[ad_1]
کراچی:
وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے اسٹیل مل کی بحالی کیلیے روس سے مدد مانگ لی، آئندہ ہفتے پاکستانی ماہرین اور روسی نمائندوں کے درمیان آن لائن مشاورت ہوگی اس کے بعد روسی وفد اسٹیل مل کا دورہ کرے گا جس سے اسٹیل مل کی بحالی میں بڑی پیش رفت ہو گی۔
یہ پیش رفت وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ اور روسی سفیر البرٹ خوریف کے درمیان وزیراعلیٰ ہاؤس میں ملاقات کے دوروان سامنے آئی، وزیراعلیٰ نے پاکستان اسٹیل مل کی تاریخی اہمیت پر روشنی ڈالی، انھوں نے کہا کہ پاکستان پیپلزپارٹی اسٹیل مل کی بحالی کا مضبوط ارادہ رکھتی ہے۔
روسی سفیر کا کہنا تھا کہ مجوزہ آن لائن اجلاس میں منصوبے کے تکنیکی معاملات پر بات کی جائے گی، اجلاس کے بعد روسی وفد مزید جائزہ کیلیے اسٹیل مل کا دورہ بھی کرے گا۔
وزیراعلیٰ مراد علی شاہ اور سفیر خوریف نے اتفاق کیا کہ موجودہ ناکارہ مشینری کی جگہ جدید پلانٹ لگایا جائے گا اس امید کے ساتھ کہ ورکرز کی نوکریاں بچ جائیں، مراد علی شاہ اور خوریف نے سندھ میں سرمایہ کاری کے امکانات پر بھی تبادلہ خیال کیا۔
سفیر نے کراچی کے ٹرانسپورٹ کے شعبے خاص طور پر الیکٹرک بسوں پر سرمایہ کاری میں روسی کمپنیوں کی دلچسپی کا اظہار کیا، وزیراعلیٰ سندھ نے سیکریٹری رحیم شیخ کو ہدایت کی کہ محکمہ ٹرانسپورٹ کے ساتھ اس سلسلے میں ضروری رابطے یقینی بنائیں۔
علاوہ ازیں آبادی میں اضافے پر ٹاسک فورس کے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے وزیراعلیٰ سید مراد علی شاہ نے کہا ہے کہ 2023 کی ڈیجیٹل مردم شماری سے قومی آبادی میں2.55فیصد کی شرح سے اضافہ ریکارڈ کیا گیا جس کے بعد ملک کی کل آبادی 24 کروڑ 10 لاکھ جبکہ سندھ کی آبادی ساڑھے 5 کروڑ ہوگئی ہے،
آبادی میں اضافے کی دو بڑی وجوہات ہیں، ایک بلند شرح پیدائش اور دوسرا پاکستان کے مختلف علاقوں اور دوسرے ممالک سے نقل مکانی، اس صورتحال کے باعث صوبے کے وسائل پر دباؤ بڑھ گیا ہے، بے روزگاری، صحت، تعلیم، رہائش اور خوراک کی فراہمی جیسے بحرانوں نے سر اٹھایا ہے۔
اجلاس میں مشترکہ مفادات کونسل اور سپریم کورٹ کی ہدایات کی روشنی میں کیے گئے فیصلوں پر پیش رفت کا جائزہ لیا گیا، اجلاس وزیراعلیٰ ہاؤس میں ہوا جس میں صوبائی وزرا شرجیل انعام میمن، ڈاکٹر عذرہ پیچوہو، ناصر شاہ، سردار شاہ و دیگر نے شرکت کی۔
وزیراعلیٰ نے سندھ کی تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی کا مسئلہ حل کرنے کی اہمیت کا اجاگر کیا اور کہا کہ یہ ٹاسک فورس پہلے سے حاصل کی گئی کامیابیوں کے تسلسل کو برقرار رکھے گی، پالیسی سازی اور عملی اقدامات کے بارے میں بھی رہنمائی کرے گی۔
[ad_2]
Source link