33

مذاکرات کے محدود راستے اور نئے امکانات

[ad_1]

بنیادی نوعیت کا سوال یہ ہے کہ کیا پی ٹی آئی ، اسٹیبلیشمنٹ اور حکومتی اتحادی سیاسی قیادت کے درمیان بداعتمادی کا ماحول ختم ہوسکے گا ؟سیاسی مفاہمت اور بات چیت کا دروازہ کون کھولے گا؟۔ پی ٹی آئی کی فائنل کال کی ناکامی کے بعد مفاہمت کا راستہ باقی بچتا ہے۔

محاذ آرائی ، ٹکراؤ اور بداعتمادی کاماحول بدستور گہرا ہے ۔ جو سیاسی ماحول ہے، اس نے سب کو الگ کردیا ہے ۔بظاہر حکومت اس مطمئن ہے کہ پی ٹی آئی کی فائنل کال کی ناکامی کے بعد اس کی سیاسی طاقت کمزور ہوئی ہے ۔لیکن حکومت کو اس کے علاوہ کئی اور مسائل کا سامنا ہے ۔کچھ سیاسی پنڈتوں کے بقول پی ٹی آئی اپنے داخلی معاملات میں اس قدر الجھ گئی ہے کہ اب وہ اتنی مضبوط نہیں کہ حکومت مخالف کوئی بڑا دباؤ پیدا کرسکے۔ بانی پی ٹی آئی کی حکمت عملی سیاسی بڑھاکر مذاکرات کا راستہ اختیار کرنا تھا ۔

وہ سیاسی قیادت کے بجائے پس پردہ قوتوں پر دباو ڈال کر مذاکرات کرنا چاہتے ہیں ۔یہ حکمت عملی پی ٹی آئی میں داخلی اور کچھ پارٹی سے باہر بیٹھے غیر سیاسی لوگوں کی مدد سے اختیار کی گئی اور یہ حکمت عملی آج بھی کسی نہ کسی شکل میں موجود ہے۔مگر اس حکمت عملی کے نتائج سے فی الحال پی ٹی آئی کو کوئی بڑا سیاسی ریلیف نہیں مل سکا اور پی ٹی آئی بدستور مقدمات کا شکار ہے ۔

پی ٹی آئی کا ہمیشہ سے یہ موقف رہا کہ اول ہمیں حکومت کا مینڈیٹ ہی تسلیم نہیں اور اس حکومت کے پاس ہمارے مطالبات کی منظوری کا کوئی اختیار نہیں ۔دوئم، اس حکومت سے مذاکرات کا مقصد اس حکومت کی سیاسی سمیت قانونی ساکھ کو قبول کرنا ہے جو ہمیں قبول نہیں ۔اس میں کوئی شک نہیں کہ اتحادی حکومت نے پی ٹی آئی کو کئی بار مذاکرات کی پیش کش کی تھی ۔مگر پی ٹی آئی نے اسے کوئی پزیرائی نہیں دی۔ ادھر حکومت کو لگتا ہے کہ اگر پی ٹی آئی اسٹیبلیشمنٹ کے درمیان مفاہمت ہوگی تو اس کا نقصان حکومت کو ہوگا اور پی ٹی آئی کے لیے بند سیاسی راستے دوبارہ کھل سکتے ہیں۔

اسی بنیاد پر حکومتی حکمت عملی میں پی ٹی آئی سے مذاکرات اور مفاہمت پارلیمانی جمہوری اصولوں کے مطابق ہونے چاہیں ۔ پی ٹی آئی اور اسٹیبلیشمنٹ کے درمیان بداعتمادی کا ماحول قائم رہے تو حکومت کو اس کا فائدہ ہی ہے۔

پی ٹی آئی کی سیاسی حکمت عملی میں کافی تضاد دیکھنے کو ملتا ہے۔حالیہ دنوں میں پارٹی کا داخلی بحران اس قدر بڑھ گیا ہے کہ اس کا اثر ہمیں ان کی داخلی سیاست کی کمزوریوں کی صورت میں دیکھنے کو ملتا ہے۔لیکن پی ٹی آئی کی تمام تر کمزوریوں کے باوجود ان کی مزاحمت کی سیاست کا کارڈ بدستور موجود ہے ۔گفتگو کا نقطہ آغاز بھی بانی پی ٹی آئی ہیں اور اختتام کا نقطہ بھی انھی کے گرد ہی گھومتا ہے۔

مفاہمت کے نام پر ڈکٹیشن یا اپنے ایجنڈا کو مسلط کرنے کی پالیسی خواہ کسی کی بھی ہے ، وہ درست نہیں ہے۔ ملک سیاسی و معاشی استحکام کی تلاش میں ہے مگر ہم اپنی اپنی پالیسیو ں کی بنیاد پر عملا سیاسی اور معاشی استحکام کو خراب کرنے کے کھیل کا حصہ بن گئے ہیں۔  مفاہمت کا ایک بنیادی نقطہ سیاسی پارٹیوں کے درمیان مذاکرات ہے۔ اسی سے درمیانی راستہ تلاش کرنا ہوتا ہے۔مگر جب کوئی سیاسی قوت جمہوری قوتوں کے بجائے غیرسیاسی قوتوں کے ساتھ ساز باز کرکے اقتدار تک پہنچنے کا راستہ تلاش کرے گی تو پھر آمریت اور جمہوریت ایک دوسرے کے مدمقابل ہوں گی۔مسئلہ محض بانی پی ٹی آئی ہی نہیں بلکہ حکومت اور ان کی اتحادی جماعتیں بھی ہیں جو سیاسی فورم یا پارلیمنٹ کی مدد سے سیاسی مسائل کا حل تلاش نہیں کرسکیں۔

یہ بدقسمتی ہے کہ حکومت ہو یا حزب اختلاف سب اپنے سیاسی مسائل کے حل کے لیے سیاسی فورم کو استعمال کرنے کی بجائے عدلیہ اور اسٹیبلیشمنٹ کی طرف دیکھتے ہیں اور ان ہی سے مدد مانگتے ہیں۔ اگر پی ٹی آئی اپنے مطالبات کے لیے پس پردہ قوتوں کی طرف دیکھ رہی ہے تو خود حکومت کی اپنی سیاسی بقا اور وجود انھی قوتوں کے سہارے ہی کھڑا ہے ۔

سیاسی وجمہوری قوتوں کی کامیابی اسی صورت کی بنیاد پر ہوتی ہے ان کی ساری حکمت عملی اور جدوجہد مفاہمت،بات چیت،مکالمہ اور باہمی جمہوری اتفاق رائے کے ساتھ آگے بڑھنے سے جڑی ہوتی ہے ۔یہ ہی وجہ ہے کہ سیاسی اور غیر سیاسی قوتوں کے درمیان کشمکش کا یہ کھیل جاری رہتا ہے۔

اگر اس کھیل میں سیاسی قوتیں زیادہ ذمے داری اور جمہوری سوچ کو اختیار کرتی ہیں تو یقینی طور پر یہ جمہوریت کی کامیابی سے جڑا ہوتا ہے۔مگر مجموعی طور پر ہماری سیاست کی ناکامی یہ ہے کہ ہم سیاسی اور جمہوری حکمت عملی کی بجائے خود غیر جمہوری یا غیر سیاسی قوتوں کی حمایت کرکے جمہوری نظام اور جمہوری ساکھ کو بھی خراب کرتے ہیں ۔

بظاہر ایسا لگتا ہے کہ موجودہ حالات میں حکومت اور پی ٹی آئی کے درمیا ن مذاکرات کا راستہ بند ہوچکا ہے۔مگر سیاست و جمہوریت میں کبھی راستے بند نہیں ہوتے ۔ اگر سیاسی قوتیں مذاکرات کا راستہ اختیار کرنا چاہیں تو راستے نہ صرف کھلے رہتے ہیں بلکہ ان کھلے راستوں کو کسی نہ کسی شکل میں اختیار بھی کیا جاتا ہے۔ بنیادی شرط ایک دوسرے کے لیے سیاسی لچک پیدا کرنا ہوتا ہے اور اگر ہماری سیاسی قوتیں اس کنجی کو تسلیم کرلیں تو مفاہمت کا راستہ آگے بڑھ بھی سکتا ہے ۔مفاہمت کی کامیابی کی بڑی ذمے داری پرامن بقائے باہمی کے اصول پر ہوتی ہے کیونکہ اس طرح ہی سب سٹیک ہولڈرز مطمئن ہوسکتے ہیں۔

اس لیے زیادہ ذمے داری بھی سیاسی قائدین پر ہی عائد ہوتی ہے۔لیکن اگر ترجیحات درست نہ ہوں تو پھر وہی کچھ ہوگا جو اس وقت ہورہا ہے۔ خیبر پختونخوا میں گورنر راج یا پی ٹی آئی پر ی پابندی لگانے کی باتیں ہوں گی۔ بانی پی ٹی آئی اورحکومتی قیادت بھی ایک دوسرے کو سیاسی راستہ دینے کے لیے تیار نہیں۔ایک ایسے ماحول میں جہاں اس حد تک بداعتمادی ہو یا اختلافات سیاسی دشمنی کی شکل اختیار کرگئے ہوں وہاں مذاکرات اور مفاہمت کے لیے پہلے سیاسی سازگار ماحول کویقینی بنایاجاتا ہے ۔

اگر ہم نے بطور ریاست یا معاشرہ آگے بڑھنا ہے تو اس سیاسی جمود کو توڑنا ہوگا اور اس کے مقابلے میں مفاہمت اور بات چیت کی سیاست کے کارڈ کو فوقیت دینی ہوگی۔ ریاست ،حکومت اور پی ٹی آئی سب پر یہ دباؤ بڑھانا ہوگا کہ وہ مفاہمت کی سیاست کے ساتھ آگے بڑھنے کی کوشش کریں ۔اہل دانش کا کام مفاہمت کی سیاست کے ماحول کو بنانا ہونا چاہیے۔ لیکن یہاں سیاسی تقسیم کے اس کھیل میں اہل دانش بھی سیاسی تقسیم یا کسی کی حمایت اور مخالفت کے کھیل کا حصہ بن گئے ہیں۔یہ ہی وجہ ہے کہ سیاسی تقسیم کے اس عمل نے ریاست کو بھی بہت سے مسائل میں الجھا دیا ہے ،اس لیے مفاہمت خود ان کے مفاد میں ہے ۔



[ad_2]

Source link

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں