41

ذریعہ روزگار؟ – ایکسپریس اردو

[ad_1]

’’( شیطان نے کہا ) اے میرے رب! جیسا تُو نے مجھے گمراہ کیا ہے، میں بھی زمین میں لوگوں کے لیے گناہوں کو مزین بنا کر دکھاؤں گا اور ان سب کو گمراہ کروں گا۔‘‘ (سورۃ الحجر)

 یہ بات تو طے ہے کہ انسان دنیا کی رنگینیوں میں بھٹک جاتا ہے کچھ زیادہ بہہ جاتے ہیں تو کچھ اپنے آپ کو تھام لیتے ہیں، مادیت پرستی کے اس دور میں ہمیں یہ دنیا رنگ و روشنی سے مزین نظر آتی ہے۔ سیٹلائٹ کا دور ہے ایک چھوٹے سے بالشت بھر فون سے ہم دنیا بھر کی رنگینی کا سامان اٹھا لیتے ہیں۔ سچی جھوٹی خبریں بڑے دعوؤں، تصدیق کے ساتھ سن کر سچ سمجھ لیتے ہیں، رنگ برنگے اشتہارات دیکھ کر آن لائن آرڈر کر ڈالتے ہیں اور بعد میں مہنگے داموں لنڈے کے کپڑے، عیب دار سامان زندگی وصولتے ہیں۔ یہ رنگین دنیا اپنے اندر ڈھیروں بھید لیے بسی ہے۔

اس دنیا میں ایک اور جھنجھٹ آن بسا ہے جس سے پہلے بازار سجے ہوتے ہیں۔ لنڈا بازار اپنے اندر ڈھیروں معنی سمیٹے ہوئے ہیں وہی بازار کہ جس کے ذکر سے شریف انسان لرز کر رہ جائے، وہ بازار اب سستے داموں بلاتاخیر کے دستیاب ہے۔’’میرا بچہ پندرہ سال کا ہے، ہر وقت موبائل فون سے لگا رہتا ہے، یہاں تک کہ سوتا بھی ہے تو اپنے سے لگا کر سوتا ہے۔‘‘ایک ماں اپنے بچے کے نفسیاتی مسئلے پر الجھی غم داستان بیان کر رہی ہے جو جواباً افسوس کے اور کچھ نہ تھا۔ ایک ماہر نفسیات کے لہجے میں اداسی پنہاں تھی۔’’میں خود موبائل سے چپکی رہتی ہوں، ان کے مسئلے کا کیا حل پیش کروں۔‘‘بات اگر صرف ہنسی مذاق، گانوں اور سیاسی ادھیڑ بن تک کے تبصروں تذکروں تک محدود رہتی تو بھی بہتر تھا لیکن…’’یہ دیکھیے ہمارے گھر نیا سولر لگا ہے۔‘‘ ’’یہ دیکھیے گھر میں کتنا گند پھیلا ہے، ابھی جھاڑو لگاتی ہوں۔‘‘ ’’ہمارے یہاں اس طرح آلو گوشت کھایا جاتا ہے۔‘‘ بات کچھ اور آگے بڑھتی ہے اور دنیا آپ کے گھر، باورچی خانے، اسٹور، بیٹھکوں تک چلی جاتی ہے اور لے جانیوالی ہمارے اس معاشرے کی منی، چنی، لیلیٰ، بتول اور ناصرہ ہوتی ہیں۔

یہ کیا کھیل ہے ایسا کیوں ہو رہا ہے، کیا ہمارے گھروں میں جھاڑو نہیں دی جاتی،کیا کھانے نہیں پکتے، کیا لوگ لاہور سے فیصل آباد گھومنے پھرنے نہیں جاتے؟ پر نہیں جناب! یہاں تو منی اسکوٹر پر بیٹھ کر اپنے پاپا کے ساتھ جاتی ہے تو چنی اس کا بھی وی لاگ شیئر کرتی ہے۔ کچھ عرصہ قبل سات برس کا بچہ اور اس کی چھوٹی بہن جو دور دراز قبائلی علاقے سے اپنی وڈیوز بنا کر نشر کرتے تھے جس میں گاؤں کی سادہ زندگی کے بارے میں بچوں کی زبانی معصوم باتیں ہوتی تھیں پر معیار صاف ستھرا تھا ملک بھر میں ہی نہیں دنیا بھر میں اس کی معصوم باتوں کو سراہا گیا، اس طرح لوگوں کو بہت سی مثبت باتیں بھی سمجھ آئیں۔ بہرحال موضوع ابھی یہ نہیں ہے، بلکہ مقصد صرف اتنا سا ہے کہ اس چھوٹے سے آلۂ دنیا کو ایک حد تک ہی رکھیں تو بہتر ہے، اسے دوسرے مقاصد کے لیے استعمال نہ کیا جائے۔

نقطہ بھر گناہ بھی قدرت سے پوشیدہ نہیں، پر کھلے عام، ببانگ دہل فضولیات کو شیئر کرنا کیا مقصد ظاہر کرتا ہے۔ ہنسی مذاق، شاعری، ادب، بامقصد گفتگو، مذہبی مسائل، کہانیاں وغیرہ سب چلتا ہے لیکن گھر کی بڑی ہوتی بچیوں کا اس طرح کا استحصال کس طرح مناسب ہے؟ ایک کچے گھر کا مکین، گاؤں کے مناظر اور دل فریب نظاروں میں آسائش سے بھرپور لوازمات لیے کیسے ابھرتا ہے، اس کے لیے کس طرح کی دلیل درکار ہے کہ الفاظ محدود ہیں۔ ہم سب اپنے بچوں سے بہت پیار کرتے ہیں، یہ ہماری دنیا کی خوب صورتی ہیں، رب العزت کی طرف سے خوش نما پھول ہیں، پر ان کا اشتہار لگانا کیا ہمارے اعصاب پر سوگواریت طاری نہیں کرتا، وہ بھی اس دور میں جب بچوں کے ساتھ نامساعد حالات اور جنسی ہراسانی کا شور ابھرتا رہتا ہے۔

ایسے میں اپنی بچیوں کو کمائی کا ذریعہ بنانا سوال کھڑے کرتا ہے۔سوشل میڈیا کے ذریعے اٹھنے والے طوفان انسانی زندگیوں کو کس طرح متاثر کرتے ہیں، اس کا ثبوت اپنے ارد گرد کے ماحول سے ہی مل جاتا ہے یقینا اس طرح بہت سے سچ اور مفید باتیں بھی کھل کر منظر عام پر آتی ہیں اور لوگوں کی پھینٹی بھی لگتی ہے ادارے مستعد ہو جاتے ہیں جب یہ سب کچھ ہو سکتا ہے تو چھوٹی عمر کی کم سن لڑکیوں اور بچیوں کے وی لاگ، وڈیوز یوٹیوب اور ٹک ٹاک کے ذریعے عام لوگوں تک پہنچتے ہیں اور وہ ان تمام قصے کہانیوں، بے تکی، بے محل باتوں کو نہ صرف ذوق و شوق سے دیکھتے ہیں بلکہ اپنی چاہت اور پسندیدگی کا اظہار مہنگے تحفے تحائف دے کر بھی کرتے ہیں اور یوں یہ سیریز چل پڑتی ہے۔

 اب اگر کوئی اس پر تنقید کرے تو ایک بحث کہ الامان الحفیظ۔کیا ایک معصوم سی بچی دپیکا ہے جو اس کے فالورز کی تعداد میں اضافہ ہوتا جاتا ہے، کیا واقعی ہمارا سوشل میڈیا اتنا مضبوط ہے اور مستعد ہے جو فوری طور پر اپنی پسندیدہ شخصیت کو اپنے پیغامات باہم پہنچاتا رہتا ہے اور کسی دوسرے تیسرے شخص کی مداخلت کے بغیر اپنے خیالات کا اظہارکر دیتا ہے، کیا یہ سب بہت ضروری ہے یا ہمیں سمجھ ہی نہیں آتا کہ اس طرح ہمارے عام سے شریف گھرانوں کی شریف بچیاں اشتہارات لگا کر کما کر بہت بڑے معاوضوں کے ساتھ اپنے غریب خاندانوں کو پال رہی ہیں۔

 کیا یہ کاروبار زندگی منافع بخش ہے؟ہم صریحاً گمراہی کے اندھیروں میں اترتے جا رہے ہیں جہاں ہمارے ارد گرد کی دنیا رنگینیوں سے بھری ہے اور ہم روکھی سوکھی عزت کی روٹی سے اکتا گئے ہیں، سستے میلے کپڑے اب چبھتے ہیں، ہمیں برگر، پیزا، مرغن غذائیں اور برانڈڈ لباس و آرائش بھاتے ہیں کہ ہمارے پاس ان سب کو میسر کرنے کے لیے ہتھیار ہے۔ کیا ایسا کرنا درست ہے؟ سوال تو اُٹھتا ہے۔



[ad_2]

Source link

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں