[ad_1]
26ویں آئینی ترمیم آہستہ آہستہ اپنی تکمیل کی طرف جا رہی ہے۔ سب سے پہلے اس ترمیم کے تحت نئے چیف جسٹس کی تعیناتی ہوئی جو اس ترمیم کی پہلی بڑی کامیابی تھی۔ اس کے بعد اب اس ترمیم کے تحت آئینی بنچ کا قیام بھی عمل میں آگیا۔ اسی ترمیم کے تحت جو جیوڈیشل کمیشن قائم کیا گیا تھا، اس نے ملک کے پہلے آئینی بنچ کو قائم کر دیا ہے۔
ترمیم کی ایک کامیابی یہ بھی ہے کہ تحریک انصاف نے بھی 26ویں آئینی ترمیم کے تحت بننے والے جیوڈیشل کمیشن کے اجلاس میں شرکت کی اور اپنا حق رائے دہی استعمال کیا۔
میں اس کو بھی 26ویں آئینی ترمیم کی کامیابی ہی سمجھتا ہوں۔ جیوڈیشل کمیشن کے اجلاس میں جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس منیب اختر کی شرکت بھی 26ویں آئینی ترمیم کی قبولیت اور اس کی کامیابی ہے کہ سب اس کے بنائے ہوئے جیوڈیشل کمیشن کے اجلاس میں شریک ہوئے۔ جب سب شریک ہوئے تو یہ 26ویں آئینی ترمیم کو سب کی جانب سے قبول کرنے اور اس کی کامیابی ہی قرار دیا جا سکتا ہے۔ یہی جمہوریت کا حسن ہے۔ اگر سینئر ججز اس کا بائیکاٹ کرتے اور اپوزیشن بھی شریک نہ ہوتی تو بھی یقیناً ایک سوال رہ جاتا۔
میں سمجھتا ہوں جسٹس امین الدین کا آئینی بنچ کا سربراہ بننا کوئی حیرانگی کی بات نہیں ہے۔ اگر وہ نہ بنتے تو یقیناً حیرانی ہوتی۔ میں یہ بات اس لیے نہیں کر رہا کہ عدلیہ نے لاہور ہائی کورٹ میں خود ہی طے کر دیا ہے کہ جوججز سپر سیڈ ہو جاتے ہیں انھیں پھر کوئی کردار نہیں دیا جاتا۔ لاہور ہائی کورٹ میں جسٹس شجاعت علی خان اور جسٹس باقر نجفی سپر سیڈ ہوئے اور تیسرے نمبر کی جسٹس عالیہ نیلم کو چیف جسٹس بنایا گیا۔
اس کے بعد جب وہ چھٹی پر گئیں تو سپر سیڈ ہونے والے ججز میں سے کسی کو قائم مقام چیف جسٹس نہیں بنایا گیا۔ بلکہ چوتھے نمبر کے جج کو قائم مقام چیف جسٹس بنایا گیا۔اس لیے اس اصول کے تحت جسٹس یحیٰ آفریدی کے چیف جسٹس بننے کے بعد جسٹس امین الدین کو ہی کوئی اہم ذمے داری دی جا سکتی تھی اور انھیں دے دی گئی۔ اگر ان کو نہ دی جاتی تو حیرانی کی بات تھی۔ لیکن جسٹس امین الدین کو آئینی بنچ کا سربراہ بنانا کوئی حیرانی کی بات نہیں ہے۔
اگر دیکھا جائے تو پارلیمان نے 26ویں آئینی ترمیم کی منظوری کے وقت جو اہداف طے کیے تھے وہ سب حاصل ہو گئے ہیں۔ پارلیمانی کمیشن بن گیا۔ اس نے چیف جسٹس تعینات کر دیا۔ جیوڈیشل کمیشن بن گیا اس نے آئینی بنچ کا سربراہ لگا دیا بلکہ پورے آئینی بنچ کی تشکیل ہو گئی۔ لیکن یہ سب اتنا سادہ نہیں جتنا نظر آتا ہے۔ اس ترمیم کو ناکام بنانے کی بہت سازشیں ہوئی ہیں۔ پارلیمان کے اندر سے بھی اس ترمیم کو روکنے کی بہت کوشش کی گئی۔ اس کی منظوری کے مراحل میں مخصوص نشستوں کے بنچ کے آٹھ ججز کی جانب سے جو وضاحتیں جاری کی گئیں‘ وہ بھی دراصل اس ترمیم کو روکنے کی ہی کوششیں تھیں۔
یہ بھی سب جانتے ہیں مخصوص نشستوں کا فیصلہ بھی دراصل 26ویں ترمیم کو روکنے کے لیے دیا گیا۔ اس کی نظر ثانی کو لگنے سے روکنا بھی 26ویں آئینی ترمیم کو روکنے کی ہی کوشش تھی۔ ورنہ نظر ثانی لگنی چاہیے تھی۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ 26ویں آئینی ترمیم کی منظوری کے دوران عدلیہ کے ایک حصہ اور حکمران اتحاد کے درمیان چپقلش جاری تھی۔ ایک طرف سے روکنے کی کوشش کی جا رہی تھی دوسری طرف سے منظوری کی کوشش کی جا رہی تھی۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ حصہ ہار گیا۔ اسے شکست فاش ہوتی نظر آرہی ہے۔ 26ویں ترمیم رکوانے والے ہار گئے اور پاس کرانے چاہتے تھے‘ وہ کامیاب ٹھہرے۔
اب جیوڈیشل کمیشن کے اجلاس سے قبل بھی اس کو روکنے کی کوشش کی گئی ہے۔ جب 26ویں آئینی ترمیم میں یہ طے کر دیا گیا ہے کہ آئینی معاملات صرف اور صرف آئینی بنچ ہی سن سکتا ہے۔ سپریم کورٹ کے پاس اب آئینی معا ملات سننے کا کوئی اختیار نہیں۔ تا ہم پھر بھی فل کورٹ میں 26ویں آئینی ترمیم کی سماعت کروانے کی ایک کوشش کی گئی۔ لیکن چیف جسٹس آف پاکستان اس فیصلہ پر عملدرآمد روک دیا۔ یوں رجسٹرار سپریم کورٹ نے فل کورٹ کی کاز لسٹ جاری نہیں کی اور چیف جسٹس نے ان درخواستوں کو سماعت کے لیے مقرر نہیں ہونے دیا۔
سابق چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے دور میں بھی انھیں سپریم کورٹ کے معاملات سے بالکل سائیڈ لائن کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔ جس کے بعد پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی میں تیسرے رکن کو نامز د کرنے کا اختیار چیف جسٹس کو دیا گیا۔ اب چیف جسٹس یحیٰ آفریدی کو سائیڈ لائن کر کے وہی کام کرنے کی کوشش کی گئی۔ اور اس بات کو ثابت کیا ہے کہ پارلیمان نے پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون میں ترمیم کر کے درست کیا ہے۔ ورنہ چیف جسٹس کے عہدہ کی حیثیت ہی ختم ہو جائے گی۔
اس لیے منظر نامہ یہی ہے کہ 26ویں آئینی ترمیم کی کامیابیاں ایک طرف ہمیں نظر آرہی ہیں۔ وہ اپنے تمام تر اہداف کامیابی سے حاصل کر رہی ہے۔ دوسری طرف اس کے خلاف سازشیں بھی جاری ہیں۔ کیا آئینی بنچ بننے کے بعد سازشیں ختم ہو گئی ہیں۔ مجھے نہیں لگتا۔لیکن کب تک یہ ہوتا رہے گا‘ یہ ایک الگ سوال ہے۔ اس میں چیف جسٹس یحیٰ آفریدی کے صبر کو بھی دیکھنا ہے۔
بہر حال آئینی بنچ بننے کے بعد سپریم کورٹ سے جیوڈیشل ایکٹوزم کافی حد تک کنٹرول میں آجائے گا۔ اب تک سب سے بڑا مسئلہ جیوڈیشل ایکٹوزم ہی رہا ہے۔ اب سب کو علم ہے کہ اہم مقدمات اب آئینی بنچ میں جائیں گے۔ لیکن میں پھر بھی سمجھتا ہوں لڑائی ختم نہیں ہوئی۔ ابھی اس میں اور بھی مراحل ہونگے۔ جیسے فل کورٹ بلانے کی کوشش کی گئی ہے۔ ایسی ہی مزید کوششیں بھی نظر آئیں گی۔
[ad_2]
Source link