45

فلسطینی ریاست کا قیام اور اقوام متحدہ

[ad_1]

اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں فلسطینی ریاست کے قیام کی قرارداد بھاری اکثریت سے منظور کی گئی ہے، قرارداد کے حق میں 157رکن ممالک نے ووٹ دیا، صرف اسرائیل نے مخالفت کی جب کہ سات ارکان غیر حاضر رہے ۔

اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی میں منظور کی گئی قرارداد میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ اسرائیل فلسطینی علاقوں سے دستبردار ہوجائے۔ جنرل اسمبلی نے فلسطین کے دو ریاستی حل پر زور دیتے ہوئے کہا کہ دونوں ریاستوں کو 1967 سے پہلے کی بنیاد پر تسلیم شدہ سرحدوں کے اندر ایک دوسرے کے ساتھ امن اور سلامتی کے ساتھ رہنا چاہیے۔ اسرائیل نے غزہ پر 1967 کی جنگ کے بعد قبضہ کیا تھا اور 2005 تک وہاں اپنی فوجیں تعینات اور یہودی بستیاں قائم کرتا رہا۔

 اس قرارداد سے ایک بار پھر واضح ہوتا ہے کہ فلسطین کے مسئلے پر دنیا کے بہت کم ممالک امریکا کا ساتھ دینے پر تیار ہیں۔جنرل اسمبلی میں رکن ممالک کی بھاری تعداد نے امریکی موقف مسترد کرتے ہوئے بیت المقدس کی سابقہ حیثیت برقرار رکھنے کی سفارش کی ہے۔ اقوام متحدہ میں امریکا کو اس دفعہ جس تنہائی کا سامنا کرنا پڑا ہے، وہ اس سے پہلے کبھی دیکھنے میں نہیں آئی۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ امریکا اقتصادی اور عسکری لحاظ سے دنیا کا سب سے طاقت ور ملک ہونے کے باوجود بین الاقوامی سطح پر تنہائی کا شکار ہے اور اس کی سب سے بڑی وجہ امریکا کی اسرائیل نواز پالیسیاں ہیں۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ وہی اقوام متحدہ کا ادارہ ہے جس کے ارکان کو ماضی میں امریکا مختلف ہتھکنڈوں سے ڈرا دھمکا کر یا لالچ دے کر اپنے حق میں فیصلے کروانے میں کامیاب ہوتا تھا۔ اس کی سب سے نمایاں مثال خود فلسطین کی تقسیم اور اسرائیل کے قیام کے حق میں نومبر 1947 میں دو تہائی اکثریت سے قرارداد کی منظوری ہے۔

امریکا کی اس سفارتی کامیابی کا پس منظر یہ ہے کہ جب دوسری جنگ عظیم کے بعد عربوں اور یہودیوں میں طویل مذاکرات کے باوجود مسئلہ فلسطین پر فریقین میں کوئی سمجھوتہ نہ ہو سکا، تو برطانیہ جو پہلی جنگ عظیم کے اختتام سے لیگ آف نیشنز کے مینڈیٹ کے تحت فلسطین کے انتظام و انصرام کا مالک چلا آ رہا تھا،نے یہ مسئلہ اقوام متحدہ میں پیش کر دیا۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے اپنے آپ کو ایڈہاک کمیٹی میں تبدیل کرکے اس مسئلے پر بحث و تمحیص کا آغاز کر دیا۔ اس میں امریکا اور مغربی ممالک، جن میں روس‘ فرانس اور برطانیہ بھی شامل تھے‘ فلسطین کو عربوں اور یہودیوں میں تقسیم کرکے دو ریاستوں کے قیام کے حق میں تھے، جب کہ عرب اور مسلم رکن ممالک اس تجویز کی مخالفت کر رہے تھے۔

اس وقت اقوام متحدہ کے رکن ممالک کی تعداد محدود تھی اور ان میں سے بھی اکثریت کا تعلق یورپ اور لاطینی امریکا سے تھا، لیکن جنرل اسمبلی میں فلسطین کی تقسیم کے لیے ایک ایسی قرارداد کی منظوری درکار تھی‘ جسے کم از کم دو تہائی اکثریت حاصل ہو۔ امریکا نے اقوام متحدہ میں اپنے اثر و رسوخ کو کام میں لا کر رکن ممالک کی اکثریت کو تو اپنے حق میں کر لیا تھا‘ مگر دو تہائی اکثریت کے حصول کی خاطر امریکا نے اس وقت سیاسی دباؤ‘ دھونس اور لالچ پر مشتمل جو ہتھکنڈے استعمال کیے‘ وہ اقوام متحدہ کے ریکارڈ کے حصے کے طور پر اب تک محفوظ ہیں۔ ایسے ہی ہتھکنڈوں سے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں اپنے حق میں ایک قرارداد منظور کروانے کی مثال 1951میں کوریا کے مسئلے پر تھی۔

اسے یونائٹنگ فار پیس (Uniting For Peace) ریزولیوشن کہا جاتا ہے۔ اس قرارداد کی بنیاد پر امریکا نے اپنے اتحادیوں کے ساتھ مل کر شمالی کوریا پر حملہ کیا تھا،لیکن 1960 کی دہائی اور اس کے بعد جب افریقہ اور ایشیا کی محکوم قوموں کی ایک بڑی تعداد نوآبادیاتی تسلط سے آزاد ہو کر‘ اقوام متحدہ کی رکن بنیں تو اس ادارے کا نقشہ ہی تبدیل ہو گیا۔ اب جنرل اسمبلی میں اکثریت ان ممالک کی تھی جن کا تعلق ایشیا اور افریقہ سے تھا۔ اقوام متحدہ کی ہیئت میں اس بنیادی اور اہم تبدیلی کا عکس جنرل اسمبلی میں ووٹنگ کے بدلے ہوئے ڈھنگ میں بھی نظر آنا شروع ہو گیا‘ کیونکہ اقوام متحدہ کے ایجنڈے پر زیادہ تر ایسے مسائل تھے۔

 جن کا تعلق ایشیائی اور افریقی عوام کی آزادی اور خود مختاری سے تھا۔ ان میں فلسطین کا مسئلہ بھی شامل تھا‘ جس پر اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے ہر سالانہ اجلاس میں ایسی قراردادیں منظور ہونے لگیں‘ جو فلسطین کے عوام کے حق میں اور اسرائیل اور امریکا کے موقف کے خلاف ہوتیں۔ انھی قراردادوں میں سے ایک قرارداد کے ذریعے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے یاسر عرفات کی تنظیم برائے آزادی فلسطین (پی ایل او) کو اسمبلی میں مبصر کا درجہ دے دیا تھا اور اسرائیل کی اجلاس میں شرکت معطل کر دی تھی۔

امریکا نے اس رجحان کو ”اکثریت کی آمریت‘‘ (Tyranny Of Majority) قرار دے کر سخت ردعمل کا اظہار کیا تھا‘ اقوام متحدہ کے سالانہ بجٹ میں اپنے حصے کی رقم کم کر دی تھی اور اسرائیل کی حمایت میں اقوام متحدہ سے الگ ہونے کی دھمکی بھی دی تھی۔ لیکن جنرل اسمبلی‘ جس کے رکن ممالک کی تعداد میں ہر سال اضافہ ہو رہا تھا‘ میں یہ رجحان جاری رہا۔ اب صورتحال یہ ہے کہ اقوام متحدہ کی سیکیورٹی کونسل میں تو امریکا ہر اس قرارداد کو بلاک کر سکتا ہے،جسے وہ اپنی پالیسی اور قومی مفاد کے خلاف سمجھتا ہو‘ لیکن جنرل اسمبلی میں بے بس ہے‘ کیونکہ یہاں سیکیورٹی کونسل کے برعکس اس کے پاس ویٹو پاور نہیں ہے اور فیصلے سادہ اکثریت سے ہوتے ہیں جو کہ اکثر امریکا کی خواہش کے خلاف ہوتے ہیں۔

 غزہ میں رہنے والوں فلسطینیوں نے اپنی ایک سال سے جاری حالیہ جدوجہد اور چوالیس ہزار جانوں کی قربانی دے کر فلسطین کے مسئلے کو دنیا بھر میں اجاگر کیا اور اس میں نئی جان ڈالی ہے۔ دوسری جانب فلسطین اور اسرائیل کے بارے میں پاکستان کی پالیسی کو ایک ایسی مستحکم اور ٹھوس بنیاد فراہم کی کہ جس کی اہمیت سے پاکستان کی کوئی حکومت انحراف نہیں کر سکتی۔

اسرائیلی فوج فلسطینیوں پر جو مظالم ڈھا رہی ہے انھیں دیکھ اور سن کر رونگٹے کھڑے ہوجاتے اور دل لرز جاتے ہیں۔ اہل فلسطین کے ساتھ اظہار یکجہتی کا دن منانے کا آغاز77 19 میں ہوا تھا گویا دنیا نصف صدی سے اہل فلسطین کے ساتھ اظہار یکجہتی کا دن مناتی چلی آرہی ہے۔نصف صدی کا یہ قصہ ہے پل دو پل کی بات نہیں۔ اس کے باوجود ہونے والے مظالم کم ہونے کی بجائے بڑھتے ہی چلے جارہے ہیں، ان کے مسائل سلجھنے کی بجائے الجھتے ہی چلے جارہے ہیں اور مسئلہ فلسطین سنگین تر ہوتا چلا جارہا ہے۔

 1917میں جب برطانیہ نے بدنامِ زمانہ بالفور ڈیکلریشن جاری کرکے فلسطین میں ایک یہودی ریاست قائم کرنے کا اعلان کیا تھا تو اس کی مخالفت اور مذمت میں ہندوستان کے مسلمان بھی عالمِ اسلام‘ خصوصاً عربوں کے شانہ بشانہ کھڑے تھے۔ 1948 میں جب عربوں اور اسرائیل کے مابین پہلی جنگ چھڑی تو لیاقت علی خان پاکستان کے وزیرِ اعظم تھے۔ انھوں نے پاکستان کے طول و عرض میں فلسطینیوں کے حق میں نکالے گئے جلوسوں کے شرکا کے جذبات کی ترجمانی کرتے ہوئے پاکستان کی طرف سے عربوں کی مکمل حمایت کا اعلان کیا تھا۔

وزیر اعظم لیاقت علی خان نے مسئلہ فلسطین کے بارے میں ریاستِ پاکستان کی ایک ایسی پالیسی متعین کی‘ جو ایک مستقل حیثیت اختیار کر چکی ہے‘ اور اگر بعد میں آنے والی حکومتوں میں سے کسی نے اس سے روگردانی کی کوشش کی یا اس کے برعکس موقف اختیار کیا تو اسے زبردست عوامی دباؤ کے تحت اپنا وہ موقف تبدیل کرنا پڑا۔ مثلاً 1956 میں سویز بحران کے موقع پر جب اس وقت کے وزیر اعظم حسین شہید سہروردی نے حملہ آور طاقتوں یعنی برطانیہ‘ فرانس اور اسرائیل کی حمایت کی تو پاکستان میں عوام کے زبردست احتجاج کے پیشِ نظر انھیں اپنی مغرب نواز پالیسی ترک کرنا پڑی تھی۔اسی طرح پاکستان کی معاہدہ بغداد‘ جو بعد میں سینٹو کے نام سے مشہور ہوا‘ میں شمولیت کو ملک میں کبھی عوامی تائید حاصل نہ ہو سکی‘ کیونکہ یہ امریکا کے دباؤ کے تحت عرب قوم پرستی کے خلاف تشکیل دیا گیا تھا۔

1967 کی عرب اسرائیل جنگ میں پاکستان نے اسرائیل کے خلاف لڑنے والی شامی فضائیہ کی مدد کی تھی‘ اور کہا جاتا ہے کہ اس جنگ میں پاکستان کے پائلٹ نے ایک اسرائیلی طیارہ مار گرایا تھا۔ 1973 کی جنگ میں تو پاکستان نے کھل کر عربوں کا ساتھ دیا تھا اور اس کا سب سے نمایاں مظاہرہ فروری 1974 میں لاہور میں اسلامی سربراہی کانفرنس کا انعقاد تھا۔

یہ کانفرنس وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کے ایما پر بلائی گئی تھی‘ اور اس میں فلسطین کی تنظیم برائے آزادی (پی ایل او) کے سربراہ یاسر عرفات نے بھی شرکت کی تھی۔ کانفرنس میں جو قراردادیں منظور کی گئیں‘ ان میں بیشتر کا تعلق مسئلہ فلسطین سے تھا۔ مسئلہ فلسطین پر اور اسرائیل کے بارے میں پاکستانی حکومت کی پالیسی اور عوام کے جذبات اب بھی وہی ہیں‘ جن کا اظہار مسلمانانِ ہند نے قیامِ پاکستان سے پہلے ہی کر دیا تھا۔ اس کے تحت پاکستانی عوام اسرائیل کو ایک جارح اور غیر قانونی ریاست سمجھتے ہیں‘ جس نے فلسطینیوں کے علاقوں پر غاصبانہ قبضہ کر رکھا ہے۔



[ad_2]

Source link

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں