لیجیے 5نومبر کے امریکی صدارتی انتخابات کا نتیجہ نکل چکا ہے ۔ 78سالہ ڈونلڈ ٹرمپ ایک بار پھر امریکی صدر منتخب ہو چکے ہیں۔ لیکن ابھی اُنھوں نے صدارت کا حلف اُٹھایا ہے نہ وائیٹ ہاؤس پہنچے ہیں۔ ساری دُنیا کی منتظر نگاہوں کو مگر’’ٹھنڈ‘‘ پڑ چکی ہے۔
کئی ممالک میں نئے امریکی صدر سے نئی توقعات وابستہ کی گئی ہیں اور کئی ممالک میں نئے امریکی صدر کی آمد سے پرانی توقعات ٹوٹ گئی ہیں ۔ ایسی ہی ایک بڑی توقع ہماری حکومت اور ہمارے وزیر اعظم ، جناب شہباز شریف، نے پچھلی امریکی حکومت سے وابستہ کی تھی۔ یہ توقع پوری ہونی تھی نہ ہُوئی ۔
توقع یہ تھی کہ رخصت ہوتے امریکی صدر ، جو بائیڈن،امریکا میں برسوں سے قید دخترِ پاکستان، ڈاکٹر عافیہ صدیقی، کو خصوصی صدارتی اختیارات بروئے کار لا کر باعزت رہا کر دیں گے ۔ ایسا مگر نہ ہو سکا ؛ چنانچہ اب مایوسی کے ساتھ ہمارے وزیر خارجہ، جناب اسحاق ڈار، نے کہا ہے :’’ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی کے لیے ہم امریکی قیادت کو قائل نہیں کر سکے ۔
وزیر اعظم شہباز شریف نے امریکی صدر، جو بائیڈن، کو خط لکھا تھا کیونکہ امریکی صدور عام طور پر (صدارت کا) عہدہ چھوڑنے سے قبل کچھ(قیدیوں کو) معافیاں دیتے ہیں (ایسا مگر عافیہ کے حوالے سے کچھ بھی نہ ہو سکا ) اب امریکی ارکانِ کانگریس سے ملاقات کے لیے ہماری طرف سے چار رکنی کمیٹی تشکیل دی گئی ہے ۔ یہ کمیٹی ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی معافی اور قید سے رہائی کے حق میں لابنگ کرے گی ۔‘‘
2نومبر2024کو ایک خبر یوں آئی :’’ وفاقی حکومت نے اسلام آباد ہائیکورٹ کو بتایا ہے کہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی اور صحت معلوم کرنے کے لیے جو وفد امریکا جائیگا، اس میں سینیٹر طلحہ محمود، فوزیہ صدیقی،انوشہ رحمان اور ایک ڈاکٹر شامل ہوگا۔یہ وفد امریکی صدارتی انتخابات کے بعد امریکا روانہ ہوگا۔‘‘اِس وفد کی تشکیل ہی سے ہم اندازہ لگا سکتے ہیں کہ حکومت ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی کے لیے کتنی سنجیدہ ہے ۔
باون سالہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی پاکستان کی بیٹی ہیں ۔ اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں ۔ امریکا میں اعلیٰ ملازمت بھی کرتی رہی ہیں۔ مبینہ طور پر گرین کارڈ ہولڈر بھی ہیں ۔ شادی شدہ اور بال بچوں والی ہیں ۔ شومئی قسمت سے پچھلے کئی برسوں سے امریکی ریاست ، ٹیکساس، کی ایک نہائت بدنامِ زمانہ جیل (Carswell) میں قید ہیں ۔ ناکردہ گناہوں کی سزا بھگت رہی ہیں ۔ امریکی فوج اور امریکی عدالتوں نے اُن پر7بڑے اور سنگین الزامات عائد کیے ۔اِن الزامات کا مگر کوئی وجود ہی نہ تھا ۔
