[ad_1]
اسلام ایک مکمل ضابطۂ حیات ہے۔ دین اسلام جہاں دیگر عبادات نماز، روزہ، زکوٰۃ اور حج وغیرہ کی تعلیمات فراہم کرتا ہے وہاں رزق حلال کے متعلق بھی راہ نمائی کرتا ہے۔ رزق کمانا ہر انسان کی بنیادی ضروریات میں شامل ہے، کوئی انسان ایسا نہیں جو اس سے بری ہو کیوں کہ اﷲ تعالیٰ نے ہر ایک انسان پر کسی نہ کسی سطح پہ کچھ نہ کچھ ذمے داری لگائی ہے۔
رزق کو حاصل کرنے کے لیے محنت، مزدوری کرنا بہت اہمیت کا حامل ہے مگر اس کے لیے جو بھی طریقہ اختیار کیا جائے وہ حلال ہو، کہیں ایسا نہ ہو کہ آپ کی سستی، غفلت اور لالچ کی وجہ سے آپ کے یا آپ کے گھر والوں کے پیٹ میں حرام لقمہ چلا جائے اور نحوست کا باعث بن جائے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ رزق کے حصول میں انسان کو اﷲ تعالیٰ پر توکل کرنا چاہیے کسی بھی طرح کا لالچ نہیں ہونا چاہیے، اس بات کا یقین کامل ہونا چاہیے کہ جس قدر میرے لیے رزق طے ہے وہ مجھے مل کر رہے گا، اﷲ نے رزق کا وعدہ کیا ہے وہ دے گا لہٰذا حرام مال حاصل کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔
ہر انسان کو عموماً اور ہر مسلمان کو خصوصاً یہ یقین رکھنا چاہیے کہ اﷲ ہی رزق دینے والا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ کا مفہوم ہے: ’’نہ میں ان سے رزق (یعنی کمائی) طلب کرتا ہوں اور نہ اس کا طلب گار ہوں کہ وہ مجھے (کھانا) کھلائیں، بے شک! اﷲ ہی ہر ایک کا روزی رساں ہے، بڑی قوت والا ہے، زبردست مضبوط ہے۔‘‘ (اسے کسی کی مدد و تعاون کی حاجت نہیں) (الذاریات)
اﷲ تعالیٰ کے فرمان کا مفہوم ہے: ’’زمین میں کوئی چلنے پھرنے والا (جان دار) نہیں ہے مگر (یہ کہ) اس کا رزق اﷲ (کے ذمہ کرم) پر ہے اور وہ اس کے ٹھہرنے کی جگہ کو اور اس کے امانت رکھے جانے کی جگہ کو جانتا ہے۔‘‘ (سورہ ہود)
اسی طرح اﷲ تعالیٰ کا فرمان ہے، مفہوم: ’’اﷲ ہی ہے جس نے تمہیں پیدا کیا، پھر اس نے تمہیں رزق بخشا، پھر تمہیں موت دیتا ہے، پھر تمہیں زندہ فرمائے گا، کیا تمہارے (خود ساختہ) شریکوں میں سے کوئی ایسا ہے جو ان (کاموں) میں سے کچھ بھی کر سکے، وہ (اﷲ) پاک ہے اور ان چیزوں سے برتر ہے جنہیں وہ (اس کا) شریک ٹھہراتے ہیں۔‘‘ (سورۂ روم)
اسلام کے بنیادی فرائض نماز، روزہ، حج اور زکوٰۃ کے بعد حلال مال کمانا فرض ہے اور یہ صرف اس شخص کے ذمے فرض ہے جو اپنے اور اپنے اہل و عیال کے ضروری خرچ کے لیے مال کا محتاج ہو۔ باقی وہ شخص جس کے پاس ضرورت کے بہ قدر مال موجود ہو مثلاً وہ صاحب جائیداد ہے یا کسی اور طرح سے اس کو مال میسر ہے تو اْس کے ذمہ یہ فرض نہیں رہتا، اِس لیے کہ اﷲ تعالیٰ نے مال کو ضرورتوں کے پورا کرنے کے لیے پیدا فرمایا ہے تاکہ بندہ اپنی ضروری حاجتیں پوری کرکے اﷲ تعالیٰ کی عبادت میں مشغول ہوجائے، کیوں کہ رہنے سہنے، کھانے پینے اور پہننے اوڑھنے کے بغیر صحیح طرح سے اﷲ تعالیٰ کی عبادت نہیں ہوسکتی، معلوم ہوا کہ اصل مقصود مال کمانا نہیں ہے بل کہ اس کے ذریعے اﷲ تعالیٰ کی عبادت میں یک سوئی حاصل کرنا ہے۔
دین اسلام نے حلال کمانے کو عبادات میں شامل فرمایا ہے اور اس کے بہت سے فضائل بیان فرمائے ہیں۔ حضرت انس بن مالکؓ سے منقول ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا، مفہوم : ’’حلال مال کا طلب کرنا ہر مسلمان پر واجب ہے۔‘‘ اسی طرح کی ایک روایت حضرت عبد اﷲ بن مسعودؓ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا، مفہوم: ’’حلال مال کا طلب کرنا (اصل) فرائض کے بعد فرض ہے۔‘‘(المعجم الکبیر للطبرانی)
حلال مال کمانے اور استعمال کرنے کی ایک بہت بڑی فضیلت یہ ہے کہ اگر کوئی انسان رزق حلال کمائے اور خود استعمال کرے یا کسی دوسرے کو دے بہ ہر صورت یہ اس کے لیے صدقہ ہوگا۔ حضرت ابو سعید خدریؓ حضورِ اقدس ﷺ سے نقل کرتے ہیں، آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا، مفہوم: ’’جس آدمی نے بھی حلال مال کما کر خود اپنے کھانے اور پہننے میں خرچ کیا یا اپنے علاوہ اﷲ تعالیٰ کی مخلوق میں سے کسی دوسرے کو کھلایا یا پہنایا تو یہ بھی اْس کے لیے صدقہ ہوگا۔‘‘ (صحیح ابن حبان) یہ بھی اﷲ تعالیٰ کا خاص کرم و فضل ہے کہ حلال مال کما کر خود پہ خرچ کریں گے تب بھی ہمیں صدقے کا ثواب ملے گا۔
ایک مرتبہ حضرت شداد بن اوس ؓکی بہن حضرت ام عبداﷲ نے حضور نبی کریم ﷺ کی خدمت میں افطاری کے وقت دودھ کا ایک پیالا بھیجا۔ اس دن آپ ﷺ روزے سے تھے، سخت گرمی کا موسم اور طویل دن تھا۔ آپ ﷺ نے دودھ قاصد کو دے کر واپس بھیج دیا کہ یہ پوچھ کر آؤ کہ یہ دودھ تمہارے پاس کہاں سے آیا ہے؟ حضرت ام عبداﷲ ؓنے بتایا کہ یہ دودھ میری بکری سے حاصل ہوا ہے۔ قاصد نے آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر بتایا۔ آپ ﷺ نے قاصد کو دوبارہ واپس بھیجا کہ یہ معلوم کرو کہ وہ بکری تجھے کہاں سے ملی ہے؟ حضرت ام عبداﷲ ؓ نے بتایا کہ وہ بکری میں نے خریدی ہے۔ تب آپ ﷺ نے وہ دودھ پی لیا۔ دوسرے دن حضرت ام عبداﷲ ؓ آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور عرض کیا: یارسول اﷲ ﷺ! میں نے سخت گرمی اور لمبے دن کی وجہ سے آپؐ کی خدمت میں دودھ بھیجا تھا مگر آپؐ نے واپس کر دیا؟ تو آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: رسولوں (علیہم السلام) کو یہی حکم ہے کہ سوائے پاکیزہ چیز کے کچھ نہ کھاؤ اور سوائے نیک عمل کے کچھ نہ کرو۔‘‘
(مستدرک حاکم، معجم کبیر طبرانی)
اسی طرح اﷲ تعالیٰ نے تمام انسانوں کو بھی خطاب فرمایا، مفہوم: ’’اے لوگو! تم زمین میں سے صرف وہ چیزیں کھاؤ جو حلال اور پاک ہوں اور شیطان کے نقشِ قدم پر نہ چلو، کیوں کہ وہ تمہارا کھلا دشمن ہے۔‘‘ (سورۂ بقرہ) پھر خاص طور پر اہل ایمان کو خطاب فرمایا، مفہوم: ’’اے ایمان والو! اگر تم اﷲ ہی کی عبادت کرنے والے ہو تو ہم نے تمہیں جو پاکیزہ چیزیں دی ہیں، انھی میں سے کھاؤ اور اﷲ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے رہو۔‘‘ (سورۂ بقرہ) اﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں، مفہوم: ’’اور اﷲ نے تم کو جو چیزیں دی ہیں، ان میں سے حلال، پاک چیزیں کھاؤ اور اﷲ سے ڈرو جس پر تم ایمان رکھتے ہو۔‘‘ (مائدہ)
ماقبل تمام آیات سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ پاکیزہ اور حلال رزق کھانے سے نیکیاں کرنے اور عمل صالح کو اپنی زندگی کا حصہ بنانے کی توفیق مل جاتی ہے۔ تاہم یہ کہا جا سکتا ہے کہ رزق حرام سے بچنے والے انسان کے لیے نیک اعمال کرنا آسان ہو جاتے ہیں۔ رزق حلال سے تقویٰ و طہارت کا حصول ہوتا ہے اور رزق حلال وہ عظیم دولت ہے کہ جس کو یہ حاصل ہو جائے اسے اور کچھ نہ بھی ملے تو کوئی پروا نہیں ہوتی۔ انسان رزق حلال کی برکت سے ہر طرح کے نقصان سے محفوظ ہو جاتا ہے۔ چناں چہ حضرت عبداﷲ بن عمرؓ سے روایت ہے، حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا، مفہوم: ’’اگر تیرے اندر یہ چار باتیں ہوں تو دنیا تجھ سے فوت بھی ہو جائے تو تجھے کوئی نقصان نہیں۔ ایک امانت کی حفاظت۔ دوسری بات میں سچائی۔ تیسری اچھے اخلاق اور چوتھی کھانے میں پاکیزگی۔‘‘ ’’یعنی رزق حلال‘‘ (مسند احمد، مستدرک حاکم) حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا، مفہوم : ’’کسی کے لیے بھی اس کے ہاتھ کی کمائی کے کھانے سے بہتر کوئی کھانا نہیں ہے اور یہ کہ اﷲ کے نبی (حضرت) داؤد (علیہ السلام) اپنے ہاتھ کی کمائی کھاتے تھے۔‘‘ (بخاری شریف)
اسلام میں جہاں محنت کی عظمت اور کسبِ حلال کی اہمیت بیان کی گئی ہے، وہاں حرام مال اور ناجائز آمدنی سے حاصل ہونے والے رزق اور مال و جائیداد کو انسان کی تباہی، اس کی نیکیوں کی بربادی اور اس کے تباہ کن اثرات کو بھی پوری وضاحت سے بیان کیا گیا ہے۔ حلال کمانے اور حلال کھانے میں مسلمان کے لیے دنیا و آخرت کی نجات ہے جب کہ حرام کا لقمہ دنیا و آخرت کی تباہی کا سبب بن جاتا ہے۔ حرام روزی کے بارے میں نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا، مفہوم: ’’ایک شخص طویل سفر کرتا ہے جس کے بال بکھرے ہوئے ہیں اور بدن گرد آلود ہے (یعنی اس کی حالت ایسی ہے کہ جو دعا کرے وہ قبول ہو) وہ آسمان کی طرف ہاتھ اٹھا کر یاربّ! یاربّ! کہتا ہے ( دعا کرتا ہے) مگر حالت یہ ہے کہ اس کا کھانا حرام ، پینا حرام ، لباس حرام اور غذا حرام پھر اس کی دعا کیوں کر مقبول ہو! (صحیح مسلم) لہٰذا اگر دعا کے قبول ہونے کی خواہش ہو تو ہم سب کو چاہیے کہ حلال کمائی کو اپنا مشغلہ بنائیں اور حرام کمائی سے اجتناب کریں۔
یاد رکھنا چاہیے! جو بندہ حرام مال حاصل کرتا ہے اگر اس میں سے صدقہ کرے تو قبول نہیں اور خرچ کرے تو اس کے لیے اس میں برکت نہیں اور اپنے بعد چھوڑ کر مر جائے تو جہنم میں جانے کا سامان ہے۔ اﷲ پاک برائی سے برائی کو نہیں مٹاتا ، ہاں نیکی سے برائی کو مٹاتا ہے، بے شک! خبیث (یعنی ناپاک) کو خبیث نہیں مٹاتا۔‘‘ (مسند احمد)
آج کل بلیک میلروں، رشوت، سود اور دیگر حرام خوروں نے محنت مزدوری کرکے رزق حلال کمانے والوں کو حقیر اور پست طبقہ بنا کر رکھ دیا ہے جب کہ حقیقت یہ ہے کہ معاملہ اس کے برعکس ہے لیکن حالات ایسے پیدا کر دیے گئے ہیں کہ کوئی صحیح بات سمجھنے کو تیار ہی نہیں ہے۔ ایک اسلامی معاشرے میں حرام خوروں کے لیے عزت و شرف کا کوئی مقام نہیں، چاہے وہ قارون کے خزانوں کے مالک ہوں۔ عزت و احترام کے مستحق صرف وہ لوگ ہیں جو محنت کرکے حلال روزی کھاتے ہیں، چاہے روکھی سوکھی ہی کیوں نہ ہو۔
اسی لیے فرمایا گیا کہ عافیت کے دس حصوں میں سے نو حصے معیشت طلب کرنے میں ہیں اور دسواں حصہ بقیہ تمام چیزوں کے لیے ہے۔ (کنز العمال) یعنی اگر انسان حلال اور حرام میں تمییز کرے اور صرف رزق حلال پر قناعت کرے تو اس کی تھوڑی عبادت بھی اجر و ثواب میں بہت زیادہ ہوتی ہے۔
جو جسم رزق حلال سے طاقت اور تقویت حاصل کرے گا اسی کی صحیح معنوں میں عبادت قبول ہوگی۔ حرام سے پلنے والے جسم کی کوئی عبادت قبول نہیں ہے۔ اور محنت اور مشقت سے رزق حاصل کرنے والے کو اﷲ کا محبوب قرار دیا گیا ہے۔ حضرت علیؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا، مفہوم: ’’اﷲ تعالیٰ پسند فرماتا ہے کہ وہ اپنے بندے کو طلب حلال میں تھکا ہوا دیکھے۔‘‘ (کنز العمال)
فرمان رسول کریم ﷺ ہے، مفہوم: ’’جو شخص تھکا ماندہ رات کو گھر واپس آئے اور اس کی تھکاوٹ کا سبب یہ ہو کہ دن بھر رزقِ حلال کی طلب میں کوشاں رہا ہے تو وہ جب سوتا ہے تو بخشا ہُوا ہوتا ہے اور صبح بیدار ہوتا ہے تو حق تعالیٰ کی خوش نُودی اسے حاصل ہوتی ہے۔‘‘ (کنز العمال)
ہمیں چاہیے کہ ہم بھی ہر طرح سے غذا میں، کاروبار میں، کمانے میں اور مال خرچ کرنے میں پوری احتیاط کریں۔ اگر یہ حلال ہوگا تو یقیناً روح کی روحانی کیفیات کو طاقت دے گا جو ہدایت کی طرف بڑھنے کی ایک صورت ہوگی، ہدایت کو قبول کرنے کی ایک صورت ہوگی۔ خدا نہ خواستہ اگر کوئی حرام کھائے گا تو اس کے اندر سے اچھی کیفیات مرتی چلی جائیں گی۔ اﷲ تعالیٰ ہم سب کو رزق حلال کمانے کی توفیق عطا فرمائے اور حرام کھانے کی نحوست سے محفوظ فرمائے۔ آمین
[ad_2]
Source link