26 ویں آئینی ترمیم کے موقع پر سانپوں کا بھی چرچا رہا سب سے پہلے مولانا فضل الرحمن کے بھائی سینیٹر مولانا عطا الرحمن نے پارلیمنٹ میں کہا کہ نئی آئینی ترامیم میں سانپ کا زہر ہمارے رہنما مولانا فضل الرحمن نے نکال دیا ہے، جس پر پی پی کی سینیٹر شیری رحمن نے کہا کہ آئینی ترامیم میں کوئی سانپ تھا ہی نہیں۔ بعد میں قومی اسمبلی میں جمعیت علمائے اسلام ف کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے دعویٰ کیا کہ انھوں نے کالے سانپ کے دانت توڑ دیے ہیں۔ بعد میں مولانا نے پی ٹی آئی والوں کو یہ بھی جتا دیا کہ شور مچانے والے ان کے شکرگزار ہوں کہ میں شقیں ختم نہ کراتا تو وہ ہاتھ باندھ کر فوجی عدالتوں میں کھڑے ہوتے۔ مولانا کی اس بات سے تو لگتا ہے کہ انھوں نے مجوزہ آئینی ترامیم پی ٹی آئی والوں کو بچانے کے لیے کی ۔پی ٹی آئی والوں کو اپنے بانی کے فوجی ٹرائل کا پورا یقین تھا اور دیگر رہنماؤں نے بھی فوجی عدالتوں میں ہاتھ باندھے کھڑا ہونا تھا اور فوجی عدالتوں کی دی گئی سزائیں بھگتنا تھیں۔
پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے دور حکومت میں دونوں پارٹیوں کے وزرائے اعظم ملکی تاریخ میں عدالتی فیصلوں سے برطرف اور نااہل ہوئے تھے اسی لیے بلاول بھٹو نے کہا کہ اب کوئی وزیر اعظم عدالتی فیصلے سے برطرف نہیں کیا جا سکے گا۔ نئے چیف جسٹس کی حلف برداری میں شریک سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے سوال کے جواب میں کہا کہ میں بلاول بھٹو کے بیان پر تبصرہ نہیں کروں گا کیونکہ یہ سیاست ہے اور انھیں بیان بازی کا حق ہے۔ سابق چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے سابق وزیر اعظم کو اپنے پاس عدالت بلا کر خوش آمدید کہہ کر رہا کردیا تھا۔ اس موقع پر انھوں نے یہ بھی کہا کہ ہمیں تو بس اپنے ادارے کی عزت و احترام چاہیے۔
سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری نے ایک سوال پر کہا کہ ’’ہم تو آج بھی اپنے اسی ادارے میں ہیں اور خود کو بہت اچھا محسوس کر رہے ہیں۔جسٹس آصف سعید کھوسہ نے عمران خان کو خود عدالت بلایا تھا اور ثاقب نثار نے ایک کیس میں عمران خان کو نااہلی سے بچانے کے لیے جہانگیر ترین کو نااہل کیا تھا اور عدالتی تاریخ میں پہلی بار سپریم کورٹ نے متنازع عمران خان کو صادق و امین قرار دیا تھا جب کہ کوئی عام انسان صادق و امین ہو ہی نہیں سکتا۔ غلط عدالتی فیصلوں کے باعث ہی بلاول نے کالا سانپ والا بیان دیا تھا جب کہ ملک کی سیاست میں بھی سانپوں کی کمی نہیں ہے جو اپنے سیاسی مفاد کے لیے ایک دوسرے کو ڈسنے میں مصروف ہیں اور باہمی طور پر ایک دوسرے کو ڈسنے کے واقعات سیاست میں عام ہیں۔ بانی جیل میں اور پی ٹی آئی مکمل طور پر وکیلوں کے ہاتھ میں ہے ،ہر پارٹی کے کرتا دھرتا اپنے اپنے سیاسی مفاد کے لیے ایک دوسرے کو ڈستے ہیں۔ ہر شعبے کے ماہرین اور وکیلوں کے لیے مشہور ہے کہ وہ کبھی کلائنٹ کا نہیں صرف اپنا سوچتے ہیں اور جان بوجھ کر مقدمات کو طول دیتے ہیں اور یہی کچھ اب بھی ہو رہا ہے۔
سیاست میں بھی سانپ موجود ہوتے ہیں جو اپنے بل یعنی پارٹیاں بدلتے رہتے ہیں جس سے لگتا ہے کہ ان کا کوئی اصول اور ضمیر نہیں ہوتا صرف سیاسی اور مالی مفاد اصول ہوتا ہے اور حکومتیں ایسے لوگوں کو ضرورت پڑنے پر خرید لیتی ہیں۔
ملک میں سینیٹ کے ہر الیکشن میں یہ خرید و فروخت ہوتی ہے اور ارکان اسمبلی مالی مفاد کے لیے خود ہی اپنی پارٹی کو ڈس کر مال خرچ کرنے والوں کو کامیاب کرا دیتے ہیں۔ یہ وہ سانپ ہیں جو دکھاوے کے لیے کھڑے اپنی پارٹی کے ساتھ ہوتے ہیں مگر خفیہ ووٹنگ میں ووٹ اپنی پارٹی کے کہنے پر نہیں بلکہ مالی اور سیاسی مفاد کو مدنظر رکھ کر دیتے ہیں۔
حکومتوں کی نااہلی میں غلطی سیاسی حکمرانوں کی بھی ہوتی ہے مگر سب سے زیادہ سیاسی سانپوں نے اپنی ہی پارٹی کو ڈسا ہے۔ پیپلز پارٹی تو سیاسی سانپوں سے پاک ہو چکی مگر سیاسی پارٹیوں میں موجود سیاسی سانپ جو اپنی پارٹی کی وجہ سے وزیر اعظم، گورنر اور وزیر بنتے ہیں وہاپنی ہی سیاسی پارٹی کو زیادہ ڈستے ہیں اور اب بھی سیاسی سانپوں کے ڈسنے کا عمل جاری ہے جہاں یہ سانپ پل رہے ہوتے ہیں۔