[ad_1]
KABUL:
افغانستان کی طالبان حکومت نے کہا ہے کہ انہیں ڈونلڈ ٹرمپ کی صدارتی انتخاب میں کامیابی کے بعد توقع ہے کہ امریکا کے ساتھ نئے دور کا آغاز ہوگا۔
غیرملکی خبرایجنسی اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق افغان وزارت خارجہ کے ترجمان عبدالقاہر بلخی نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ایکس پر بیان میں کہا کہ حکومت کو امید ہے ٹرمپ انتظامیہ دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کے فروغ میں پیش رفت کے لیے حقیقت پسندانہ اقدامات کریں گی۔
انہوں نے کہا کہ حکومت کو امید ہے کہ امریکی صدارتی انتخاب کے بعد دونوں ممالک تعلقات کا ایک نیا باب شروع کرنے کے اہل ہوں گے۔
ترجمان نے کہا کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے پہلے دور صدارت میں طالبان کے ساتھ امن معاہدے کی سربراہی کی تھی اور 2021 میں امریکی فوج کی واپسی کے لیے راستہ ہموار کیا تھا اور اس کے نتیجے میں 20 برس بعد افغانستان میں غیرملکی فورسز کا قبضہ ختم ہوگیا تھا۔
یاد رہے کہ طالبان اور امریکا کے درمیان امن معاہدے پر دستخط 29 فروری 2020 کو ہوئے تھے اور قطر کے دارالحکومت دوحہ میں مذاکرات کے موقع پر ڈونلڈ ٹرمپ امریکی صدر تھے اور انہوں نے اس کی نگرانی کی تھی اور ان مذاکرات میں اس وقت کی افغان حکومت کو شامل نہیں کیا گیا تھا۔
ڈونلڈ ٹرمپ کی جماعت ریپبلکنز نے ان کے بعد منتخب ہونے والے صدر جوبائیڈن کی جانب سے امریکی فوج کی دستبرداری کے فیصلے کو جلدبازی قرار دیتے ہوئے تنقید کی تھی کیونکہ امریکی فوج کی جلد بازی میں واپسی کے دوران ہی طالبان نے افغانستان کا کنٹرول سنبھال لیا تھا۔
جوبائیڈن پر ایک تنقید یہ بھی کی گئی تھی کہ انہوں نے دوحہ معاہدے میں فوج کی دستبرداری کے حوالے سے کیے گئے معاہدے کے تحت طالبان کے سامنے کوئی شرط رکھے بغیر جنگ بندی کرتے ہوئے فوج واپس بلالی۔
بعدازاں امریکا نے طالبان حکومت کو تسلیم نہیں کیا اور اس کی وجہ سے دنیا کے دیگر ممالک بھی افغان حکومت کو قبول نہیں کر رہے ہیں اور اس کی وجہ خواتین کے روزگار اور تعلیم پر پابندیوں سمیت انسانی حقوق کو قرار دیا جاتا ہے اور اقوام متحدہ نے بھی اس حوالے سے تشویش کا اظہار کیا تھا۔
قندہار میں محکمہ اطلاعات اور ثقافت کے سربراہ انعام اللہ سمنگانی نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ایکس پر بیان میں کہا کہ امریکی خود ایک خاتون کو اپنے ملک کی قیادت دینے کو تیار نہیں ہیں۔
کابل میں سابق رکن پارلیمنٹ فوزیہ کوفی نے ٹرمپ کو کامیابی پر مبارک باد دی لیکن امریکی فوج کی دستبرداری اور خواتین کے حقوق کے حوالے سے طالبان حکومت پر دباؤ نہ ڈالنے پر تنقید کی۔
انہوں نے کہا کہ ایک کاروباری شخصیت کی حیثیت سے انہیں یہ سمجھنا چاہیے کہ کوئی بھی قوم اپنی نصف آبادی کو کام اور تعلیم سے روک کر طویل مدتی ترقی حاصل نہیں کرسکتی ہے۔
[ad_2]
Source link