پچھلے دنوں وفاقی حکومت نے پاکستانی کمپنیوں کو جینیٹکلی موڈیفائڈ آرگنزم (genetically modified organism) یا جی ایم او سویابین امپورٹ کرنے کی اجازت دے دی تاکہ عوام ِ پاکستان کو سستا پروٹین مل سکے۔
یہ حکومت وقت کا مستحسن اور عوام دوست اقدام ہے۔ اس سے لگتا ہے کہ حکمران جماعت کو عوام کے مسائل اور مشکلات کا احساس ہے اور وہ انھیں دور کرنے کی سعی کر رہی ہے۔
جی ایم او سویابین کی درآمد سے یقیناً برائلر چکن سستا ہو گا جس سے عام آدمی پروٹین تک رسائی پائے گا۔ دو سال قبل تک فی کلو چکن ڈھائی تین سو روپے میں دستیاب تھا، آج اس کی قیمت بیشتر عوام کی پہنچ سے باہر ہو چکی۔ تب چکن اس لیے سستا تھا کہ پاکستانی کمپنیاں جی ایم او سویابین درآمد کر رہی تھیں جو چکن فیڈ کا اہم اور سستا عنصر ہے۔ اس فیڈ کے باعث چکن جلد تیار ہو جاتا اور سویابین کی وجہ سے اس کے گوشت میں عمدہ پروٹین بھی موجود ہوتی۔
دسمبر 22ء میں ایک وفاقی وزیر اور ان کے ہم نوا سرکاری افسروں کی ضد پر جی ایم او سویابین کی امپورٹ پر پابندی لگا دی گئی۔ اس پابندی کے باعث چکن فیڈ نہ صرف مہنگی ہوئی کیونکہ اس میں مقامی اجزا شامل کرنے پڑے جو کافی مہنگے تھے، بلکہ اس کی قلت نے بھی جنم لیا۔ ایک تحقیقی رپورٹ کے مطابق فیڈ کی قلت کے باعث پاکستان میں ’’60 فیصد‘‘پولٹری فارم بند ہو گئے۔
ان کی بندش سے چکن بھی مارکیٹ میں کم ہو گیا اور اس کی قیمت بڑھتی چلی گئی۔ کہا جاتا ہے کہ حکمران طبقہ ٹھنڈے کمروں میں بیٹھ کر فیصلے کرتا ہے اور اسے عوام کے مسائل سے کوئی آگاہی نہیں ہوتی۔ جی ایم او سویابین پہ پابندی کا فیصلہ اس قول کی بہترین مثال ہے۔
وفاقی وزیر اور ان کے ہم نواؤں کا دعوی تھا کہ جی ایم او سویابین زہریلا اور انسانی صحت کے لیے خطرناک ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ دنیا کے سب سے بڑی سائنسی طاقت، امریکا میں آج’’ 94 فیصد‘‘سے زائد سویابین کی فصل جی ایم او بیج سے اگتی ہے۔ دنیا کے کسی مستند طبی سائنس داں نے اسے انسانی صحت کے لیے مضر قرار نہیں دیا۔ اسی طرح کسی مستند سائنسی ادارے کی تحقیق میں اس کو خطرناک نہیں کہا گیا۔ دنیا بھر کے ماہرین طب کا اس امر پر اتفاق ہے کہ روایتی غذائیں انسانی صحت کے لیے جو خطرات رکھتی ہیں، وہی جینیٹکلی موڈیفائڈ آرگنزم والی غذاؤں سے بھی وابستہ ہیں۔ گویا انسانی صحت کے معاملے میں دونوں اقسام کی غذاؤں میں کوئی منفی فرق موجود نہیں۔
لہذا سمجھ سے بالاتر ہے کہ دسمبر 22 ء میں اچانک جی ایم او سوبابین منگوانے پہ کیوں پابندی لگائی گئی؟ اس پابندی سے لگانے والے امرا پر تو کوئی فرق نہیں پڑا کہ وہ تو باآسانی دیسی مرغ بھی خرید سکتے ہیں… پابندی نے براہ راست عوام کو نقصان پہنچایا کہ پروٹین کا سستا ذریعہ ان سے چھین لیا گیا۔ یوں عوام میں بھوک، بیماری اور ٹینشن جیسی خرابیوں نے جنم لیا۔ (یہ واضح رہے، برائلر چکن کی پرورش میں اینٹی بائیوٹکس کا غیر ضروری استعمال ایک علیحدہ معاملہ ہے)
