[ad_1]
ہم نشین، نیک اور صالح ہو تو زندگی اچھائیوں اور نیکیوں سے بھرپور ہوتی ہے۔ اچھی بھلی زندگی اچھے بھلے لوگوں ہی سے عبارت ہوتی ہے۔ یہ ایک مسلّمہ حقیقت ہے۔
جن شخصیات سے قدرتی طور پر ہمارے دِل کے تار ملتے ہیں، اُن سے لامحالہ ہماری رُوح کا معنوی رشتہ بھی جُڑ جاتا ہے۔ دِل کرتا ہے کہ تاحیات اُن کا ساتھ نہ چُھوٹے۔ ہمارے ہم نشین اور ہم جلیس کون لوگ ہونے چاہییں اور ہم کن لوگوں کے ہم نشین اور ہم جلیس ہَوں، آج ہم اِس قابلِ قدر اور منفرد موضوع پر دینِ اسلام کی روشنی میں کچھ حاصلِ مطالعہ پیش کرتے ہیں۔
فارسی کے ایک شاعر نے اِسی ضمن میں اپنے کلام میں عمدہ نتائج دیے ہیں، جو دل چسپی سے خالی نہیں، ملاحظہ فرمائیں، مفہوم:
ایک روز حمام میں محبوب کے ہاتھ
مجھے کچھ مٹّی پہنچی
اُس مٹّی سے میں نے پوچھا: بتاؤ تم مُشک ہو یا عنبر
تمھاری دل آویز خوش بُو نے مجھے مست کردیا ہے
وہ مٹّی بولی میں تو محض حقیر سی مٹّی تھی
لیکن کچھ عرصہ میں نے پھول کی ہم نشینی میں بِتایا
یہ اُس ہم نشینی کے کمال کا اثر ہے
ورنہ میں تو فقط مٹّی ہی ہُوں
اُردُو کے ایک شاعر نے بھی کیا خوب کہا ہے، جس میں تنقید برائے تعمیر کا پہلو نمایاں ہے، ملاحظہ فرمائیں:
ہمیشہ اچھے ہی لوگوں سے دوستی رکھی
یہ جاننے کے لیے ہم خراب کتنے ہیں
حضرت علی مرتضیٰ کرم اﷲ وجہہٗ فرماتے ہیں: ’’خیر ( اچھائی) کا ہم نشین نعمت ہے اور شر (بُرائی) کا ہم نشین عذاب ہے۔‘‘ (غرر الحکم)
’’بُرے ساتھی کا ساتھ تمام بُرائیوں کا مجموعہ ہوتا ہے۔‘‘ (غررالحکم)
ہم نشین کی صفات کے ضمن میں دِینی منابع سے یہ راہ نمائی ملتی ہے کہ حواریوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے پوچھا: ’’یارُوح اﷲ! اِس وقت کن لوگوں کے ساتھ بیٹھیں؟‘‘ آپؑ نے فرمایا: ’’جن کی زِیارت تمھیں یادِ خدا دِلائے، جن کی گفت گُو تمہارے علم میں اضافہ کرے اور جن کا علم تمھیں آخرت کی طرف رغبت دِلائے۔‘‘
حضرت امام زین العابدینؓ کی دُعا میں ہے:
’’یا شاید تُونے مجھے علماء کی مجالس سے غائب پایا، اسی لیے تُونے مجھے چھوڑ دیا۔ یا شاید تُونے مجھے غافلین (کی صف) میں دیکھا، اِس لیے تُونے مجھے اپنی رحمت سے مایوس کردیا۔ یا شاید تُونے مجھے نکمّے اور بے کار لوگوں سے اُلفت کرتے ہوئے دیکھ لیا، اسی لیے مجھے ان کے درمیان رہنے دیا۔‘‘ (بحار الانوار)
عزیزانِ گرامی! یہاں یہ نکتہ بھی قابلِ غور ہے کہ حضرت لقمان نے اپنے بیٹے سے فرمایا: ’’اے میرے پیارے بیٹے! علماء کے ساتھ اپنا اُٹھنا بیٹھنا رکھو اور اُن کے سامنے اپنے گھٹنے ٹیک دو، کیوں کہ اﷲ تعالیٰ دِلوں کو حکمت کے نور سے اُسی طرح زندہ کرتا ہے جس طرح (مردہ) زمینوں کو موسلا دھار بارش سے زندہ فرماتا ہے۔‘‘ (بحار الانوار)
امیر المومنین حضرت علی مرتضیٰ کرم اﷲ وجہہٗ یوں ہدایت اور راہ نمائی فرماتے ہیں: ’’بردبار لوگوں سے اپنی ہم نشینی رکھو۔ اِس طرح تمہارا حلم بڑھے گا۔‘‘ (غرر الحکم)
’’علماء کے ساتھ ہم نشینی رکھو کہ سعادت مند بنو گے۔‘‘ (غرر الحکم)
’’علماء کی ہم نشینی اختیار کرو کہ تمہارا علم بڑھے گا، تمہارا ادب سنورے گا اور تمہارا نفس پاکیزہ ہوگا۔‘‘ (غرر الحکم)
’’علماء کی ہم نشینی اختیار کرو، کیوں کہ اِس طرح تمہاری عقل کامل ہوگی، تمہارا نفس شریف بنے گا اور تمہاری جہالت دُور ہوگی۔‘‘ (غرر الحکم)
شہِ لولاک، سرورِ دو عالم، رسالت مآب حضرت احمد مجتبیٰ محمد مصطفی صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم ارشاد فرماتے ہیں، مفہوم:
’’نیک لوگوں کی صحبت اختیار کرو، کیوں کہ اِس طرح تم نے اچھے کام کیے تو وہ تمہاری تعریف کریں گے اور اگر غلطی کے مرتکب ہوئے تو تمھیں اپنے سے دُور نہیں بھگائیں گے۔‘‘ (بل کہ تمھاری اصلاح کریں گے) (تنبیہہ الخواطر)
’’علماء سے سوال کرو، حکماء سے خطاب کرو اور فقراء کے ساتھ بیٹھا کرو۔‘‘ (بحار)
’’اگر تم کسی کی ہم نشینی اختیار کرنا چاہتے ہو تو ایسے علماء کی ہم نشینی اختیار کرو جو تمھیں پانچ چیزوں سے پانچ چیزوں کی طرف بُلائیں:
’’شک سے یقین کی طرف۔ رِیا سے اِخلاص کی طرف۔ رغبت سے خوف کی طرف۔تکبّر سے تواضع کی طرف۔ کھوٹ سے خلوصِ نیت کی طرف۔‘‘ (بحار)
اﷲ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے جو گفتگو کی، اُس میں یہ بھی فرمایا: ’’اے موسیٰ ؑ! اپنا کلام اُن لوگوں کے لیے پاکیزہ کرو جو گناہوں کو ترک کرچکے ہیں، اُن کی ہم نشینی اختیار کرو، انھیں اپنے غیب (غیر حاضری) کے لیے اپنا بھائی بناؤ اور ان کی دِلی قدر کرو کہ وہ تمہاری دِلی قدر کریں گے۔‘‘ (بحار)
جناب لقمان نے اپنے فرزند سے فرمایا: ’’اے میرے پیارے بیٹے! جب تم کسی قوم کی محفل میں پہنچو تو اُن پر سلام کہو، پھر اُن لوگوں کے ساتھ ایک طرف ہو کر بیٹھ جاؤ۔ جب تک وہ کوئی بات نہ کریں اُس وقت تک تم بھی کلام نہ کرو اور اگر تم انھیں دیکھو کہ ذکرِ خدا پر مشتمل گفت گو کر رہے ہیں تو تم بھی اُن کے ساتھ شامل ہوجاؤ، یا وہاں سے منھ موڑ کر دوسرے لوگوں کی طرف سے چلے جاؤ۔‘‘ (تنبیہہ الخواطر)
’’مسکینوں جیسی کیفیت بناؤ اور مسکینوں سے دوستی رکھو۔ ان کے ساتھ رہن سہن رکھو اور ان کی امداد کرو۔ مال داروں کی ہم نشینی سے کنارہ کشی کرو۔ ان کے حال پر رحم کرو اور ان کے مال سے دُور رہو۔‘‘ (تنبیہہ الخواطر)
بابِ مدینۃ العلم حضرت علی مرتضیٰ کرم اﷲ وجہہٗ فرماتے ہیں:
’’حکماء کی ہم نشینی عقلوں کی حیات اور نفسوں کی شِفا ہے۔‘‘
’’فقراء کے ساتھ بیٹھا کرو کہ اِس طرح سے تمہارا شکر بڑھے گا۔‘‘
’’حکماء کی ہم نشینی اختیار کرو کہ اِس سے تمھاری عقل کامل ہوگی، تمھارے نفس کو شرف حاصل ہوگا اور جہالت تم سے دُور ہوگی۔‘‘ (غر رالحکم)
’’صاحبانِ تقویٰ و حکمت کے ساتھ ہم نشینی رکھو اور ان سے (علمی) گفت گُو جاری رکھو، کیوں کہ اگر تم جاہل ہوگے تو وہ تمھیں علم سِکھائیں گے اور اگر عالم ہوگے تو وہ تمھارے علم میں اضافہ کریں گے۔‘‘ (غررالحکم)
ہم نشین، ہم جلیس کا حق کیا ہے؟
اِس بارے میں یہ دِینی شعور اور روِش ملتی ہے۔ آیۃ اﷲ علّامہ محمدی ری شہری ’’میزان الحکمت‘‘ میں تحریر کرتے ہیں: ’’تمھارے ہم نشین کا تم پر یہ حق ہے کہ تم اُس کے لیے گوشۂ دل نرم رکھو، گفت گُو میں اُس کے ساتھ انصاف سے کام لو، اُس کی اجازت کے بغیر اپنی جگہ سے نہ اُٹھو، جو تمھارے پاس آبیٹھے وہ تمھاری اجازت کے بغیر اُٹھ سکتا ہے۔ اُس کی لغزشوں کو بھول جاؤ، اُس کی خوبیوں کو یاد رکھو اور اُسے اچھائی کے علاوہ کوئی اور بات نہ سُناؤ۔‘‘
عزیزو! کن لوگوں کے ساتھ نہیں بیٹھنا چاہیے۔۔۔ ؟
اِس کے متعلق سرکارِ ختمی مرتبت رسالت مآب حضرت محمد مصطفی صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم کی حدیثِ مُبارکہ راہ نمائی فراہم کررہی ہے۔ آئیے استفادہ کرتے ہیں، مفہوم: ’’تین قسم کے لوگوں کی ہم نشینی دل کو مردہ کردیتی ہے۔ خسیس اور پست لوگ۔ اُمراء اور عورتوں کے ساتھ باتیں کرنا۔‘‘ (بحار)
حضرت مولا علی مرتضیٰ کرم اﷲ وجہہٗ فرماتے ہیں: ’’ہوس پرستوں کی ہم نشینی ایمان کو بھلا دیتی ہے اور شیطان کو حاضر کردیتی ہے۔‘‘ (شرحِ نہج البلاغہ)
’’جاہل کے ساتھ ہم نشینی رکھنے والا معقول انسان نہیں ہوتا۔ جو شخص جاہل کا ہم نشین بنے گا اُسے ہر قسم کی قیل و قال کے لیے تیار رہنا چاہیے۔‘‘ (بحار)
’’شریر لوگوں کی مجالسں بلا کی مصیبتوں سے محفوظ نہیں ہوتیں۔‘‘ (غرر الحکم)
حضرت رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم نے ایسی گفت گو کرنے سے منع فرمایا ہے جو غیرِ خدا کی طرف دعوت دے۔
حضرت امام جعفر صادقؓ کا ارشادِ گرامی ہے: ’’اہلِ بدعت کے ساتھی بننے سے بچو اور اِن کی ہم نشینی سے بھی پرہیز کرو، ورنہ تم بھی لوگوں کے نزدیک اِن ہی میں سے ایک سمجھے جاؤ گے۔‘‘
’’بادشاہوں اور دُنیا کے فرزندوں (دُنیا داروں) کی ہم نشینی سے بچو، کیوں کہ اِس سے تمہارا دِین تم سے رُخصت ہوجائے گا اور نفاق تمہارا پیچھا کرے گا۔ نفاق ایسی سُست رفتار بیماری ہے جس کا کوئی علاج نہیں بل کہ یہ سنگ دلی کا موجب ہوتی ہے اور خشوع کو سلب کرلیتی ہے۔ انسانوں کی شکل و صورت کے اور درمیانی قسم کے لوگوں کے ساتھ رہو، کیوں کہ تمھیں ان کے پاس جواہر کی کانیں ملیں گی۔‘‘ (مستدرک الوسائل)
حضرت علی مرتضیٰ کرم اﷲ وجہہٗ ارشاد فرماتے ہیں: ’’شریروں سے کنارہ کشی کرو اور شریفوں کے ساتھ ہم نشینی رکھو۔‘‘ (غرر الحکم)
’’دُنیا داروں کے ساتھ رہن سہن دِین کو داغ دار بنا دیتا ہے اور یقین کو کم زور کردیتا ہے۔‘‘ (غرر الحکم)
[ad_2]
Source link