[ad_1]
پی ٹی آئی کے سیاست میں نووارد سیکریٹری جنرل جو ایک سینئر وکیل ہیں نے کہا ہے کہ اب بانی پی ٹی آئی کا عدالتوں کے ذریعے رہا ہونے کا امکان نہیں رہا بلکہ اب واحد راستہ سڑکوں پر نکلنا رہ گیا ہے، اگر چار لاکھ افراد سڑکوں پر آ کر احتجاج کریں تب ہی حکومت بانی چیئرمین کو رہا کرنے پر مجبور ہو جائے گی۔
انھوں نے تسلیم کیا کہ بانی کی رہائی کے لیے پی ٹی آئی جب بھی احتجاج کی کال دیتی ہے تو بڑے شہروں میں صرف چند ہزار کارکن باہر نکلتے ہیں جنھیں وہاں کی پولیس منتشر کر دیتی ہے اسی لیے اب تک بانی کی رہائی کے لیے کوئی موثر احتجاج نہیں ہو سکا اور احتجاج سے کچھ نہ ہو سکا۔ پی ٹی آئی کے سیاست میں ایک اور نووارد وکیل جو جج بھی رہ چکے ہیں نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ اگر بانی کی رہائی کے لیے تین لاکھ افراد سڑکوں پر آجائیں تو موثر احتجاج ممکن ہے اور بانی کو رہا کرایا جا سکتا ہے۔
پی ٹی آئی کے یہ دونوں رہنما وکیل ہیں۔ سلمان اکرم راجہ کو پہلی بار اتنا اہم سیاسی عہدہ ملا ہے ان کی عمر عدالتی مقدمات میں گزری ہے۔ فروری کے الیکشن میں قومی اسمبلی کا الیکشن ہار گئے تھے جب کہ شیر افضل مروت کی بھی کوئی سیاسی اہمیت پی ٹی آئی حکومت تک نہیں تھی مگر اپنی پارٹی میں اب بھی متنازع ہیں، وہ دیگر پارٹی رہنماؤں کے برعکس بانی چیئرمین کی رہائی کے لیے موثر احتجاج کے شدید حامی ہیں اور بانی سے جیل میں ملتے بھی رہے ہیں وہ حال ہی میں جب بانی سے ملے تو ان کے بقول وہاں بعض پارٹی رہنما مجھے پارٹی میں رہائی کے لیے کوئی احتجاجی تحریک چلانے کا موقع نہیں دے رہے کیونکہ انھیں خوف ہے کہ میں بانی کی رہائی کے لیے ملک میں منظم احتجاجی تحریک چلانے میں کامیاب نہ ہو جاؤں، اس لیے یہ نہ خود احتجاجی تحریک چلا رہے ہیں نہ مجھے تحریک چلانے دے رہے ہیں اگر مجھے یہ موقعہ ملے تو میں بانی کے لیے رہائی ممکن بنا سکتا ہوں۔
بانی پی ٹی آئی کے لیے بڑے بڑے بلند و بانگ دعوے کرنے اور جذباتی تقاریر کے ماہر علی امین گنڈا پور ہیں جنھوں نے دو ماہ قبل اسلام آباد کے جلسے میں بانی چیئرمین کو دو ہفتوں میں جیل سے رہا کرانے کا اعلان کیا تھا اب اپنا دعویٰ بھول چکے ہیں۔ بانی چیئرمین کی دو بہنیں جو حال ہی میں رہا ہوئی ہیں وہ بھی اپنے بھائی کے لیے احتجاجی تحریک کی حامی ہیں مگر ان کا پی ٹی آئی میں کوئی بڑا کردار نہیں ہے۔ پیپلز پارٹی میں اہم عہدوں پر رہنے والے سردار لطیف کھوسہ پی ٹی آئی میں شامل ہوئے تھے اور پہلی بار لاہور سے قومی اسمبلی کے رکن بھی ہیں۔
انھوں نے بیان دیا کہ نومبر میں ٹرمپ امریکا کے صدر منتخب ہوتے ہی وہ نومبر میں ہی بانی چیئرمین کو رہا کرا دیں گے۔ ہر امریکی صدر نومبر میں منتخب ضرور ہوتا ہے مگر ہر نو منتخب صدر حلف 20 جنوری کو ہی اٹھاتا ہے اس لیے نومبر میں خان کی رہائی خواب ہو سکتا ہے عملی طور پر رہائی نومبر میں ممکن نہیں۔ پی ٹی آئی رہنماؤں کو سو فی صد یقین تھا کہ 26 اکتوبر کے بعد وہ عدلیہ سے بانی کو رہا کروا لیں گے۔ پی ٹی آئی رہنماؤں کے بیانات سے معاملہ حل نہیں ہو سکا ۔
پی ٹی آئی نے فروری الیکشن میں کے پی سے سب سے زیادہ نشستیں جیتی تھیں اور ملک بھر سے اسے لاکھوں ووٹ ملے تھے اور اسے ملک میں اکثریت ملی تھی۔ کے پی میں اس کی اپنی حکومت ہے۔ پنجاب و وفاق میں وہ دوسرے نمبر کی پارٹی ہے جس کے وہاں اپنے اپوزیشن لیڈر ہیں۔
پی ٹی آئی تو کروڑوں ووٹ ملنے کی دعوے دار ہے تو وہ کروڑوں پی ٹی آئی کے ووٹر کہاں گئے جو پی ٹی آئی کی احتجاجی تحریک میں بانی چیئرمین کو رہا کرانے کے لیے سڑکوں پر نہیں آ رہے کہ آج پی ٹی آئی رہنماؤں کو سڑکوں پر لانے کے لیے تین چار لاکھ افراد کی ضرورت پڑ گئی ہے اور ان کا کہنا ہے کہ اگر بانی کی رہائی کی احتجاجی تحریک کامیاب بنانے کے لیے تین چار لاکھ افراد سڑکوں پر آجائیں تو حکومت بانی کو مجبور ہو کر رہا کر دے گی۔
کروڑوں ووٹ لینے کی دعوے دار پی ٹی آئی کئی بار کی کوشش کے باوجود کہیں بھی 50 ہزار افراد سڑکوں پر لانے میں ناکام رہی ہے اور اسے تین چار لاکھ افراد کی ضرورت ہے تو پی ٹی آئی کو کروڑوں ووٹ دینے والے کہاں ہیں وہ سڑکوں پر کیوں نہیں نکل رہے اس کی احتجاجی بانی رہائی تحریک کیوں ناکام ہو جاتی ہے۔ جس پارٹی کے کروڑوں ووٹر ہوں اور وہ اپنی پارٹی سے پیار بھی کرتے ہوں تو وہ اپنی پارٹی کے لیے قربانی دینے سے گریز کیوں کر رہے ہیں۔
اس سے یوں لگتا ہے کہ تحریک انصاف کے رہنماؤں کے دعوے غلط ہیں ۔تین چار لاکھ لوگوں کی ضرورت مند ملک کی سب سے بڑی پارٹی ہونے کی دعویدار پی ٹی آئی ہے اس کے ووٹر بھی مایوس ہو کر گھر بیٹھ گئے ہیں، پی ٹی آئی کے رہنما اب عدالتوں پر اعتماد نہیں کر رہے اور چار لاکھ لوگوں کے لیے فریاد کر رہے ہیں تو کوئی تو وجہ ہے کہ عوام بانی کی رہائی کے لیے سڑکوں پر نہیں نکالے جا سکے یا پی ٹی آئی کی موجودہ قیادت خود نہیں چاہتی کہ بانی رہا ہوں اور خود ان کی پارٹی میں اہمیت کم ہو جائے؟
[ad_2]
Source link