جی ایم او غذائیں کیا ہیں؟
جینیٹکلی موڈیفائڈ آرگنزم غذاؤں کے بیجوں میں موجود جینیاتی مواد میں جینیاتی انجینئرنگ کی مدد سے پانچ وجوہ کی بنا پر رد و بدل کیا جاتا ہے:
٭…کیڑے مکوڑے فصل سے دور رہیں۔
٭…جڑی بوٹیاں فصل پر حملہ نہ کرے۔
٭…فصل کو مختلف وائرس نقصان نہ پہنچائیں۔
٭…فصل کی غذائیت ( nutritional value) بڑھ جائے۔
٭…فصل قحط یا پانی کی کمی کا مقابلہ کر سکے۔
بیج کے قدرتی جینیاتی مواد میں کوئی تبدیلی کر کے باقاعدہ تحقیق اور تجربات کیے جاتے ہیں تاکہ معلوم ہو سکے، یہ تبدیلی انسانی صحت کے لیے نقصان دہ تو نہیں۔ جب ہر لحاظ سے اطمینان ہو جائے تب بیج میں جینیاتی تبدیلی انجام پاتی ہے اور اسے استعمال میں لایا جاتا ہے۔ ظاہر ہے، کوئی بھی سائنس داں یا کمپنی یہ نہیں چاہے گی کہ وہ انسانی صحت کو نقصان پہنچانے والی مصنوعہ تیار کر لے۔ مغرب میں مادہ پرستی بڑھی ہے مگر مغربی اتنے سنگ دل اور ظالم نہیں ہوئے کہ صحت دشمن غذائیں مارکیٹ میں لے آئیں۔پھر وہاں کی حکومتوں نے خوراک اور ادویہ کی تیاری کے سلسلے میں نہایت سخت قوانین بنا رکھے ہیں۔
ایک خامی
جی ایم او غذاؤں کی بس یہ خامی سامنے آئی ہے کہ ان کے باعث کچھ لوگوں کو الرجی ہو سکتی ہے۔ وجہ یہ کہ ان غذاؤں کے بیجوں میں مختلف پودوں کا جینیاتی مواد ڈالا جاتا ہے۔ لہذا کوئی انسان کسی غذا مثلاً اخروٹ سے الرجی رکھتا ہے اور جی ایم اور غذا میں اس مغز کا جینیاتی مواد شامل ہو ، تو وہ الرجی کا شکار ہو سکتا ہے۔ ماہرین طب بہرحال جینیٹکلی موڈیفائڈ آرگنزم غذاؤں پر تحقیق کر رہے ہیں تاکہ وہ اگر انسانی صحت پہ کسی قسم کے مضر اثرات رکھتی ہیں تو وہ عیاں ہو جائیں۔
خوبیاں زیادہ
اس دوران جی ایم او غذاؤں کی خوبیوں کے سبب دنیا بھر میں ان کا پھیلاؤ جاری ہے۔ اگرچہ ہر ملک میں ان مخالفین بھی موجود ہیں جو خام سائنسی شہادتوں کے بل پر یا ذاتی مفادات کی وجہ سے ان کی مخالفت کرتے اور جھوٹی خبریں پھیلاتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ جی ایم او بیجوں کی وجہ سے کسان کا خرچ کم ہو جاتا ہے کیونکہ اول اسے مٹی میں ہل نہیں چلانا پڑتا ۔ یہ کام فصل کو جڑی بوٹیوں سے محفوظ کرنے کے لیے کیا جاتا ہے۔یوں ایندھن اور لیبر خرچ کی بچت ہوتی ہے۔ دوسرے فصل پر بہت کم کیڑے مار ادویہ چھڑکنا پڑتی ہیں۔ یہ خرچ بھی کم ہو جاتا ہے۔ یوں جی ایم او بیج بو کر فائدے میں رہتا ہے۔
یہ غذائیں خریدنے والے لوگوں کو بھی طبی فوائد ملتے ہیں کیونکہ جی ایم او غذاؤں پہ کیڑے مار ادویہ کا چھڑکاؤ کم ہوتا ہے۔ کئی تحقیقات میں ان ادویہ کو انسانی صحت کے لیے نقصان دہ پایا گیا ہے۔ مذید براں ان غذاؤں کے ذریعے انسان کو زیادہ غذائیت بھی ملتی ہے۔ ایک اور فائدہ یہ ہے کہ جی ایم او غذاؤں کی کاشت پر کم لاگت آتی ہے، اس لیے وہ نسبتاً سستی ہوتی ہیں۔ یوں غریب اور متوسط طبقات اس قابل ہو جاتے ہیں کہ اپنی جیب کے مطابق اچھی غذائیں بھی خرید سکیں۔
’’گولڈن رائس‘‘
جرمن ، سوئس اور امریکی سائنس دانوں نے مل کر چاول کی ’’گولڈن رائس‘‘ نامی ورائٹی ایجاد کی ہے۔ یونیورسٹی آف مشی گن سکول آف پبلک ہیلتھ کی رو سے اس جی ایم او چاول کا صرف ایک پیالہ انسان کی روزانہ وٹامن اے کی ’’پچاس فیصد ضروریات‘‘ پورا کردیتا ہے۔ مزید برآں یہ چاول کی پائیدار فصل ہے اور دنیا کے قحط زدہ علاقوں میں بھی اگ سکتی ہے۔ یوں یہ چاول نہ صرف انسانوں میں وٹامن اے کی کمی دور کرتا بلکہ افریقہ جیسے خشک براعظم میں اگ کر وہاں بھوک بھی مٹا رہا ہے۔
ہزارہا برسوں سے جاری عمل
سچ یہ ہے کہ بنی نوع انسان ہزارہا برسوں سے فصلوں کے درمیان کراس بریڈنگ کے سست عمل کی مدد سے پودوں کی جینیات تبدیل کر رہا ہے۔ کئی غذائیں اسی پیوند کاری سے وجود میں آئیں۔ اب فرق یہ ہے کہ آج سائنسدان لیبارٹری میں بہت جلد بیجوں کے ڈی این اے میں ترمیم کرکے انھیں تبدیل کر لیتے ہیں تاکہ مطلوبہ فوائد حاصل کر سکیں۔جی ایم او بیج بنانے کا عمل پیچیدہ ہے۔ یہ عمل ان بنیادی مراحل پر مشتمل ہے:
1… محققین ایک پودے میں ایسے جین کی شناخت کرتے ہیں جو مخصوص خصلتوں کا حامل ہوتا ہے ، جیسے کیڑوں کے خلاف مزاحمت کرنا یا جڑی بوٹیوں کو مار دینا۔
2…اس کے بعد وہ لیبارٹری میں اس کیڑے مزاحمتی جین کی کاپیاں بناتے ہیں۔
3… سائنس دان پھر دوسرے پودے کے جینیاتی مواد کے ڈی این اے میں جین کی کاپیاں داخل کرتے ہیں۔
4… ترمیم شدہ خلیات والے بیج سے فصل اگائی جاتی ہے۔ اس کے بعد فصل کا پھل مختلف تجربات اور تحقیق سے گذرتا ہے تاکہ دیکھا جا سکے، وہ انسانی صحت کے لیے موزوں ہے اور اس میں کوئی خرابی تو پوشیدہ نہیں۔
حرف آخر
جیسا کہ بتایا گیا، سائنس داں مسلسل جی ایم او غذاؤں پر تحقیق کر رہے ہیں تاکہ خدانخواستہ ان کے طویل المعیادی طبی نقصان ہیں تو وہ نمایاں ہو سکیں۔ مگر فی الوقت وہ اپنی گوناں گوں خوبیوں کے سبب انسانیت کے لیے مفید درجہ رکھتی ہیں۔ 2016 ء میں دنیا کے ’’ایک سو سات ‘‘نوبل انعام یافتہ سائنس دانوں نے عالمی سماجی تنظیم، گرین پیس اور دیگر غیر سرکاری تنظیموں کے نام ایک خط لکھ کر اپیل کی تھی کہ وہ جی ایم او غذاؤں کی مخالفت ترک کر دیں۔
پاکستان اور دیگر ممالک میں نام نہاد طبی ماہرین زیادہ سے زیادہ ویوز لینے کی خاطر سوشل میڈیا میں یہ چرچا کرتے ہیں کہ جی ایم او غذائیں ڈی این اے میں تبدیلی کی وجہ سے انسان میں کینسر پیدا کرتی ہیں۔ مگر مستند طبی سائنس داں اس دعوی کو جھوٹا اور منفی پروپیگنڈہ قرار دیتے ہیں۔ اس ضمن میں امریکن کینسر سوسائٹی کہتی ہے: ’’نظریاتی طور پہ یہ ممکن ہے کہ ایک جی ایم او غذا میں داخل کیے گئے نئے جین الرجی سے متاثر ہونے والے انسانوں میں کوئی منفی ردعمل پیدا کر دیں۔یا اس میں موجود بعض مرکبات کی زیادہ مقدار صحت پہ اثرانداز ہو سکتی ہے۔ لیکن فی الوقت اس امر کا کوئی ثبوت موجود نہیں کہ مارکیٹ میں ملنے والی جی ایم او غذائیں انسانی صحت کو نقصان پہنچاتی ہیں۔‘‘