48

منفی سوچیں سب سے بڑا مسئلہ ہوتی ہیں

[ad_1]

انتھونی ہاپکنز نے ایک بار کہا تھا ’’ دوسرے میرے بارے میں کیا سوچتے ہیں یا کہتے ہیں اس سے مجھے کوئی سروکار نہیں ہے۔ میں صداقت کے ساتھ جیتا ہوں، اس بات کی بنیاد پر کہ میں کون ہوں اور میری کیا قدر ہے۔ میں توثیق کا پیچھا نہیں کرتا یا دوسروں کی رائے سے چمٹا نہیں رہتا، کیونکہ میں سمجھتا ہوں کہ حقیقی سکون زندگی کی نعمتوں اور اس کے چیلنجوں کو کھلے بازوؤں سے قبول کرنے سے حاصل ہوتا ہے۔ توقعات کو چھوڑکر اور تمام تجربات کا خیرمقدم کرتے ہوئے، مجھے ایک قسم کی آزادی ملتی ہے جو ہر دن کو ہلکا اور زیادہ پورا کرنے والا بناتی ہے۔

ہم ایک ایسے وقت میں رہتے ہیں جب ظاہری شکل دل سے زیادہ اہمیت رکھتی ہے اور تقریبات اکثر ان جذبات سے کہیں زیادہ ہوتی ہیں جن کا مقصد ان کا احترام کرنا ہوتا ہے۔ ایک ایسی دنیا جہاں لوگ شاندار ڈسپلے پر توجہ مرکوز کرتے ہیں، پھر بھی کنکشن اور موجودگی کی پرسکون، ضروری خوبصورتی کو نظر انداز کرتے ہیں۔ جنازوں کو خراج تحسین کے طور پر تیار کیا جاتا ہے، پھر بھی اکثر منائے جانے والے شخص کے جوہر سے محروم رہتے ہیں۔ ہم تصاویر، لیبلز اور تعریفوں کی قدر کرتے ہیں، جو اکثر اندر کی روح، کردار اور مہربانی کو نظر انداز کرتے ہیں۔ ظاہری شکل کے اس کلچر میں، واقعی معنی خیز چیز کو نظر انداز کرنا آسان ہے، لیکن میں مختلف طریقے سے رہنے کا انتخاب کرتا ہوں۔ میں سطح سے آگے جانے، ڈسپلے پر گہرائی کی قدر کرنے اور ان چیزوں کو ترجیح دینے کے لیے پرعزم ہوں جن کو پسندیدگی یا لیبلز سے ماپا نہیں جا سکتا۔

زندگی اس وقت امیر ہو جاتی ہے جب ہم لوگوں کو ان کی روحوں کے لیے، ان کی گرمجوشی کے لیے اور ان کے حقیقی روابط کے لیے جو وہ ہماری زندگیوں میں لاتے ہیں۔ دوسروں کے لیے منظوری حاصل کرنے یا پرفارم کرنے کے لامتناہی چکر میں پھنسنے سے بچنے کے لیے شور سے پیچھے ہٹنا آزاد ہے۔ اس کے بجائے، میں اپنی اقدار کو پروان چڑھانے، بامعنی تعلقات استوار کرنے اور زندگی کو خوبصورت بنانے والے چھوٹے، مستند لمحات میں خوشی تلاش کرنے پر توجہ مرکوز کرتا ہوں۔ اس طرح زندگی گزارنا ظہور کے جنون میں مبتلا دنیا میں بغاوت کا خاموش عمل ہے۔ یہ ظاہری نمائش پر اندرونی طاقت، رسم پر محبت اور معاشرے کے معیارات پر دل کی سچائیوں کا احترام کرنے کا انتخاب کر رہا ہے۔

میں سادگی اور مادہ کو قبول کرتا ہوں، یہ سمجھتے ہوئے کہ حقیقی قناعت اسپاٹ لائٹ میں نہیں بلکہ امن، شکر گزاری اور حقیقی تعلق کے لمحات میں پائی جاتی ہے۔ لٰہذا، میں فیصلے کے شور یا موافقت کے دباؤ سے بے نیاز ہوکر اپنے راستے پر چلتا رہوں گا۔ میں جیسا کہ میں ہوں کافی ہوں اور میری زندگی اس چیز کی قدر کرنے کے لیے زیادہ امیر ہے جو واقعی اہم ہے۔ ایک ایسی دنیا میں جو اکثر تحفے سے زیادہ لپیٹنے کو اہمیت دیتی ہے، میں جیسا کہ میں ہوں، مستند طور پر، بغیر معذرت کے ساتھ اور خوشی سے زندگی گزارنے کا انتخاب کرتا ہوں، یہ جان کر کہ حقیقی دولت ان دیکھی خصوصیات میں پنہاں ہے جو روح کی تشکیل کرتی ہیں۔ ہمارے غصے، جھنجھلاہٹ، طیش میں آنے، احساس بربری کا شکار ہوجانے ، نفرت ، اپنے آپ کو ناگزیر سمجھنے، صرف اپنے آپ سے محبت کرنے کے پیچھے حالات و واقعات نہیں ہوتے بلکہ ہماری ذہنی و جسمانی بیماریاں ہوتی ہیں، اگر ہم ذہنی و جسمانی طور صحت مند ہونگے تو ہمارے رویے بھی صحت مند ہونگے جب رویے صحت مند ہونگے تو ان سے صحت مند حالات و واقعات کا جنم ہوگا لیکن اگر ہم ذہنی و جسمانی طور پر بیمار ہونگے تو ہمارے رویے بھی بیمار ہونگے اور جب رویے بیمار ہونگے تو پھر اس سے بیمار حالات و واقعات جنم لیں گے ایسا ممکن ہی نہیں ہے کہ کوئی صحت مند آدمی غصے، جھنجھلاہٹ، احساس بر تری یا صرف اپنے آپ سے محبت کرنے جیسی بیماریوں کا شکار ہوجائے۔

سارتر لکھتا ہے کہ ’’ میری ماں صرف یہ دعا مانگتی تھی کہ اسے سکون نصیب ہو‘‘ جب کہ سیموئیل جانسن کہتا ہے ’’ اطمینان کے سوتے ذہن سے پھوٹتے ہیں اور انسانی فطرت کے بارے میں وہ کم علم جو اپنی بجائے دوسری چیزوں کو تبدیل کر کے خوشیوں کے حصول کے متمنی ہوتے ہیں، وہ نہ صرف اپنی تمام کوششوں کو ضایع کرتے ہیں بلکہ ان ہی غموں کو اپنے لیے بڑھا لیتے ہیں جن کو ختم کرنے کے لیے وہ ساری جدوجہد کر رہے ہوتے ہیں۔‘‘ یاد رہے جب ہم مسائل کا شکار ہوتے ہیں اور یہ سوچتے ہیں کہ مسئلہ کہیں باہر ہے تو دراصل یہ سوچ ہی سب سے بڑا مسئلہ ہے یہ کہہ کر ہم اپنا کنٹرول اس باہرکے مسئلے کے ہاتھ میں دیتے ہیں لیکن کبھی بھی مسئلہ باہر نہیں ہوتا، مسئلہ ہمیشہ اندر ہوتا ہے۔

اسی لیے ایمرسن کہتا تھا کہ ’’ تم جوکچھ ہو اس ہونے کا شور میرے کانوں میں اسی قدر زیادہ ہے کہ تم جوکچھ کہتے ہو وہ مجھے سنائی نہیں دیتا۔‘‘    نامور ماہر نفسیات اسٹیفن آر ک کووے لکھتا ہے۔ ’’ برائے مہربانی کوشش کیجیے کہ اپنے ذہن سے ہر چیز نکال دیں اور اپنی پوری توجہ میری بات پر مرکوز رکھیں اپنے وقت، بزنس، خاندان، احباب وغیرہ کسی کے بارے میں بھی فکرمند نہ ہوں اور اپنے ذہن کو حقیقتاً کھلا رکھیں ۔ اب آپ اپنے ذہن کی آنکھ سے اپنے آپ کو اپنی کسی پیارے کے جنازے پر جاتا دیکھیں خود کو جنازے کی جگہ پر پہنچتا دیکھیں اور اپنی کار سے باہر آتا دیکھیں، آپ جب عمارت میں داخل ہوتے ہیں تو پھول دیکھتے ہیں اور دھیمی دھیمی ماتمی موسیقی آپ کے کانوں میں پڑتی ہے، آپ جیسے جیسے آگے بڑھتے ہیں۔

 آپ کا احساس زیاں وہاں موجود ہر شخص کے دل سے بہہ رہا ہے اور شناسائی کے مہ و سال کی خوش کن یادوں میں بھی بڑھتا جاتا ہے یہ احساس آپ کے دل میں بھر جاتا ہے جب آپ اس کمرے کے آخر پر پہنچتے ہیں اور تابوت میں جھانکتے ہیں تو اچانک آپ خود کو اپنے مقابل پاتے ہیں، یہ آپ کی اپنی میت ہے اور آخری رسومات کی تقریب ہے جو کہ آج سے تین سال بعد منعقد ہورہی ہے اور یہ تمام لوگ آپ کے لیے اپنی عزت کا اظہار کرنے اپنی محبت نچھاور کرنے اور آپ کی بھر پور زندگی کی یاد میں یہاں اکٹھے ہوئے ہیں آپ رسومات کے شروع ہونے کے انتظار میں جب اپنی نشست پر بیٹھتے ہیں تو آپ کی نظر اپنے ہاتھ میں رسومات کے پروگرام کی کاپی پر پڑتی ہے تقریب میں چار مقرر ہونگے پہلا، آپ کے خاندان سے قریبی یا دور کا، بچوں، بھائیوں، بہنوں، بھانجے، بھتیجوں، چچاؤں میں سے کوئی جو سارے ملک کے طول و عرض سے آپ کے جنازے میں شرکت کے لیے جمع ہوئے ہیں دوسرا مقرر،آپ کے دوستوں میں سے کوئی ہوگا جو کہ آپ کی شخصیت پر روشنی ڈال سکے۔

تیسرا مقرر، آپ کے پیشے سے متعلق ہوگا اور چوتھا آپ کے مذہبی یا پھر ایسے فلاحی ادارے سے کہ جہاں آپ اپنی خدمات پیش کرتے رہے۔ اب آپ ذرا گہرائی سے سوچیے آپ ان تمام مقررین کے منہ سے اپنے اور اپنی زندگی کے بارے میں کیسی باتیں سننا پسند کریں گے؟ تو پھر آپ کو اپنی کامیابی کی تعریف مل جائے گی اور یہ ممکن ہے کہ یہ تعریف آپ کے ذہن میں اس سے پہلے موجود تعریف سے مختلف ہو۔

ہماری تمام جدوجہد کے مطمع ہائے نظر یعنی شہرت،کامیابی، دولت اور ایسی ہی دوسری چیزیں شاید صحیح دیوارکا حصہ بھی نہ نکلیں۔ اس لیے آئیں پہلی فرصت میں اپنی عینک کو بدل دیں تاکہ آپ دیکھ سکیں کہ مسائل باہر نہیں بلکہ آپ کے اندر ہیں اور آخر کو نظر میں رکھتے ہوئے اپنا آج گزاریں یاد رکھیں۔ ایک نہ ایک دن ہم سب نے چلے جانا ہے یہ ہمارے آج پر منحصر ہے کہ کل لوگ ہمیں کس طرح یاد کریں گے۔



[ad_2]

Source link

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں