40

دنیا کو تم نے دیا کیا؟

[ad_1]

اپنے ہی شہر کے ایک حصے میں کوئی کام تھا۔ گئے تو جس جگہ گاڑی کھڑی کی وہاں پہلے ایک میدان ہوا کرتا تھا۔وہاں دور دور تک پلاسٹک کا ایک کھیت لہلہا رہا تھا۔رنگ برنگے پلاسٹک کے تھیلے، بوتلیں اور ٹکڑے اپنی ’’بہارجانفزا‘‘دکھلارہے تھے۔میں اس جگہ کھڑا ہوکر اس لہلہاتے کھیت کا نظارہ کرنے لگا۔

ایسا ہی ایک نظارہ اور مجھے یاد آیا۔ جو یہاں سے بہت دور سوات کے کالام اور مٹلتان سے بھی آگے ’’ماہودنڈ‘‘ نامی تفریحی مقام پر میں نے کچھ عرصہ پہلے دیکھا۔ ماہوڈنڈ یا مہوڈنڈ۔ سوات کے آخری کنارے چترال کی سرحد پر ایک تفریحی مقام کا نام ہے لفظی ترجمہ ہے ’’مچھلیوں کی جھیل‘‘ یہاں دریائے سوات کی ایک شاخ ایک جھیل کی سی شکل اختیار کیے ہوئے ہے۔

ایک زمانے میں بلکہ تاریخ اور دن بھی آپ کو بتاؤں۔یہ وہی دن تھا جس سے ایک دن پہلے ضیاالحق کا جہاز گرا تھا۔رات کو ہم نے ریڈیو پر یہ خبر سنی تھی اور اگلے دن ہم نے دل گرفتگی کے عالم میں واپسی اختیار کی جو کچھ تھا آخر انسان تھا۔خیر تو اس وقت اس جھیل کی صفائی کا یہ عالم تھا کہ ہمارے مٹلتان کے میزبان جو ہمارے ساتھ تھے بڑے مزے سے اس جھیل میں اتر کر ہاتھ سے ٹراوٹ مچھلیاں پکڑ  لیتے تھے۔

اس وقت ہم اپنا ٹینٹ ساتھ لائے تھے لیکن اب وہاں بڑے بڑے ٹینٹوں میں بہت سارے ہوٹل اور طرح طرح کے شاپس کھلے تھے اور یہاں سے وہاں تک وہ صاف و شفاف جھیل، آس پاس کی زمینوں پر پلاسٹک کے کھیت اگے ہوئے، جوس کے ڈبے، سیگرٹ کی ڈبیاں اور تھیلوں میں مختلف خوراکوں کی باقیات۔ جھیل کا پانی جو نیلا شفاف ہوا کرتا تھا، مٹیالے اور سیاہ رنگ کا ہوچکا تھا اور اس میں انسانی کارنامے تیر رہے تھے اور آج ہم نے اپنے شہر میں اس جیسا لیکن بڑے سائز کا پلاسٹکی کھیت دیکھا تو

آپ نے یاد دلایا تو مجھے یاد آیا۔

ہم انسان کی ’’اشرفیت‘‘ کی داد دے رہے تھے وہ جسے خالق نے دنیا کو سنوارنے اور آلائشوں سے پاک کرنے کے لیے بھیجا تھا آج غلاظت آلائش اور گندگی کا سب سے بڑا چشمہ بن چکا ہے۔ بلکہ ’’بڑا‘‘ بھی نہیں سب سے بڑا بھی نہیں’’واحد‘‘ اور اونلی ون معدن ومخزن بلکہ فیکٹری بن چکا ہے۔ آپ کسی جنگل یا صحرا میں نکل جائیں کوئی ویرانی، تشنگی اور سوکھاپن تو آپ کو ضرور دکھائی دے جائیں گے۔ لیکن گند، غلاظت اور میلاپن کہیں دکھائی نہیں دے گا۔بلکہ بقول فراق گورکھپوری

ایک رنگینئی ظاہر ہے ’’گلستان‘‘ میں اگر

ایک شادائی پنہاں نظرآتی ہے’’بیابانوں میں

وہ’’شادائی پنہاں‘‘ بھی تب تلک ہے جب تلک اشرف المخلوقات یا حیوان اعلیٰ دانا اور لائق و فائق وہاں نہیں پہنچتا۔زمیں ہوگی تو صاف،سبزہ وگل یہاں تک مٹی پتھر بھی خوبصورت نظر آئیں، پانی جہاں بھی ہوگا صاف وشفاف اور میٹھا ہوگا، نباتات کے پتے، سوکھے پتے نظر آجائیں گے لیکن کسی بھی حیوان کا گند دکھائی نہیں دے گا۔اگر کہیں کیچڑ بھی ہوگی تو آنکھوں میں چبھنے والی نہیں بلکہ طراوٹ دینے والی ہوگی۔

راستوں پر کوئی گند،خوراک چھلکے اور پھینکی ہوئی غلاظت نہیں ہوں گی۔لیکن انسانی آبادی،جی ہاں مہذب متمدن اور حیوان اعلیٰ کی بستی میں داخل ہونے سے بھی پہلے آپ کی ناک کا استقبال طرح طرح کی بدبوئیں، دھوئیں اور سڑاند کریں گی۔اس کے بعد راستوں میں پانی اور کیچڑ کے گھڑے، گندے بدبودار پانی ،گٹٹر اور گھروں سے چھوڑا ہوا پانی اور پھینکی ہوئی غلاظتیں کریں گی۔جس بیابان سے آپ آئے ہیں وہاں تو آپ کے کانوں نے درختوں کی سائیں سائیں اور پرندوں یا حشرات کی چہچہاہٹ سرسراہٹ اور چرچراہٹ سنی تھی لیکن یہاں ہر طرف سے بے ہنگم اور  سماعت کو پھاڑنے والا شور آپ کا استقبال کرے گا۔جو اسی حیوان اعلیٰ اور اشرف المخلوقات کا پیدا کردہ ہوتا ہے۔

صحرا کے درندے تو آپ کو بخش چکے ہوں گے کہ وہ صرف بھوک لگنے پر چیڑپھاڑ کرتے ہیں اور پیٹ بھرجانے کے بعد کسی سائے میں پڑکر سوجاتے ہیں اور اگر انسان ان سے تعرض نہ کرے آزار نہ پہنچائے تو وہ انسان کو دیکھ کر ہی چھپ جاتے ہیں لیکن یہاں اس سریئے اور لوہے بلکہ تہذیب وتمدن کے بنائے ہوئے جنگل میں بھرے پیٹ کے جانور آپ کو ہرگز نہیں چھوڑیں گے، اپنے مخصوص ہتھیاروں کاغذ قلم اور ترازو باٹوں کے ساتھ آپ پر ایسے حملہ آورہوں گے جیسے صدیوں کے بھوکے ہوں، سڑکوں پر لوہے کے درندے اور گلی کوچوں میں گوشت پوست کے دوپیروں والے درندے آپ کی تکا بوٹی ہی کرنے ہی کے لیے آنکھیں بچھائے ہوئے ہوتے ہیں۔مذہبی بزرگوں سے آپ نے سنا ہی ہوگا کہ قیامت کے دن نفسی نفسی کا عالم ہوگا لیکن یہاں دیکھ بھی لیں گے کہ انسان،انسانوں کی سیڑھیاں بلکہ انسانی لاشوں کی سیڑھیاں بناکر کس طرح بام عروج پر پہنچتے ہیں

یہاں کسی کو کوئی راستہ نہیں دیتا

مجھے گراکے اگر تم سنبھل سکو تو چلو

بہرحال انسان نے خدائے ذوالجلال واکرام کے بنائے ہوئے پاک صاف شفاف جہاں کو گندگی کا ڈھیر بنایا ہوا ہے اسے دیکھ کر اس کی شیخیاں اور اپنی مدح سرائیوں کا پول کھل جاتا ہے وہ کسی نے کہا ہے کہ

دنیا نے ہم کو دیا کیا؟

دنیا سے ہم نے لیا کیا؟

اس کو اب اُلٹ کر پڑھنا ہوگا انسان کو اپنی بڑہانکیوں کی بجائے یہ کہنا چاہیے کہ

دنیا کو میں نے دیا کیا؟

دنیا نے مجھ سے لیا کیا؟

بلکہ خدا کرے سارے جانوروں کو زبان مل جائے اور وہ اسے اپنے کرتوتوں کا آئینہ دکھاکر کہیں کہ

کہ دنیا میں تم نے کیا کیا؟

دنیا کو تم نے دیا کیا؟

سوائے تباہی، بربادی، گندگی اور غلاظت کے



[ad_2]

Source link

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں