[ad_1]
اسلام آباد:
قومی اسمبلی قائمہ کمیٹی کے ارکان نے بجلی چوری پر پولیس کو اختیارات دینے کی مخالفت کردی۔
بجلی چوری کے حوالے سے پولیس کو اختیارات دینے سے متعلق سیکرٹری پاور ڈویژن نے قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ کو بریفنگ میں بتایا کہ بجلی چوری روکنے کے حوالے سے ایکٹ کے ذریعے مزید اختیارات حاصل کر رہے ہیں، جس کیس میں قابل دست اندازی نہ ہو پولیس کاروائی نہیں کر سکتی، ہم نے جب مقدمات کا اندراج کیا تو سندھ حکومت سے اعتراض آیا۔
رکن قومی اسمبلی عبدالقادر پٹیل نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ آپ کو بجلی چوری کے حوالے سے سلیب بنانے کی ضرورت ہے، بڑے چور کو پکڑا نہیں جاتا چھوٹے لوگوں کو گرفتار کیا جارہا ہے، کئی لوگوں کو 3،4 لاکھ کا اچانک بل آ جاتا ہے اور کئی ماہ بعد پتہ چلتا ہے غلطی سے اتنا زیادہ بل آگیا، محکمہ جاتی غلطیوں پر بھی احتساب ہونا چاہیے۔
خواجہ اظہار الحسن نے کہا کہ سوئی سدرن گیس ایکٹ میں تمام چوریوں کے لیے الگ سلیب موجود ہیں، اگر بجلی کا بل میرے نام پر ہے چوری میرا کرایہ دار کر رہا ہے تو آپ کے پاس کیا پیمانہ ہے کہ چوری کس نے کی ہے؟۔ پہلے انڈسٹریل چوریاں پکڑی جائیں پھر کنزیومر پر آئیں، اس ترمیم کو ایم کیو ایم کی جانب سے سپورٹ نہیں ملے گی۔
مزید پڑھیں: بجلی چوری میں ملوث ڈسٹری بیوشن کمپنیوں کے سیکڑوں ملازمین کی برطرفی کا فیصلہ
آغا رفیع اللہ نے کہا کہ ایک محلے میں 150 گھر ہیں 30 چوری کرتے ہیں تو سزا سب کو ملتی ہے، جو بل دینے والے ہیں ان کو کم از کم سزا نہ دی جائے۔ سیکرٹری پاور نے کہا کہ اگر کسی نے بل نہیں دیا یا قسطیں کروالیں اس پر مقدمہ نہیں ہوتا، پرچہ صرف ٹیمپرنگ پر یا کنڈا پکڑنے پر ہوتا ہے، اگر کمیٹی کہتی ہے تو ہم گیس ایکٹ کو دیکھ سکتے ہیں۔
ڈاکٹر طارق فضل چوہدری نے کہا کہ ہمارے ڈسکوز میں بجلی چوری کے نقصانات خوفناک حد تک بڑھ چکے ہیں، کے الیکٹرک پرائیویٹ ہونے کی وجہ سے کافی حد تک کنٹرول کر چکی ہے، ڈسکوز کو پرائیویٹائز کرنے کی تجاویز بھی زیر غور ہیں، اس بل کو خدشات دور کرنے کے بعد ہی پاس ہونا چاہئے۔
زرتاج گل نے کہا کہ سیکرٹری پاور کہہ رہے ہیں ہمیں لائسنس دے دیں کہ پولیس کسی کو بھی بغیر وارنٹ گرفتار کرسکتی ہے، پاور سیکٹر کا تین کھرب ڈالر کا خسارہ ہے، ہم یہ خسارہ عوام سے پورا نہیں کرنے دیں گے، یہ خسارہ آئی پی پیز سے بھی پورا کریں۔
رکن کمیٹی نثار احمد نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ بجلی چوری پر جو ایف آئی آرز ہوتی ہیں بتائیں وہ ریکوری کیلئے ہوتی ہیں یا سزا کیلئے، بتائیں کتنے لوگوں کیخلاف ایف آئی آر پر سزا ہوئی ہے۔ جمشید دستی نے کہا کہ واپڈا والے ایف آئی آر کرواکر کچھ پیسے لے کر خاموش ہوجاتے ہیں
نبیل گبول نے کہا کہ میرے حلقے میں بجلی چوری پر ایک بلڈنگ پر چھاپہ مارا گیا مگر عمارت کے مالک کیخلاف ایف آئی آر نہیں ہوئی بلکہ عمارت کے چوکیدار پر ایف آئی آر ہوئی، اس چوکیدار کو جیل میں ڈالا گیا اور پھر وہ چوکیدار جیل میں مرگیا، اس مرنے والے بندے کے لواحقین کو معاوضہ دیا جائے۔
[ad_2]
Source link