33

روایتی چپل،ضرورت سے ثقافت تک

[ad_1]

جب سے انسان نے ہوش سنبھالا اورعقل کے پروں پراڑنا سیکھا ہے اس وقت سے لے کر آج کی اس ٹیکنالوجی اور تیزترین مشینی دور تک انسان کے سامنے یہ مسئلہ رہا ہے کہ اس کرہ ارض پر کس طرح آرام ، سکون، شائستگی، امن اور حفاظت کے ساتھ زندگی بسر کی جائے اسی فطری خواہش اور اہم ضرورت کے پیش نظر اس نے تاریخ کے ہر دور میں مختلف قسم کے اوزار اور آلات ایجاد کیے۔

 سر چھپانے کے لیے پہاڑوںمیں غار بنائے، تن ڈھانپنے کے لیے جانوروں کی کھال سے پوشاک بنائیں ، پتھر سے اپنے لیے کلہاڑی، چھڑی، درانتی، کدال بنائی، لکڑی سے برف پر چلنے والی کھڑاویں بنائیں، (ایک قسم کی چپل) تپتی زمین پر چلنے ،کام کاج کے دوران کانٹوں سے پاؤں کو بچانے کے لیے گھاس کانٹوں وغیرہ سے اپنے لیے چپل بنائے، یہ سب کچھ اس لیے تاکہ انسان اس زمین پر ایک بامعنی اچھے طریقے اور باوقارانداز میں زندگی کے شب و روز کو پورا کر سکے اور یہی کارنامے اگر ایک جانب ابتدائی انسان کی فنی او عقلی مہارت کو ظاہر کرتے ہیں، تو دوسری طرف ہمیں یہ معلومات بھی فراہم کرتے ہیں کہ ابتداء سے آج تک انسان نے اپنی حفاظت کے لیے اپنے بچاؤ کے لیے کیا کیا طریقے اورآلات واوزار ایجاد کیے ہیں، جسے آج ہم کلچر یا ثقافت کا نام دیتے ہیں۔

 چپل کی ایجاد بھی ابتدائی انسان کا عظیم کارنامہ ہے، جس کی پرانی شکل گھاس سے بنی ہوئی تھی ، جیسا کہ بدھ مت کے بانی گوتم بدھ اور اس مذہب کے دیگر بھکشووں کے جو قدیم مجسمے دریافت ہوئے ہیں ان مجسموں سے بھی یہ حقیقت عیاں ہوتی ہے کہ اس دور میں بھی چپل پہنے کا رواج تھا البتہ اس کی شکل و صورت موجودہ چپل سے کافی مختلف ہے ، کیوںکہ اس وقت کے چپل گھاس اور لکڑی سے بنائے جاتے تھے ، چپل کا موسمی حالات اور مروجہ فیشن سے گہرا تعلق ہے لہذا ہر موسم اور فیشن کے مطابق چپل بھی بدلتے رہتے ہیں ، لوہے، چمڑے کی ایجاد اور صنعتی انقلاب کے بعد چپل کی ہیئت ترکیبی میں بھی نت نئے اضافے ہوئے پختونوں میں پہلے پیزواندئی، پنڑے، چیترے، کنٹراوے، ربڑ کے چپل، چارسدوال چپل، پشاوری چپل، بنوں چپل، کوئٹہ چپل وغیرہ مشہور تھیں، بدھ ازم کا جو مجسمہ پشاور میوزیم میں موجود ہے اس مجسمے کے پاؤں میں بھی چپل ہے۔

 صنعتی انقلاب کے بعد چپل کی قسموں اور ڈیزائنوں میں نت نئی تبدیلیاں رونما ہوئیں، پہلے قسم کی چپل میں گھاس سے بنی ہوئی چپل، گندم کی دروزہ، بروزہ ایک قسم کا گھاس، چاول کی گھاس سے بھی چپل بنائے جاتے تھے، حجرہ میںایک قسم کاکھیل بھی ہوتا تھا،جیسے ڈیوہ مڑ(چراغ بجھ) کے دوران ایک دوسرے کواندھیرے میںچپل مارتے تھے جسے’’ سپلی مارہ‘‘ بھی کہتے تھے، یا جوآدمی نیند میں زیادہ خراٹے لیتا ہے۔

 اس بارے پختونوں میں یہ ایک روایتی ٹوٹکہ پایا جاتا ہے کہ اس کے چپل الٹا کر دیں تو پھرخراٹے لینا بند کر دے گا، اور جب کسی کے دونوں چپل ایک دوسرے کے اوپر پڑجائیں، یعنی ایک چپل دوسرے چپل کے اوپر سوار ہو جائے تو اس بارے میں یہاں کے لوگوں کی یہ بدشگونی اور توہم ہے کہ یہ آدمی اب زیادہ دیرتک اپنے گاؤں میں نہیں رہ سکتا بل کہ اسے پردیس جانا ہو گا یعنی گاؤں چھوڑنے کی ایک علامت یہ بھی ہے کہ اس کے چپل ایک دوسرے کے اوپر آگئے ہیں اس بارے میں پشتوکی مقبول عوامی صنف ٹپہ میں بھی اس کا ذکر موجود ہے،

سپلئی م یوپہ بل سورے دی

دجانان مینہ مے دملکہ ورکوینہ

(میرے چپل ایک دوسرے پرسوار ہیں، محبوب کی الفت مجھے پردیس بھجواناچاہتی ہے)

پہلے زمانے میں پنڑے بھی ہوا کرتے تھے، جس میں ایک خاص قسم کی کوئی چیزصرف اس غرض سے استعمال ہوتی تھی، تاکہ اس سے ایک خاص قسم کی آواز نکلے جسے پشتو میں’’ چیاںچغ‘‘ کہا جاتا ہے اور اس کا ذکر بھی ٹپے میں ملتا ہے

دنیمے شپے راتلل دے روک شہ

دچیاںچغ پنڑے دے کلی خبروینہ

(بھاڑ میں جائے تری آدھی رات کوآنا ،کہ تیرے پنڑوں کی چخ چخ سے پورے گاؤں کو خبرہو جاتی ہے) پشتو زبان کے معروف ترقی پسند شاعر،ادیب اور دانشورکاکاجی صنوبر حسین مومند کا اس حوالے سے یہ شعربہت مشہورہے۔

دمُلا پہ نصیحت بہ سوک غوگ کیگدی

ترمنبرہ چہ چغارستادہ پنڑوحٔی

(مُلا کی نصیحت پرکون کان دھرے گا کہ منبر تک آپ کے پنڑوں کی چہک جاتی ہے) رحمان بابا فرماتے ہیں ۔

دادعشق لارکہ ازغزنہ دہ ہرگور

دعاشق پہ خپوسپلئی دی ھم دہ اور

( ہرچند کہ عشق کا راستہ کانٹوں سے بھرا ہوا ہے

مگرعاشق کے پاؤں میں بھی آگ کے چپل ہیں)

پنڑوں کی طرح چپل کی ایک اور قسم کنڑواے بھی تھے جو موسم سرمامیں استعمال کیے جاتے تھے، جب برف پڑ جاتی تھی یا بارش کی وجہ سے ہرطرف کیچڑ ہوتا تو پھرکنڑاوے استعمال کیے جاتے تھے کنڑاوے لکڑی کے بنائے جاتے تھے اورکافی اونچے ہوتے تھے ، اس کا لطف کیسے ہوتا تھا اسکا ذکر بھی پشتو ٹپہ میں محفوظ ہے

جانان میں دنگ دے زہ مندرئی یم

د دیدن زائے لہ کنٹراوے پہ خپو کومہ

( میرا محبوب دراز قد ہے اور میں پست قد ہوں اس لئے ملاقات کے وقت میں کنٹراوے پہنتی ہوں) آج کل کنٹراوے صرف قدیم شاعری اور تذکروں میں باقی ہے یا اکادکا کہیں دکھائی دیتے ہیں ، چپل کی ایک اور شکل بروزے چپڑے ہوا کرتی تھی جو کہ ایک خاص قسم کی خوشبودار گھاس سے بنا کرتے تھے، یہ کسان پہنا کرتے تھے اور مختلف ڈیزائن میں تیار ہوتے تھے، چپل کے مختلف ڈیزائنوں میں تلا دار چپل ہوا کرتے تھے، یہ زیادہ تر نوجوان پہنا کرتے تھے اور دیہات میں اس کا کافی رواج ہوا کرتا تھا،نوجوان بڑے فخر اور بڑی شان سے تلا دار چپل پہن کر باہر نکلا کرتے تھے اور یہ خاص موقعوں پر پہنے جاتے تھے جیساکہ کہا گیا ہے کہ

پنڑے دے ڈکے تلا دارے

کہ تہ سردار یے زہ دے سہ پرواہ کوومہ

( کیا ہوا کہ تم نے اعلی قسم تلا دار چپل پہن رکھی ہے اگر تم سردار بھی ہو تو مجھے کیا فرق پڑتا ہے)

