28

نو منتخب امریکی صدر کی ترجیحات کیا ہوں گی؟

امریکا کے صدارتی انتخابات کے نتائج توقع کے مطابق آ چکے ہیں ‘سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ دوسری بار صدر کا عہدہ حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔انھوں نے اپنی کامیابی کو دنیا کے امیر ترین کاروباری دوست کی جدوجہد کا نتیجہ قرار دیا ہے۔ڈونلڈ ٹرمپ نے دوبارہ صدارت حاصل کرکے موجودہ صدر جوبائیڈن کے ہاتھوں اپنی شکست کا بدلہ بھی لے لیا ۔

ڈونلڈ ٹرمپ کو جیسے ہی فتح کے لیے درکار 270 ووٹ ملنے کی اطلاعات ملیں تو انھوں نے اس کے فوراً بعد اپنے آپ کوامریکا کا 47 واں صدر کہتے ہوئے اپنی کامیابی کا اعلان کر دیا۔ڈونلڈ ٹرمپ نے فلوریڈا میں اپنے انتخابی ہیڈ کوارٹر میں اپنے حامیوں سے پْرجوش خطاب کیا۔ اس خطاب میں انھوں نے کہا کہ امریکا کے لیے سنہری دور کا آغاز ہونے والا ہے، امریکا کو پھر عظیم، محفوظ، مضبوط اور خوشحال بنانے کا وقت آگیا۔

انھوں نے دنیا میں جاری تنازعات ختم اور کوئی نئی جنگ شروع نہ کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا امریکی عوام نے مجھے طاقتور مینڈیٹ دیا، امریکا کو درپیش تمام مشکلات حل اور ٹیکس کم کروں گا، عوام کے حقوق کے لیے لڑوں گا۔ اس وقت تک آرام سے نہیں بیٹھوں گا جب تک امریکا کو محفوظ اور خوش حال ملک بنانے کا عہد پورا نہ کروں ۔میں نے کوئی جنگ شروع نہیں کی بلکہ میں نے ختم کی ہیں۔امریکی نومنتخب صدر نے اپنے خطاب میں مزید کہا کہ یہ وقت اتحاد کا ہے، گزشتہ برسوں میں جو تقسیم تھی، اسے پس پشت ڈالنا ہوگا۔

نو منتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کس تقسیم کا ذکر کرتے ہوئے اسے پس پشت ڈالنے کی بات کی ہے ‘اس کے بارے میں وہ خود بھی اچھی طرح جانتے ہیں اور ان کے مخالفین کو بھی بخوبی پتہ ہے لیکن دیکھنا یہ ہو گا کہ کیا یہ تقسیم ختم ہو جائے گی۔ جس اتحاد کی وہ بات کر رہے ہیں کیا وہ اتحاد قائم ہو سکے گا کیونکہ نو منتخب صدر نے جوبائیڈن سے شکست کھانے کے بعد جس قسم کی جارحانہ حکمت عملی اختیار کی کیا ڈیموکریٹک پارٹی اور اس کے حامی وہ سب بھلا دیں گے‘ بہر حال صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو اس تقسیم کا ادراک ہے۔المیہ یہی ہے کہ سیاستدان اقتدار کی منزل تک پہنچنے کے لیے بعض اوقات اس قسم کی نفرت اور تعصبات کی آگ کو بھڑکا دیتے ہیں ‘جسے بعد ازاں ٹھنڈا کرنا بہت مشکل ہوتا ہے۔

امریکا کی سیاست میں نومنتخب صدرڈونلڈ ٹرمپ نے جس سیاسی کلچر کی بنیاد رکھی اور اسے پروان چڑھایا کیا وہ اسے خود ہی ختم کر پائیں گے۔ اس کا جواب آنے والا وقت ہی دے گا۔بہر حال صدر ٹرمپ امریکا کی تاریخ میں دو بار منتخب ہونے والے دوسرے صدر بن گئے۔امریکی تاریخ میں صرف ایک بار ایک امیدوار دو الگ الگ مدتوں کے لیے صدارت کے عہدے پر فائز ہوا ۔ ڈیموکریٹ گروور کلیولینڈ نے 1884 میں جنسی سکینڈل اور متعدد بحرانوں پر قابو پایا۔ انھوں نے ریپبلکن امیدوار جیمز بلین کو شکست دے کر کامیابی حاصل کی تھی۔ٹرمپ نے تین بار الیکشن لڑااور دو بار کامیاب ہوئے۔نومنتخب صدرڈونلڈ ٹرمپ کی خواتین کے حوالے سے سوچ اور فکر کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔

ہیلری کلنٹن اور کملا ہیرس کے حوالے سے ان کے بعض ریمارکس کو امریکا کے فہمیدہ حلقوں نے پسند نہیں کیا۔ڈونلڈ ٹرمپ امریکا کی تاریخ میں ایسے صدر کے طور پر یاد رہیں گے جن کے مدمقابل دو بار خواتین امیدواروں نے صدارتی الیکشن لڑا ۔صدر ٹرمپ ڈیموکریٹک پارٹی کے جس مرد امیدوار کے خلاف الیکشن لڑا ‘وہ جوبائیڈن تھے‘ جن کے مقابلے میں ٹرمپ الیکشن ہار گئے تھے یوں انھوں نے اپنی دو بار صدارت خواتین امیدواروں کو ہی شکست دے کر حاصل کی۔ نومنتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی کامیابی کے ساتھ ہی دنیا بھر ڈالر کی قیمت میں اضافہ دیکھا گیا۔

اس کا یہی مطلب ہے کہ عالمی کاروباری دنیا نے ان کی جیت پر مثبت ردعمل کا اظہار کیا ہے۔ عالمی رہنماؤں نے بھی  نومنتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو مبارکباد کے پیغاماتبھیجناشروع کر دیئے۔سب سے زیادہ پرجوش ‘پرمسرت پیغام اسرائیل کے وزیراعظم نیتن یاہو نے پہنچایا ہے۔ اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو نے نومنتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جیت کو تاریخ کی سب سے بڑی واپسی قراردیا اورکہا کہ یہ اسرائیل اور امریکا کے درمیان عظیم اتحاد کے لیے طاقتور عزم کا اظہار ہے۔ تل ابیب اور یروشلم میں مبارک باد کے بل بورڈز آویزاں کیے جارہے ہیں۔جن پر لکھا ہے اسرائیل کو عظیم بناؤ، ساتھ ہی ٹرمپ کی تصویر بھی موجود ہے۔

عوامی جمہوریہ چین کی وزارت خارجہ کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا نو منتخب صدر ٹرمپ کو کامیابی پر مبارک باد دیتے ہیں۔ امریکا کے لیے ہماری پالیسی میں تبدیلی نہیں ہوئی لیکن باہمی احترام کی شرط پر مشترکہ مفادات پر مل کر کام جاری رکھیں گے۔پاکستان کے وزیراعظم شہبازشریف نے ایکس(ٹوئٹر)پراپنے پیغام میں نومنتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ کومبارکباد دیتے ہوئے کہا وہ پاکستان اورامریکا کے درمیان شراکت داری کو مزیدمضبوط اوروسیع کرنے کے لیے نئی امریکی انتظامیہ کے ساتھ مل کر قریبی کام کرنے کے منتظرہیں۔

بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے بھی ایکس پرنومنتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو اپنا دوست کہہ کر مخاطب کرتے ہوئے لکھا آپ کی تاریخی انتخابی کامیابی پر دل کی گہرائیوں سے مبارکباد ،آپ کے ساتھ تعاون کی تجدید کا منتظر ہوں۔افغانستان کی طالبان حکومت نے بھی ڈونلڈ ٹرمپ کی جیت پر امید افزا بیان جاری کیا ہے۔طالبان حکومت نے کہاہے کہ امید ہے ٹرمپ کی جیت امریکا کے ساتھ تعلقات میں نئے باب کا سبب بنے گی۔نومنتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پہلے دور میں طالبان کے ساتھ امن معاہدے کی سربراہی کی، جس کے نتیجے میں امریکا کو 2021میں انخلا کا راستہ ملا اور 20سالہ قبضے کا خاتمہ ہوا۔ افغانستان کے محکمہ اطلاعات و ثقافت کے سربراہ انعام اللہ سمنگانی نے ایکس پر لکھا امریکی اپنے عظیم ملک کی سربراہی خاتون کے ہاتھ میں دینے کو تیار نہیں ہیں۔

اطالوی وزیر اعظم جارجیا میلونی ‘ ہنگری کے وکٹر اوربان ‘ فرانس کے صدر ایمانویل میکرون ‘یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی ‘ ترکیہ کے صدر رجب طیب اردوان نے بھی مبارکباد کے پیغام بھیجے ہیں۔نیٹو کے سیکریٹری جنرل مارک رٹے نے ڈونلڈ ٹرمپ کو مبارک باد دیتے ہوئے اس امید کا اظہار کیا کہ ان کی قیادت میں نیٹو دفاعی اتحاد مزید مضبوط ہو گا۔ایرانی حکومت کے ترجمان فاطمی مہاجرانی نے کہا امریکی صدارتی انتخاب کے نتائج کا ایرانی عوام کی زندگی پر اثر نہیں پڑے گا۔ ایران اپنی پالیسیوں کو شخصیات نہیں، اصولوں کی بنیاد پر تشکیل دیتاہے اور وہ ان پر عملدرآمد جاری رکھے گا۔

ادھر امریکی ڈیموکریٹک پارٹی کی صدارتی امید وار کملا ہیرس نے اعلیٰ جمہوری روایات کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی شکست تسلیم کر لی ہے۔ کملا ہیرس نے کہا ہے کہ جمہوریت کا اصول ہے ہارو تو شکست تسلیم کرو، جمہوریت اور آمریت میں یہی فرق ہے۔ انھوں نے کہا کہ گن وائلنس سے اپنے شہریوں کو محفوظ رکھنے کی جنگ میں ہار نہیں مانیں گے۔کملا ہیرس کا یہ بھی کہنا ہے کہ ہماری لڑائی امریکا کے بہتر مستقبل کی لڑائی ہے، ستارے اندھیرے میں ہی نظر آتے ہیں۔

یوں دیکھا جائے تو کملا ہیرس نے اعلیٰ جمہوری آدرشوں کا خیال رکھا ہے۔ نو منتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو اگر اس قسم کی جمہوری اقداراور رویوںپرتولا جائے تو شاید وہ معیارپر پورا نہ اتر سکیں کیونکہ انھوں نے اپنی شکست کو تسلیم نہیں کیا تھا اور ان کے حامیوں نے مظاہرے کیے تھے۔امریکی صدارتی انتخاب کی دھوم پوری دنیا میںرہی جو مہنگا ترین رہا۔ امیدواروں نے انتخابی مہم پر 16 ارب ڈالر خرچ کرڈالے۔

امریکی صدارتی انتخابات میں کملا ہیرس کی شکست پر ڈیموکریٹک پارٹی کے رہنماؤں نے صدر جوبائیڈن پر تنقید کرتے ہوئے انھیں شکست کا ذمے دار قرار دیا ہے۔خبر رساں ادارے کے مطابق امریکی نائب صدر کملا ہیرس کی شکست پر کئی ڈیموکریٹک رہنما غصے میں ہیں اور وہ شکست کا ذمے دار صدر جوبائیڈن کو قرار دے رہے ہیں۔

رپورٹس کے مطابق 3 ماہ قبل صدارتی انتخابات لڑنے کا اعلان کرنے والی کملا ہیرس کو صدر کی پالیسیز جاری رکھنے کے اعلان پر شکست ہوئی، ان کی اس شکست پر کچھ ڈیموکریٹس پارٹی کے مستقبل کے بارے میں سوالات اٹھا رہے ہیں۔خبر رساں ادارے کے مطابق ڈیموکریٹس نے الزام لگایا کہ پارٹی نے صدر جوبائیڈن کی ذہنی صحت کے بارے میں اپنے حامیوں سے جھوٹ بولا، ڈونلڈ ٹرمپ سے مباحثے نے خطرے کی گھنٹی بجائی تھی اور پھر صدر کو انتخابی دوڑ سے باہر ہونا پڑا۔ڈیموکریٹس نے کہا کہ صدر جوبائیڈن کو اپنی صحت سے متعلق کچھ چھپانا نہیں چاہیے تھا اور انھیں جلد انتخابی عمل سے دور ہوجانا چاہیے تھا۔

ڈونلڈ ٹرمپ امریکا کے صدر بن چکے ہیں ‘اب دنیا کی نظریں ‘ان کی نئی پالیسی پر مرکوز ہیں‘ وہ جس قسم کی ٹیم تشکیل دیں گے اس سے ان کی پالیسی کے خدوخال بھی واضح ہوتے چلے جائیں گے۔ امریکی عوام بھی منتظر ہوں گے کہ ان سے جو وعدے کیے گئے ہیں وہ کتنی جلد پورے ہوتے ہیں۔





Source link

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں