[ad_1]
لاہور:
ٹرانس جینڈر جتنا مرضی اچھا بن جائیں،کسی بھی پوسٹ پرآجائے لوگوں کی نظرمیں وہ خواجہ سرا ہی رہتا ہے، سماجی رتبہ اور حیثیت بدلنے سے لوگوں اوررشتہ داروں کےرویوں میں تبدیلی آئی ہے ، نوجوان اورپڑھی لکھی خواجہ سرا اب مہک اورڈانسر کی بجائے معصومہ،زعنائیہ اورکشش جیسا بننا چاہتی ہیں۔ خواجہ سراؤں کا روپ دھارنا آسان ہے لیکن ان کا درد کوئی محسوس نہیں کرسکتا۔
یہ کہنا ہے خواجہ سرا کشش خان اور معصومہ علی کا جو لاہور پولیس میں بطور وکٹم سپورٹ آفیسر خدمات سرانجام دے رہی ہیں۔ کشش خدمت مرکز لبرٹی مارکیٹ جبکہ معصومہ علی تحفظ سنٹر داتادربار میں تعینات ہیں، ان سمیت 37 خواجہ سرا مختلف اضلاع میں قائم تحفظ مراکز میں بطور وکٹم سپورٹ آفیسرکام کررہی ہیں جن کا بنیادی مقصد خواجہ سراکمیونٹی ،خواتین اور دیگر کمیونٹی کو تھانوں میں رپورٹنگ کے لیے معاونت فراہم کرنا ہے۔
خواجہ سرا کشش خان گریجوایٹ ہیں ، ایکسپریس نیوز سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا ہمارے معاشرے میں خواجہ سراؤں کو کوئی نوکری نہیں دیتا، لیکن اب سوسائٹی ہمیں قبول کررہی ہے۔ اس مقام تک پہنچنے میں میرے والدین نےبہت سپورٹ کی ہے انہوں نےمجھے پڑھایا،لکھایا، رشتہ داروں اور برادری کی مخالفت کا سامنا کیا۔
رشتہ دار میرے والدین کو کہتے تھے یہ تم نے کیا پیداکرلیا، اسے گھرسے نکالو، یہ خاندان کی بے عزتی اوربدنامی ہے لیکن میرے والدین نے کسی کی پروا نہیں کی اور جب میں نے یہ یونیفارم پہنی تو میری والدہ کی آنکھوں میں آنسو آگئےتھے۔
کشش خان نےکہا وہ کرایہ کے مکان میں رہتی ہیں، ان کے ہمسائے ان سے بات کرنا اوربلانا پسند نہیں کرتے تھے اگران کا کوئی بچہ میرے پاس آجاتا تو وہ اسےڈانٹتے کہ تم کیوں اس کے پاس گئے وہ کھسرا ہے، یہ باتیں اور طعنے سن کر وہ افسردہ ہوجاتی تھیں۔ لیکن اب جب انہوں نے یہ یونیفارم پہنی ہے تو ان لوگوں کے رویے اوربرتاؤ میں تبدیلی آئی ہے۔ ان کی کمیونٹی انہیں اپنا محافظ سمجھتی ہے، ان کی عزت کرتی ہے۔
کشش خان نے بتایا کہ آئی جی پنجاب پولیس ڈاکٹرعثمان انور نے اب ٹرانس جینڈرز کے لیے ’تحفظ منزل‘ بنائی ہے جہاں اس وقت کئی خواجہ سراؤں کو پناہ دی گئی ہے، وہ ان خواجہ سراؤں کو جو بھیک مانگتے، جسم فروشی کرتے ہیں ان سے کہوں گی کہ وہ یہ کام کرنے کی بجائے تعلیم اورہنر سیکھیں تاکہ معاشرے کا باوقار شہری بن سکیں۔
خواجہ سرا معصومہ علی نےبتایا کہ وکٹم سپورٹ آفیسربھرتی ہونے سے قبل وہ ہیجڑا کلچر سے جڑی تھیں اور گروپ کے ساتھ ناچ گانے کی محفلوں میں اور ودھائی لینے جاتی تھیں۔ اس کے علاوہ وہ یواین ڈی پی، چغتائی لیب اور یونی لیور کے ساتھ بھی کام کرتی رہی ہیں جبکہ ٹرانس جینڈرکمیونٹی کے لئے بھی کام کررہی ہیں۔
معصومہ کا کہنا تھا کہ پولیس یونیفارم پہننے کےبعد نہ صرف خود ان کے اپنے اندر تبدیلی آئی ہے بلکہ لوگوں اور رشتہ داروں کے رویے بھی تبدیل ہوئے ہیں لیکن کچھ منفی سوچ رکھنے والے ایسے بھی ہیں جن کی نظرمیں ٹرانس جینڈر ایک ناچنے والی، بھکاری اور غلط کام کرنے والی فرد ہے۔ خواجہ سرا جتنا بھی اچھابن جائے وہ کسی بھی پوسٹ پر تعینات ہوجائے لوگوں کی نظر میں خواجہ سرا ہی رہتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ان کے وکٹم سپورٹ آفیسربننے سے ان کی کمیونٹی کو بڑی سپورٹ ملی ہے، نوجوان اور پڑھی لکھی خواجہ سرا اب مہک علی یا ڈانسر بننے کی بجائے زعنائیہ، معصومہ اورکشش جیسا افسربننا چاہتی ہیں۔ جب پولیس فورس کا حصہ بنی تو مردپولیس اہل کار شروع میں تو انہیں قبول ہی نہیں کرپارہے تھے، وہ کہتے تھے کہ بھلا کوئی کھسرا بھی پولیس والا بن سکتا ہے، لیکن پھر آئی جی پنجاپ اور اے ایس پی سیدہ شہربانو نقوی نے پولیس اہل کاروں کوسمجھایا کہ یہ بھی اب ان کا حصہ ہیں اب پولیس اہل کاروں کی رویوں میں مثبت تبدیلی آئی ہے۔
پولیس یونیفارم پہننے کےبعد کیا اب بھی فنکشن میں جاتی اورمیک اپ کرتی ہیں،اس سوال کےجواب میں معصومہ علی نے ہنستے ہوئے کہا کہ میری خوبصورتی دیکھ کر آپ کو لگتا ہے کہ مجھے میک اپ کی ضرورت ہوگی۔ انہوں نے کہا وہ اب بھی اپنے گرو، چیلوں کے ساتھ جڑی ہیں، ان کی تقریبات میں جاتی ہیں، سجتی سنورتی ہیں اور ہلکاپھلکا میک اپ بھی کرتی ہیں۔
[ad_2]
Source link