چپل کے علامتی استعمال کے بارے میں بھی یہاں عجیب عجیب طرح کی روایات اور شگون پائے جاتے ہیں، مثلاً یہاں ایک روایت یہ بھی رہی کہ کسی کی بے عزتی کرنے کے لیے اسے چپل سے پیٹا جاتا ہے، یا پھر ذلیل کرنے کے لیے اس کے گلے میں پرانے چپل پہنائے جاتے ہیں، اس طرح نظر بد سے بچاو کے لیے گھروں کی دہلیز پر پرانے چپل آویزاں کیے جاتے ہیں،جب کہ نئی گاڑیوں کے ساتھ بھی یہی سلوک کیا جاتا ہے جب کہ کسان تو ہری بھری فصل میں باقاعدہ لکڑی کے ڈنڈے کے اوپر پرانی چپل آویزاں کر دیتے ہیں، روایات اور ثقافت کے علمبردار خیبرپختون خوا کے چپل آج ہزاروں افراد کے کاروبار کا ذریعہ بھی بن چکا ہے، اور روزانہ لاکھوں کا کاروبار اسی چپل کی بدولت چل رہا ہے۔

ہم نے ایک دکان دار مصری خان سے پوچھا تو بتایا کہ ’’میں چالیس سال سے یہ کاروبار کر رہا ہوں، پشاور میں تو خود بھی چپل بنتے ہیں لیکن اس کے باوجود چارسدہ، مردان،کوئٹہ اور تخت بھائی سے چپل یہاں آتے ہیں، یہ مختلف ڈیزائنوں کے ہوتے ہیں، ایک زمانہ تھا جب چمڑا ڈھاکہ بنگلہ دیش سے بھی یہاں آتا تھا لیکن اب زیادہ چمڑا پنجاب سے جب کہ ہائی کرم کراچی سے آتا ہے، چمڑا مہنگا ہے پھر بھی ڈیڑھ فٹ چمڑے سے ایک جوڑا بن سکتا ہے آج چپل میں دو بڑے ڈیزائن ہیں یعنی گول اور ’’ٹی‘‘ شکل میں جسے پسندکیاجاتا ہے۔

 مہنگے چپل چارسدہ ہی میں ملتے ہیں، پندرہ سو روپے سے لے کر چار ہزار تک چپل مارکیٹ میں بک رہے ہیں‘‘ ایک اندازے کے مطابق عام دنوں میں چار سے دس جوڑے چپل بکتے ہیں لیکن عید کے موقع پر یہ تعداد پچاس اور سو تک پہنچتی ہے دیکھا جا رہا ہے کہ جہاں ہلکے پھلکے اور دیدہ زیب ڈیزائنوں کے چپل مارکیٹ میں جگہ پا رہے ہیں وہاں پرانے وقتوں کے ’’ڈبل گئیر‘‘ ڈیزائن کا رواج بھی دوبارہ شروع ہو رہا ہے، ہم نے ایک طالب علم عدنان سے اس بارے میں دریافت کیا جو چپل خریدتے ہوئے قیمت پر تکرار کر رہا تھا۔’’سردیوں میں عام طور پر میں بوٹ پہنتا ہوں لیکن گرمیوں میں زیادہ تر چپل ہی استعمال کرتا ہوں مجھے چپل اچھے لگتے ہیں کیوںکہ یہ ہماری روایت و ثقافت ہے۔

 قیمتوں پر تکرار کے حوالے سے اس نے کہا’’چوںکہ اب لوگ پھر چپل خریدنے لگے ہیں اس لیے ان لوگوں نے بھاؤ بڑھا دیے ہیں حالاںکہ اتنی قیمت پر تو میں چارسدہ جا کر اچھی خاصی چپل خرید سکتا ہوں ‘‘۔ اس وقت شہر میں سینکڑوں دکانیں کھل چکی ہیں اور نت نئے ڈیزائن میں چپل دستیاب ہیں، بہر حال سب سے بڑی مارکیٹ چارسدہ بازار اور پشاور کی جہان گیر پورہ اور نمک منڈی بازار میں ہی ہے اور بقول ایک دکان دار گل داد’ معاشی سکت رکھنے والے لوگ یہاں بھی’’ چارسدہ وال چپل ‘‘ خریدتے ہیں، شہر کے ایک معروف چپل میکر حاجی بصیر سے ہم نے دریافت کیا تو بتانے لگا،اب اس کا کام میں بھی مزہ نہیں رہا جگہ جگہ دکانیں کھل چکی ہیں، دونمبرچپل بھی مارکیٹ میں کھلے عام بک رہے ہیں۔

 ہمارے اپنے ان گنت مسائل ہیں ایک تو مہنگائی اوپر سے پروفیشنل ٹیکس، ویلتھ ٹیکس، دکان کا بڑھتا ہوا کرایہ، کاریگر کی مزدوری اور دیگر اخراجات پھر بھی گاہک قیمت ادا کرنے پرراضی نہیں ہوتا، ڈیزائن اورانداز بدلتے رہتے ہیں لیکن ضروریات زندگی توبہرحال اپنی جگہ موجود ہے بل کہ یوں کہا جائے کہ بڑھ گئی ہے تو بے جانہ ہو گا، آج طلب اور رسد کا دور انتہا پر ہے لیکن اس کے باوجود چپل کی ضرورت اور اہمیت کے ساتھ ساتھ اس کی مانگ آج بھی اپنی جگہ پرقائم و دائم ہے اور لوگ چپل پہنتے ہیں۔

 یہاں تک کہ پنجاب اورکراچی کے لوگ بھی چارسدوال اور پشاوری چپل کو پسندکرتے ہیں،اس سلسلے میں ملک کے سابق وزیراعظم عمران خان بھی پشاوری چپل کے انتہائی دل دادہ ہیں اور اکثر اوقات پشاوری چپل ہی پہنے ہوئے ہوتے ہیں، وہ بطور خاص پشاور کے معروف بازار نمک منڈی میں جہان گیر صافی نامی دکان دار سے منفرد اور من پسند چپل بنواتے ہیں جس سے نہ صرف جہان گیرصافی کے کاروبار کو چار چاند لگ گئے ہیں بل کہ عمران خان کے چاہنے والوں نے بھی اس قسم کی چپل پہننا شروع کر دیے ہیں یہاں تک کہ اس ڈیزائن کی چپل کو اب ’’عمران خان چپل‘‘ کا نام بھی دیا جانے لگا ہے۔

سیاست دانوں میں خدائی خدمت گار تحریک کے بانی خان عبدالغفار خان المعروف باچاخان پہلے سیاست دان تھے جنہوں نے ساری زندگی اپنے ہی چارسدوال چپل استعمال کیے، ان کی تقلید میں ان کے صاحب زادے اور ملک کے معروف قوم پرست سیاست دان خان عبدالولی خان نے بھی ہمیشہ اپنی چارسدوال چپل کو ترجیح دی۔ موجودہ سیاست دانوں میں جے یو آئی کے مرکزی امیر مولانا فضل الرحمان بھی اکثر اوقات ’’ڈبل ٹائر‘‘ والے پشاوری چپل پہنتے ہیں۔ مختصر یہ کہ چاہے پختوں کہاں سے کہاں تک پہنچے کراچی میں ہو، اسلام آباد یا ملک سے باہرکسی بھی دوسرے ملک میں ہو مگر اپنی روایتی چپل کو نہیں بھولتے۔ اس سلسلے میںجس وقت بالی وڈ کے کنگ خان شاہ رخ خان 1979ء میں اپنے والد میر تاج محمد خان کے ساتھ پشاور آئے تھے اور تقریباً ایک ماہ کا عرصہ گزار کر چلے گئے تھے تو انہوں نے سوات ، لواڑگی، لنڈی کوتل، چترال اور اندرون پشاور کے مختلف مقامات کی سیر کی تھی، باڑہ مارکیٹ سے شاپنگ بھی کی اور جاپان کے بنے ہوئے مختلف قسم کے کئی کھلونے بھی خریدے تھے اس کے ایک سال بعد پھر 1980ء کے اواخر میں اپنی بہن شہناز لالہ رخ کے ساتھ پشاور کی یاترا کی اور تقریباً 25 دن یہاں گزارے۔ روایتی کھانوں میں چپلی کباب ان کا من بھاتا کھاجا رہا۔ یہاں سے جاتے وقت وہ چارسدہ وال چپل، دیگر روایتی لباس مثلاً واسکٹ اور شلوار قمیص بھی ساتھ لے گئے تھے۔ اور فلم ’’دل والے دلہنیا لے جائیں گے‘‘ کے ایک گانے میں انہوں نے وہی چارسدہ وال چپل پہن رکھے تھے۔ اسی طرح ’’منہدی لگا کے رکھنا‘‘ اور ڈولی سجا کے رکھنا‘‘ والے گانے میں رباب کے ساتھ بھی انہوں نے چارسدہ وال چپل پہننے کی خواہش ظاہر کی تھی۔



[ad_2]

Source link

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں