23

ایفائے عہد کے احکامات، فضائل اور برکات

حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ بہت کم ایسا ہوا کہ رسول اﷲ ﷺ نے ہمیں خطبہ دیا اور یہ ارشاد نہ فرمایا ہو، مفہوم: ’’جس میں امانت نہیں اس کا ایمان (کامل) نہیں اور جس میں عہد کی پابندی نہیں اس کا دین (کامل) نہیں۔‘‘(رواہ البیہقی فی شعب الایمان)

اﷲ تعالیٰ نے جس دین کامل کو رسول اﷲ ﷺ کے ذریعے انسانوں تک پہنچایا ہے اس میں ایمان کے بعد جن باتوں پر بہت زیادہ تاکید بیان کی گئی ہے وہ اچھے اخلاق اختیار کرنا ہے اور بُرے اخلاق سے اپنی حفاظت کرنا ہے۔

انسان کی زندگی میں اخلاق کی بڑی اہمیت ہے اگر انسان کے اخلاق اچھے ہوں تو اس کی اپنی زندگی بھی قلبی سکون اور خوش گواری سے گزرے گی اور دوسروں کے لیے بھی اس کا وجود رحمت اور چین کا باعث ہوگا، اور اگر انسان کے اخلاق بُرے ہوں تو وہ خود بھی زندگی کے لطف و مسرت سے محروم رہے گا اور جن لوگوں سے اس کا واسطہ اور تعلق ہوگا ان کی زندگی بھی بدمزہ اور تلخ ہوگی۔

یہ تو خوش اخلاقی اور بَداخلاقی کے دنیا کی زندگی میں ظاہر ہونے والے نتائج ہیں جن کا ہر انسان اپنی روز مرہ زندگی میں مشاہدہ کر رہا ہے لیکن مرنے کے بعد آنے والی ابدی زندگی میں اچھے اور بُرے اخلاق کے اور زیادہ اہم نتائج نکلنے والے ہیں۔ خوش اخلاقی کا نتیجا ارحم الرٰحمین کی رضا اور جنّت ہے اور بداخلاقی کا انجام خداوند قہار کا غضب اور جہنم کی آگ ہے۔ انہی اخلاقی خوبیوں میں سے ایک خوبی عہد کی پابندی ہے۔ جس کے بارے میں سورۃ بنی اسرائیل میں فرمایا: مفہوم: ’’اور تم عہد کو پورا کیا کرو۔ بے شک! عہد کے بارے میں قیامت کے دن پوچھا جائے گا۔‘‘

اس بارے میں تین الفاظ بولے جاتے ہیں: وعدہ، عہد اور معاہدہ۔

وعدہ اور عہد دونوں عربی زبان کے الفاظ ہیں، دونوں کا معنی تقریباً ایک جیسا ہے۔ یعنی قول و قرار، کسی بات کو پختہ کر لینا۔ لیکن اردو زبان میں ان دونوں لفظوں کے استعمال میں فرق بھی کر لیا جاتا ہے اگر کسی بات کو عام انداز میں ذکر کر دیا جائے تو وعدہ کرنا کہتے ہیں اور بہت ہی پختہ کر دیا جائے تو عہد کہتے ہیں۔ اور جب دو انسانوں یا دو قوموں کے درمیان کوئی بات طے ہو جائے تو اسے معاہدہ کہتے ہیں۔ اور کبھی یہ فرق بھی کیا جاتا ہے کہ اگر ایک شخص یک طرفہ قول و قرار کر لے تو اسے وعدہ کہتے ہیں اور دو طرفہ قول و قرار ہو تو اسے عہد کہتے ہیں۔ عہد دو طرح کے ہیں، ایک وہ عہد جو بندے اور اﷲ کے درمیان ہو۔ جیسے ازل میں بندہ کا یہ عہد کہ بے شک! اﷲ تعالیٰ ہمارا رب ہے، اس عہد کا اثر یہ ہوتا ہے کہ انسان پر اﷲ کی اطاعت لازم ہو جاتی ہے۔

یہ عہد تو اسلامی تعلیمات کے مطابق ہر انسان نے ازل میں کیا ہے اور پھر دنیا میں وجود میں آنے کے بعد مومن کا عہد جو اس نے کلمہ شہادت کے اقرار کے ذریعے کیا ہے، اس معاہدے پر عمل کرنا بہ ہر صورت واجب ہے۔ دوسری قسم عہد کی وہ ہے جو ایک انسان دوسرے انسان سے کرتا ہے اس میں تمام تجارتی معاہدات، سیاسی معاہدے اور دوسرے تمام معاہدوں کی صورتیں شامل ہیں۔

اس قسم کے تمام عہد اگر ان میں اسلامی تعلیمات یعنی احکام شرعیہ کے خلاف کوئی بات نہ ہو تو ان کا پورا کرنا بھی واجب ہوتا ہے۔ اور اگر اس عہد میں کوئی خلاف شرع بات ہو یا غیر شرعی کام کا عہد کیا ہو تو دوسرے فریق کو اطلاع کر کے اس معاہدہ کو ختم کر دینا واجب ہے۔ اگر کوئی سے دو فریق کسی کام کے کرنے یا نہ کرنے کا معاہدہ کرلیں پھر ایک فریق معاہدہ پر عمل نہ کرے تو عدالت میں دعویٰ دائر کر کے معاہدہ پر عمل کرایا جا سکتا ہے۔

اگر کوئی شخص کسی سے یک طرفہ وعدہ کر لیتا ہے کہ میں آپ کو فلاں چیز دوں گا یا فلاں وقت آپ سے ملوں گا یا آپ کا فلاں کام کر دوں گا، اس کا پورا کرنا بھی انسان کے ذمے واجب ہوتا ہے، بسا اوقات وعدہ کو بھی عہد کے مفہوم میں داخل سمجھا جاتا ہے لیکن پھر بھی وہ فرق موجود رہے گا کہ اگر یک طرفہ وعدہ یا عہد ہو تو اسے عدالت کے ذریعہ جبراً پورا نہیں کروایا جا سکتا جب کہ دو طرفہ معاہدہ میں عدالت سے رجوع کیا جا سکتا ہے۔

یک طرفہ عہد یا وعدہ کی پابندی بھی شرعاً لازمی ہے۔ اگر کوئی شخص بلا عذر شرعی عہد کی پابندی نہ کرے وہ شرعی طور پر گناہ گار ہوگا۔ اﷲ تعالیٰ کے ہاں جواب دہ ہوگا۔ ارشاد باری تعالی کا مفہوم ہے: ’’اور تم عہد کو پورا کرو۔ بے شک! عہد کے بارے میں پوچھا جائے گا۔‘‘ اور سورۃ المومن کے آغاز میں مومنین کی فلاح و کام یابی کے جو اصول بیان فرمائے ان میں ایک اصول آیت نمبر 8 میں فرمایا، مفہوم: ’’اور وہ لوگ جو اپنی امانتوں اور اپنے عہد کا خیال رکھتے ہیں۔‘‘

طبرانی میں حضرت علیؓ اور حضرت عبد اﷲ بن مسعودؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا کہ وعدہ بھی ایک طرح کا قرض بنتا ہے۔ لہذا اگر کسی کو کچھ دینے کا یا کسی کا کام کرنے کا عہد کیا جائے تو پھر اسے پورا کرنا اپنے اوپر فرض کی طرح سمجھنا چاہیے۔

عہد کرتے ہوئے اس بات کی نیت ضرور کرنی چاہیے کہ میں عہد کی پابندی کروں گا اگر یک طرفہ عہد کرتے وقت نیت پابندی کرنے کی ہو لیکن پھر کسی وجہ سے عہد اور وعدہ پورا نہ کر سکے تو اﷲ تعالیٰ کے نزدیک وہ گناہ گار نہیں ہوگا۔

حضرت زید بن ارقمؓ سے ابو داؤد اور ترمذی میں روایت منقول ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا، مفہوم: ’’جب کسی شخص نے اپنے بھائی سے آنے کا وعدہ اور عہد کیا اور اس کی نیت یہی تھی کہ وہ وعدہ پورا کرے گا لیکن کسی وجہ سے وہ مقررہ وقت پر نہیں آیا تو اس پر کوئی گناہ نہیں۔‘‘

البتہ جس شخص سے عہد کیا ہو اس سے معذرت کر لی جائے تا کہ اس شخص کا اعتماد بحال رہے، لیکن عہد کرتے ہوئے بڑی یقین دہانی کرادی جائے اور اگر عین اس وقت دل میں نیت یہ ہو کہ اسے پورا نہیں کرنا، تو یہ بہت بڑی خیانت ہے۔

ارشاد نبوی ﷺ کا مفہوم: ’’یہ بہت ہی بڑی خیانت ہے کہ تم اپنے بھائی سے کوئی بات کرو، وہ تمہیں سچا سمجھ رہا ہو حالاں کہ تم جھوٹ بول رہے ہو۔‘‘

رسول اکرم ﷺ نے تو بچوں کے ساتھ کیے گئے عہد کی پابندی کرنے کی بھی تعلیم دی ہے۔ حضرت عبد اﷲ بن عامرؓ اپنے بچپن کا واقعہ بتاتے ہیں کہ رسول اکرم ﷺ ہمارے گھر میں تشریف فرما تھے کہ میری والدہ نے مجھے کہا: ’’ادھر آؤ! میں تمہیں کچھ دوں گی۔‘‘ رسول اﷲ ﷺ نے پوچھا: ’’تم نے اسے کیا کیا چیز دینے کا ارادہ کیا ہے۔‘‘ میری ماں نے کہا: ’’ایک کھجور دینے کا ارادہ کیا۔‘‘ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’اگر تم اس کو کچھ نہ دیتی تو تمہارے نامۂ اعمال میں ایک جھوٹ لکھا جاتا۔‘‘

 اس سے معلوم ہوا کہ بچوں سے بھی بد عہدی کی اجازت نہیں جب کہ عموماً معاشرے میں اس بات کو معیوب نہیں سمجھا جاتا۔ عہد کی پابندی ایمانی تقاضا ہے اس لیے کہ وعدہ خلافی کو رسول اﷲ ﷺ نے منافق کی نشانیوں میں شمار فرمایا ہے۔ جب معاشرے میں عہد کی پابندی کا خیال رکھا جاتا ہوتو پھر معاشرے میں افراد کا ایک دوسرے پر اعتماد قائم رہتا ہے۔ اور جب عہد شکنی عام ہو جائے تو پھر معاشرے میں باہمی اعتماد ختم ہو کر رہ جاتا ہے جب کہ زندگی کے اکثر معاملات کا انحصار اعتماد پر قائم ہے۔

اس لیے کسی سے عہد کرنے سے پہلے سوچ لیا جائے کہ میں پورا کر سکوں گا یا نہیں۔ اور پورا کرنے کی نیت بھی ہے یا نہیں اور پھر عہد کرنے کے ساتھ ان شاء اﷲ بھی کہہ دیا جائے۔ اس کے بعد اگر عہد پورا کرنے میں رکاوٹ نظر آرہی ہو تو کوشش کر کے مقررہ وقت سے پہلے معذوری اور عذر ظاہر کر دیا جائے تاکہ عین وقت پر دوسرے کو پریشان نہ ہونا پڑے اور اگر دوسرا شخص چاہے تو اس کام کے لیے متبادل انتظام بھی کرلے لیکن حیلے بہانے یا جھوٹ اور فریب سے کام لے کر عہد شکنی نہیں کرنی چاہیے بل کہ اصل بات ظاہر کر کے عذر پیش کر دیا جائے۔ اور اگر کبھی عہد شکنی ہو جائے تو دوسرے انسان سے معافی مانگ لی جائے اور کسی نہ کسی طرح اس کو پہنچنے والی تکلیف کا ازالہ کر کے اس کے دل کو خوش کر دیا جائے تاکہ یہیں دنیا میں معاملہ اور حساب صاف ہو جائے اور آخرت میں عہد کا حساب نہ دینا پڑے۔

اﷲ رب العزت ہمیں عہد کرنے سے پہلے سوچنے اور عہد کرتے وقت خلوص نیت اور بعد میں عہد کی پابندی کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین





Source link

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں