39

امیر بائی کرناٹکی – ایکسپریس اردو

[ad_1]

تقسیم سے پہلے متحدہ ہندوستان میں تفریح کا ذریعہ یا تو فلمیں تھیں جنھیں لوگ سینما گھر میں جا کر دیکھا کرتے تھے، یا پھر ریڈیو سنا کرتے تھے جن میں اولین پسند فلمی گیت اور غزل ہوا کرتے تھے۔

ان دنوں اداکار اور اداکارائیں اپنے گیت بھی خود گاتے تھے اور ایکٹنگ بھی کرتے تھے۔ مردوں میں سریندر،کرن دیوان، سہگل، سی ایچ آتما، پنکج ملک، خان مستانہ اور خواتین میں امیربائی کرناٹکی، خورشید، منور سلطانہ، ثریا، زہرہ بائی انبالے والی، نور جہاں، اوما دیوی (ٹُن ٹُن) سرفہرست تھیں، البتہ شمشاد بیگم اور مبارک بیگم صرف گلوکارہ تھیں۔ موسیقی کے شیدائی آج بھی اولین دور کی موسیقی کو بڑے شوق سے سنتے ہیں۔

آج کی نسل ’’ری مکس‘‘ تو بڑے شوق سے سنتی ہے، لیکن انھیں یہ نہیں معلوم کہ اصل میں یہ گیت کس نے گایا۔ اس سنہری دور کی مقبولیت کی وجہ یہ تھی کہ ہر کام میرٹ پر ہوتا تھا، گنگا جمنی معاشرہ تھا، مختلف مذاہب کے لوگ مل جل کر رہتے تھے۔ انگریزوں کا دور تھا لہٰذا زندگی کے ہر شعبے میں میرٹ کا خیال رکھا جاتا تھا، آج پرانے گانوں کے ری مکس  بنائے جاتے ہیں۔ ان پر بے ہودہ ڈانس کروایا جاتا ہے لیکن نئی نسل کے لوگ نہ تو شاعر کا نام جانتے ہیں نہ موسیقار کا نہ گلوکار کا۔ جو گلوکار تھے ان کی آوازیں بہت منجھی ہوئی اور صاف تھیں ایک ایک لفظ صاف سنائی دیتا تھا، جب کہ آج کی موسیقی سنیے تو الفاظ سنائی تو دیتے ہیں لیکن سمجھ میں نہیں آتے۔ بے پناہ شور، سیکڑوں ساز، ایک ایک درجن وائلن،گٹار اور نہ جانے کیا کیا۔

سازوں کے بے ہنگم شور میں آواز کہیں دب جاتی ہے یا جان بوجھ کر دبا دی جاتی ہے تاکہ آواز کا سقم ظاہر نہ ہو۔ پرانے گیتوں میں ساز بہت کم ہوتے تھے۔ آواز کا جادو سر چڑھ کر بولتا تھا اور آج بھی ان کی مقبولیت میں کمی نہیں آئی۔ سازوں میں ہارمونیم، ستار، طبلہ اور ڈھولک کا استعمال ہوتا تھا۔ پیانو کا استعمال بھی بہت بعد میں آیا ہے۔

موسیقی کی دنیا میں ہمیشہ مسلمانوں کا پلہ بھاری رہا ہے۔ بڑے غلام علی خاں، استاد امانت علی، استاد کریم بخش، استاد برکت علی وغیرہ۔ یہ فہرست بہت طویل ہے جو اس وقت حافظے میں نہیں ہے، لیکن پرانے گلوکاروں کی ذاتی زندگی کھنگالیں تو خواہ ہندو ہوں یا مسلمان ان کے استاد زیادہ تر مسلمان ہی تھے۔ بھائی چارے کی فضا تھی، مذہب بیچ میں نہیں آتا تھا، اگر ایسا ہوتا تو ثریا، شمشاد بیگم، مبارک بیگ، زہرہ بائی انبالے والی، محمد رفیع، مناڈے، کشورکمار، لتا، آشا، اوشا، نور جہاں وغیرہ کے نام نہ ہوتے۔ انھی آوازوں میں ایک آواز تھی امیربائی کرناٹکی کی، ان کا جنم بیجاپور میں سن 1906 میں ہوا۔ ہندی سینما کے اوائل کی گلوکارہ، اداکارہ، خوش شکل، خوش قسمت، متوسط گھرانے سے تعلق تھا۔ یہ پانچ بہنیں تھیں لیکن امیربائی اور گوہربائی قسمت کی بڑی دھنی تھیں۔

دونوں کو عزت بھی ملی اور شہرت بھی۔ جہاں تک آوازوں کا تعلق ہے تو دونوں کی آوازیں صاف اور واضح تھیں، ہلکے سروں اور اونچے سروں دونوں میں گاتی تھیں۔ ساز اور آواز کا تال میل اس وقت بڑی اہمیت رکھتا تھا، آج کل کی طرح نہیں کہ سفارشی کلچر اور پیسے کے بل بوتے پر بے سری آوازوں کو بھی ایوارڈ دلوا دیا جاتا ہے۔ امیربائی پندرہ برس کی عمر میں میٹرک کر کے بمبئی (ممبئی) شفٹ ہوگئیں۔ انھیں اصل شہرت فلم قسمت سے ملی جو 1943 میں بنی تھی۔ 1944 میں بننے والی فلم ’’رتن‘‘ سے امیربائی کرناٹکی کو راتوں رات شہرت ملی۔ اس شہرت کا سہرا جاتا ہے موسیقار اور کمپوزر انل بسواس کو۔ ان کے کیریئر میں 1947 بہت اہمیت رکھتا ہے۔ انھوں نے وہاب پکچر کے بینر تلے بننے والی فلم ’’شہناز‘‘ کی موسیقی بھی ترتیب دی تھی۔

وہ بڑی ہنرمند اداکارہ، گلوکارہ اور سنگیت کار تھیں۔ اپنے وقت کے معروف فلمی میگزین ’’فلم انڈیا‘‘ میں اپنے ایک آرٹیکل میں لکھا تھا کہ بیسویں صدی کے اوائل میں جب عام پلے بیک سنگر ایک گانے کے 500 روپے لیتا تھا، اس وقت امیربائی کا ایک گانے کا معاوضہ 1000 روپے تھا جو اس وقت کے لحاظ سے ایک بڑی رقم تھی، لیکن امیربائی کی ذاتی زندگی پرسکون نہ تھی۔ ان کی پہلی شادی اداکار ہمالیہ والا سے ہوئی جو بعد میں پاکستان آگئے تھے۔ خوبرو اور وجیہہ تھے اور یہاں آ کر فلموں میں کام بھی کیا۔ یہ رول عموماً ولن کے ہوتے تھے، لیکن بیوی کے ساتھ بھی وہ ولن کا کردار نبھائیں گے ایسا تو امیربائی نے سوچا بھی نہ تھا۔ ان کی شادی شدہ زندگی میں مسلسل اتار چڑھاؤ آتے رہے۔

ہمالیہ والا انھیں ذہنی اور جسمانی تشدد کا نشانہ بھی بناتے تھے اور باقاعدہ مارپیٹ بھی کرتے تھے اور اسی کے پیسے پر عیش کرتے تھے۔ تنگ آ کر امیربائی نے طلاق لینا چاہی تو بدلے میں ہمالیہ والا نے کار کی ڈیمانڈ کردی۔ دوستوں اور بہی خواہوں نے بیچ میں پڑ کر امیربائی کو ہمالیہ والا سے طلاق تو دلوا دی لیکن اسے اپنی کار سے بھی ہاتھ دھونا پڑے۔ امیربائی کی دوسری شادی بدری کانج والا سے ہوئی جو بہت مہربان اور شفیق انسان تھے۔ امیربائی نے یوں تو سیکڑوں گیت گائے ان مشہور گیتوں میں سے چند ایک یہ ہیں۔

 (1)۔ دھیرے دھیرے آرے بادل (فلم قسمت) (2)۔ او جانے والے بالموا لوٹ کے آ (فلم رتن)(3)۔ گورے گورے او بانکے چھورے کبھی میری گلی آیا کرو(4)۔ مارکٹاری مر جانا کسی سے دل نہ لگانا(5)۔ اب تیرے سور کون مراکش کنہیا (6)۔ دنیا نے ہمیں دو دن کے لیے۔(7)۔ آہیں نہ بھریں شکوے نہ کیے، کچھ بھی نہ زباں سے کام لیا

ہم دل کو پکڑ کر بیٹھ گئے ہاتھوں سے کلیجہ تھام لیا

(فلم زینت) (8)۔ مل کے بچھڑ گئی انکھیاں (رتن)(9)۔ دھیرے دھیرے آ رہے بادل (رتن)(10)۔ گھر گھر میں دیوالی ہے میرے گھر میں اندھیرا (قسمت)(11)۔ کاہے جادو کیا مجھ کو اتنا بتا، جادوگر بالما(12)۔ جوگن بنا کے پیا چھوڑ گیو توہے(13)۔ عید ملو عید(14)۔ میاں سے بچھڑ گئی ہو مورے رام(15)۔ مل کے بچھڑ گئیں انکھیاں

خاص کر فلم زینت کی قوالی ’’آہیں نہ بھریں شکوے نہ کیے، کچھ بھی نہ زباں سے کام لیا‘‘ نے مقبولیت کے سارے ریکارڈ توڑ دیے۔

انھوں نے گجراتی اور کنڑ زبان میں بھی گانے گائے لیکن انھیں شہرت ملی ہندی اور اردو گانوں سے۔ انھوں نے 380 گانے گائے۔ ان کا ایک بھجن اتنا مشہور ہوا کہ مہاتما گاندھی روز صبح یہ بھجن سنا کرتے تھے۔ انھوں نے اپنی پہلی فلم ’’قسمت‘‘ میں انل بسواس کے چھ گانے گائے۔’’رتن‘‘ میں گائے جانے والے سبھی گیت مشہور ہوئے اور یہ فلم بھی بہت کامیاب رہی۔

3 مارچ 1965کو کچھ عرصہ بیمار رہ کر ان کا انتقال ہو گیا۔ شوبز کی دنیا بڑی بے رحم ہے، خاص کر فلمی دنیا۔ جب تک اداکار یا اداکارہ سلور اسکرین پہ نظر آتے ہیں ان کے انٹرویو بھی ہوتے ہیں، ان کے ساتھ شامیں بھی منائی جاتی ہیں اور جیسے ہی وہ بوڑھے ہو جائیں یا مرجائیں تو زمانہ انھیں بھول جاتا ہے لیکن ہم لکھاریوں کو چاہیے کہ ایسے نامور لوگ، ادیب، فلمی اداکار، ٹی وی اداکار، سوشل ورکر جو اب اس دنیا میں نہیں رہے، انھیں یاد کیا جائے تاکہ نئی نسل ان کے فن اور کارناموں سے واقف ہو سکے۔ امیربائی کرناٹک کی رہنے والی تھیں اس لیے اس دور کے مطابق اپنے علاقے کا نام لگانا ضروری تھا۔ انھیں ان کی سریلی اور دلکش آواز کی وجہ سے ’’کنڑ کی کوئل‘‘ کہا جاتا تھا۔



[ad_2]

Source link

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں