہے۔ وہ اپنے جسمانی وزن یا کھانے کی عادات کی وجہ سے دوسروں کے ساتھ وقت گزارنے سے کتراتی ہیں، جس سے ان کی معاشرتی زندگی متاثر ہوتی ہے۔ یہ علیحدگی انہیں مزید تنہائی اور ذہنی پریشانی کا شکار کر سکتی ہے۔
ایٹنگ ڈس آرڈر کو حل کرنے کے لیے خواتین کی نفسیاتی، جسمانی اور ذہنی صحت کو سمجھنا اور اس کا درست علاج ضروری ہے۔ خواتین کی خود اعتمادی بڑھانے اور ان کے منفی خیالات کو دور کرنے کے لیے ماہرین نفسیات سے مدد لی جا سکتی ہے۔ کاؤنسلنگ اور تھراپی سے خواتین کو اپنے جسم کے ساتھ مثبت رویہ اپنانے میں مدد مل سکتی ہے۔ ساتھ ہی غذائی ماہرین کے ساتھ مشورہ کرکے خواتین کو متوازن غذا کی طرف راغب کیا جا سکتا ہے، تاکہ وہ جسمانی صحت کی طرف واپس آ سکیں۔
ایسے مشکل مراحل میں خواتین کو خاندان اور دوستوں کی جانب سے تعاون کی ضرورت ہوتی ہے، تاکہ وہ اپنے مسائل کو بہتر طور پر سمجھ سکیں اور ان سے نمٹ سکیں۔
’ایٹنگ ڈس آرڈر‘ خواتین کی جسمانی، ذہنی اور نفسیاتی صحت پر گہرے اور منفی اثرات ڈالتا ہے۔ اس کا بروقت علاج اور مناسب تھراپی نہ صرف خواتین کی جسمانی صحت کو بہتر بنا سکتی ہے، بلکہ ان کی نفسیاتی اور ذہنی صحت کو بھی مستحکم کر سکتی ہے۔ ’ایٹنگ ڈس آرڈر‘ کے بارے میں آگاہی اور سماجی حمایت کا فروغ انتہائی ضروری ہے، تاکہ خواتین اس بیماری سے باہر نکل سکیں اور ایک صحت مند اور خوش حال زندگی گزار سکیں۔
[ad_2]
Source link