امریکی ججوں نے مگر عافیہ صاحبہ کو86 سال کی سزا سنا دی ۔ اگر پاکستان کمزور اور امریکا کا دستِ نگر نہ ہوتا تو ڈاکٹر عافیہ صدیقی ایسی اعلیٰ تعلیم یافتہ شخصیت کو کبھی سزا نہیں دی جا سکتی تھی ۔ ڈاکٹر صاحبہ کو امریکیوں کے حوالے اُس وقت کیا گیا اور اُنہیں اُس وقت لمبی سزا دی گئی جب پاکستان پر بدقسمتی سے ایک غیر منتخب شخص حاکم تھا ۔ اُس حاکم نے خود اپنی خود نوشت(In The Line of Fire) میں اعتراف کیا ہے کہ جی ہاں، مَیں نے اتنے پاکستانیوں کو امریکا کے حوالے کیا تھا ۔
ہمارے کئی حکمرانوں سے مسلسل کہا جاتا رہا ہے کہ وہ امریکی حکمرانوں کو خط لکھ کر عافیہ صدیقی کی رہائی کی کوشش کریں ۔ کسی کے کانوں پر جُوں تک نہ رینگی ۔ مگر وزیر اعظم جناب شہباز شریف نے ایسا خط لکھ ہی دیا، اگرچہ عدالتی حکم پر ۔ اکتوبر2024کے وسط میں جناب شہباز شریف نے امریکی صدر، جو بائیڈن، کو خط میں ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی قید سے رہائی کے لیے یوں گزارش کی:’’ مَیں نے آپ کو ہمیشہ پاکستان اور اُس کے عوام کا دوست پایا۔ مَیں آپ کی توجہ ایک ایسے اہم معاملے کی طرف مبذول کرانا چاہتا ہوں جسے ہمدردی کی بنیاد پر دیکھا جانا چاہیے۔
ڈاکٹر عافیہ صدیقی کارسویل(ٹیکساس کی جیل) میں ستمبر 2010 سے قید ہیں۔ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو امریکی ڈسٹرکٹ کورٹ نے 86 سال قید کی سزا سنا رکھی ہے۔وہ امریکی جیل میں 16سال کی قید کاٹ چکی ہیں۔ اِن برسوں میں پاکستانی آفیشلز عافیہ صدیقی سے کونسلر ملاقاتیں کر چکے ہیں ۔
ملاقات کرنے والے تمام افراد نے ڈاکٹر عافیہ کو میسر علاج کی سہولیات سے متعلق سنگین تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ آپ سمجھ سکتے ہیں کہ بطور وزیراعظم اِس معاملے میں مداخلت میری ذمے داری ہے۔ گزارش ہے کہ آپ اپنا آئینی اختیار استعمال کرتے ہوئے انسانی بنیادوں پر عافیہ صدیقی کی سزا معاف اور انھیں رہا کرنے کا حکم دیں۔ مجھ سمیت عافیہ صدیقی کے اہلخانہ اور لاکھوں پاکستانی آپ کی عنایت کے منتظر ہیں‘‘۔
جناب شہباز شریف نے عدالتِ عالیہ کے حکم کی تعمیل میں امریکی صدر کو خط تو لکھ دیا مگر امریکی صدر نے خط کو شرفِ قبولیت بخشا نہ کوئی متوقع ’’عنائت‘‘ کرتے ہُوئے ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی کے لیے کوئی ایکشن لیا ۔ غریب اور محتاج قوم کے غریب اور محتاج حکمرانوں کے ایسے خطوط کو بھلا عالمی طاقتورحکمران کہاں کوئی اہمیت دیتے ہیں ؟ پاکستان کا ہر شہری مگر عافیہ صدیقی کی امریکی قید سے رہائی چاہتا ہے ۔
جماعتِ اسلامی کے سابق سینیٹر ، جناب مشتاق احمد خان، نے اپنے دَور میں ڈاکٹر عافیہ کی رہائی بارے باقاعدہ مہمات چلائیں ۔ وہ عافیہ صدیقی کی ہمشیرہ، محترمہ فوزیہ صدیقی، کے ساتھ امریکا تک گئے ۔
عافیہ کی جیل کے سامنے مظاہروں میں حصہ لیا ۔ مگر سب بے فائدہ اور بے ثمر ۔ ڈاکٹر عافیہ صدیقی اپنے ناکردہ گناہوں کے باوجود امریکی شکنجے میں بُری طرح پھنس چکی ہیں ۔ اس سے نکلنا مشکل تر ہے ۔ امریکا سامراج نے اُسامہ بن لادن کو بعد از بسیار کوشش قتل کرکے اور شیخ عمر عبدالرحمن ،رمزی یوسف اور ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو لمبی لمبی سزائیں دے کر دراصل یہ ثابت کرنا چاہا ہے کہ وہ سفاکی سے بھی آگے جا کر اپنے مخالفین و معاندین کو دُنیا کے سامنے مقامِ عبرت بنا سکتا ہے ۔
جو بائیڈن اگر چاہتے تو وائیٹ ہاؤس سے جاتے جاتے عافیہ صدیقی کو ، خصوصی صدارتی اختیارات کے تحت، رہا کر سکتے تھے ۔ مگر نہیں ۔ سابق امریکی صدر ، ڈونلڈ ٹرمپ، اگر پچھلی بار صدارت سے رخصت ہوتے وقت ، صدارتی معافی اختیارات کے تحت، اگر اپنے کئی واقف کاروں اور سفارشیوں کی سنگین سزائیں بیک جنبشِ قلم معاف کر سکتے تھے تو جو بائیڈن بھی اگر چاہتے تو ایسا کر سکتے تھے ۔ مگر پاکستان اور پاکستانیوں کی توقعات پوری نہ ہو سکیں ۔
امریکی جیل میں قید ایک پاکستانی تو رہائی نہ پا سکی ، مگر ستم ظریفی دیکھئے کہ ہم پاکستانیوں کی ایک سیاسی جماعت اور اس کے جملہ وابستگان نے نئے امریکی صدر ( ڈونلڈ ٹرمپ) سے یہ توقع اور اُمید لگا لی ہے کہ وہ اپنی طاقت ، رعب اور دبدبے سے وائیٹ ہاؤس پہنچتے ہی بانی پی ٹی آئی کی قید ختم کروا دیں گے ۔ اِسی اُمید اور توقع کے تحت یہاں تک اُمیدیں اور دعوے کر ڈالے گئے ہیں کہ نئے امریکی صدر کے آتے ہی نومبر 2024 کے آخر میں
بانی صاحب آزاد فضاؤں میں ہوں گے ۔ یہ توقع اور دعوے کرنے والوں میں لطیف کھوسہ اور مشاہد حسین سید ایسے قانون دان اور دانشور بھی شامل ہیں ۔ یہ دعوے کرنے سے قبل عشاق نے یہ تک نہ سوچا کہ نیا امریکی صدر تو صدارت کا حلف ہی جنوری2025ء کے پہلے ہفتے اُٹھائے گا : امریکی صدارتی انتخاب جیتنے کے73 یوم کے بعد۔امریکا میں متعین پاکستان کے سابق سفیر، حسین حقانی، اور پاکستان نژاد امریکی شہری اور ڈونلڈ ٹرمپ کے معتمد دوست، ساجد تارڑ، نے بھی کئی پاکستانی نجی ٹی ویوں سے کھل کر کہا ہے کہ بانی پی ٹی آئی کی رہائی کے لیے ٹرمپ سے توقعات وابستہ رکھنا غیر حقیقی سوچ ہے ۔ اب دیکھتے ہیں نَو منتخب امریکی صدر بانی پی ٹی آئی کے عشاق کی اُمیدوں اور توقعات پر کہاں تک پورا اُترتے ہیں!