35

ہیں کواکب کچھ، نظر آتے ہیں کچھ

[ad_1]

گھر،گھر غیر شادی شدہ لڑکیاں اچھے رشتوں کے انتظار میں،کوئی انجینئر، کوئی ڈاکٹر،کوئی پروفیسر یا اسی طرح کا کوئی مال دار شخص جو انھیں بیاہ کر لے جائے۔ ایسے میں اگر کسی لڑکی کا بیرون ملک رہائش پذیر لڑکے کا رشتہ آ جائے تو جیسے چاند اُتر آیا ان کے گھر میں، لڑکا باہر سیٹلڈ ہے، پیسہ بہت ہے، بس شادی اپنے وطن میں کرنی ہے۔

باہر کا رشتہ جیسے سونے کی ڈلی ہو، سنبھالے نہیں سنبھلتا۔ پاکستان، بھارت اور بنگلہ دیش میں یہ رجحان بہت عام ہے۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ ان ملکوں میں رہنے والے سبھی لوگ اس رجحان کے حامل ہیں کہ باہر سے آئے ہوئے رشتے کو فوراً قبول کر کے بیٹیوں کی شادیاں کر دیتے ہیں لیکن اٹھانوے فی صد گھرانے ایسا ہی سوچتے ہیں اور پھر ان رشتوں میں سے کتنے صحیح ہوتے ہیں، کتنے غلط، بس ماں باپ کو یہ خوشی کہ ان کی بیٹی باہر جا رہی ہے۔ اکثر ایسا بھی ہوا ہے کہ بقول غالب:

ہیں کواکب کچھ، نظر آتے ہیں کچھ

دیتے ہیں دھوکہ یہ بازی گر کھلا

ان رشتوں میں شادی دفتروں کا بڑا دخل ہے جو اپنی فیس کے چکر میں کھوٹے کو کھرا بنا کر پیش کرنے میں بڑے ماہر ہوتے ہیں۔ خاص کر اس قسم کے اشتہارات نوجوانوں اور شادی شدہ مردوں کے لیے بڑی کشش رکھتے ہیں جس میں ایک معذور، لولی، لنگڑی حسین و جوان بیوہ جوکروڑوں کی مالک ہے، اسے رشتہ مطلوب ہے۔

شادی شدہ افراد بھی رجوع کر سکتے ہیں، مرد کی زندگی میں دوسری عورت کی گنجائش ہمیشہ رہتی ہے پھر شرعی طور پر بھی مسلمان مرد کو چار شادیوں کی اجازت ہے، لہٰذا اسی کمزوری کا فائدہ اٹھا کر یہ اشتہارات دیے جاتے ہیں، پھر ان سے فیس کی مد میں لاکھوں روپے اینٹھے جاتے ہیں۔ باہر سے آئے ہوئے ایسے لوگ انھی شادی دفتروں کے توسط سے شادیاں کرتے ہیں۔

 چند دن سے سوشل میڈیا پر ایک پوسٹ گردش کر رہی ہے جس میں ایسے ہی ایک فراڈ کا ذکر کیا گیا ہے جس میں باہر سے آئے ہوئے ایک لڑکے کی شادی ہوئی، شادی دفتر والوں کے توسط سے۔ لڑکی اپنی آنکھوں میں سہانے خواب سجائے پردیس سدھاری اور ماں باپ کو یقین دلایا کہ وہ وہاں جانے کے بعد یہاں اپنے بھائی کو بلانے کی کوشش کرے گی، لیکن جب وہ وہاں پہنچیں تو ان کا پاسپورٹ اور موبائل فون لے لیا گیا، نئی دلہن کا استقبال نہایت سرد مہری سے کیا گیا، شوہر نے دلہن کو کوئی لفٹ نہ کروائی بلکہ اسے کچن میں دھکیل دیا گیا اور اسے دلہا میاں نے بتایا کہ اس لڑکی کو وہ شادی کرکے نہیں لائے ہیں بلکہ نوکرانی بنا کر لائے ہیں۔

لڑکا والدین کے ساتھ شادی کرنے گیا تھا۔ واپسی پر بیوی کو بتایا کہ اسے میڈ کے طور پر لایا گیا ہے۔ نیز یہ کہ اسے عورتوں سے کوئی دلچسپی یا رغبت نہیں ہے، وہ ہم جنس پرست ہے۔ لڑکی پر جب یہ انکشاف ہوا تو وہ رونے لگی، تو اسے گھر والوں نے خوب مارا، لیکن ان معاملات میں وہ اتنے ماہر اور تجربہ کار تھے کہ لڑکی کے کندھوں پہ کپڑا رکھ کر تشدد کرتے تھے تاکہ جسم پر نیل نہ پڑیں، لڑکی کا رو رو کر برا حال تھا، کرے تو کیا کرے؟ وہ اسے فارغ نہیں بیٹھنے دیتے تھے، پانچ افراد کا دو وقت کے کھانے اور ناشتے کے علاوہ شام کی کافی الگ۔ دن یوں ہی گزر رہے تھے، اسے وہ رشتے یاد آئے جو شریف اور نیک تھے لیکن ماں کو اور خود لڑکی کو چاہیے تھا دولت مند آدمی، قسمت سے بیرون ملک کا رشتہ آگیا تو گو قارون کا خزانہ ہاتھ لگ گیا ہو۔

اسے اپنا وہ پڑوسی لڑکا یاد آ رہا تھا جو ایک گورنمنٹ ہائی اسکول میں پڑھاتا ہے اور اس نے اپنا رشتہ بھجوایا تھا، لڑکی چونکہ شکل و صورت کی اچھی تھی، اس لیے نخریلی بھی تھی اور ماں کو بھی کسی شہزادے کا انتظار تھا۔ بہرحال دن رات کی محنت سے اور تشدد سے وہ بہت کمزور ہوگئی، شکل و صورت بھی وہ نہ رہی جس پہ ناز تھا۔ لڑکی کے ماں باپ مسلسل خاموشی سے گھبرا گئے، انھوں نے اپنے ایک رشتے دار سے جو اسی شہر میں رہتے تھے جہاں کا پتا لڑکے والوں نے دیا تھا اور انھیں ساری صورت حال بتا کر مدد کی درخواست کی۔

لڑکی کی خوش نصیبی تھی کہ لڑکے والوں نے پتا صحیح لکھوایا تھا۔ بہرحال وہ رشتے دار ایک دن ان کے گھر پہنچ گئے اور اس لڑکی سے ملاقات کی، جب انھوں نے اس لڑکی کو دیکھا تو حیران رہ گئے، لڑکی کی حالت تو بہت ابتر تھی، وہ چپ چاپ وہاں سے چلے گئے لیکن انھوں نے فوراً پولیس میں رپورٹ کردی۔

پولیس نے لڑکی کو بازیاب کروا لیا کہ امریکا اور کینیڈا میں خواتین کو بہت سے حقوق حاصل ہیں۔ خاص کر ہراسمنٹ کے کیسز میں وہ ذرا دیر نہیں کرتے۔ ایک ڈاکٹر صاحب ہیں جنھوں نے ایک اداکارہ سے شادی کی پھر وہ چال باز اور لالچی نکلیں تو طلاق دے دی، وہ ڈاکٹر صاحب ایک دن کہیں جا رہے تھے، قریب سے ایک گوری گزری، موصوف نے اسے ٹچ کیا، اس نے فوراً پولیس کو بلا لیا، ہراسمنٹ کا کیس درج ہوگیا۔ ایک رات جیل میں کاٹنی پڑی۔ بہرحال لڑکی بازیاب ہوئی۔

وہ بالکل ڈھانچہ بن گئی تھی، اس نے پانچوں افراد کے تشدد کی بات بھی بتائی، پولیس نے اس کا فون اور پاسپورٹ بازیاب کرایا۔ ابھی وہ لڑکی ہاسپٹل میں ہے، پانچوں افراد کو سزا اور جرمانہ دونوں کی سزا سنائی گئی، ساس، سسر، دیور، شوہر اور نند کو۔

ہم جب دوسری بار انڈیا گئے تو احمد آباد میں بھی ایسا ہی ایک کیس سامنے آیا تھا۔ ایک بہت خوب صورت لڑکی کا رشتہ کسی جاننے والے کے توسط سے آیا، چٹ منگنی اور پٹ بیاہ کے مصداق بیس دن میں شادی ہوگئی اور دلہن ارمان سجائے امریکا روانہ ہوگئیں۔

وہاں پہنچی تو میاں نے بتایا کہ اسے یہاں اپنے ماں باپ کی خدمت کے لیے لایا گیا ہے۔ نیز یہ کہ وہ پہلے سے شادی شدہ ہے، ایک عیسائی لڑکی اس کی بیوی ہے۔ لڑکے کے والدین کو جب اصل بات کا پتا چلا تو وہ بہت ناراض ہوئے۔ لڑکا اپنی بیوی کے ساتھ کہیں اور رہتا ہے۔ لڑکے کی ماں نے اس لڑکی کو اس کا پاسپورٹ اور موبائل فون ڈھونڈ کے دیے۔ پڑوس میں رہنے والی انڈین فیملی کو ساری بات بتائی اور مدد کی درخواست کی۔ ان لوگوں نے اسے پولیس اسٹیشن پہنچا دیا۔ اس طرح وہ لڑکی واپس احمد آباد پہنچی اور پھر وہیں اس کی دوسری شادی ہوئی۔

دراصل لڑکی والوں کی ڈیمانڈ بہت بڑھ گئی ہیں۔ ہر کسی کو دولت مند داماد چاہیے، جب تک لڑکی والے پسند پر سمجھوتہ نہیں کرتے۔ لڑکیاں یوں ہی گھروں میں بیٹھی بیٹھی بوڑھی ہو جائیں گی۔ دراصل لالچ بہت بڑھ گیا ہے۔ میرے جاننے والوں میں ایک لڑکا ایم ایس سی ہے۔ باہر کے رشتوں میں بھی پتا نہیں چلتا کہ جاب آخر ہے کیا؟ بس ’’ باہر سے آیا ہے‘‘۔ یہی کافی ہے۔ زیادہ تر لوگ جسمانی محنت کرتے ہیں، کوئی لوڈر بن جاتا ہے، وہاں محنت کی قدر ہے۔ باہر سے آنے والے امریکا اورکینیڈا میں زیادہ تر چھوٹی موٹی نوکریاں کرتے ہیں۔

وائٹ کالر جاب سب کو نہیں ملتی، ایک معروف اداکار جن کا پاکستان میں بہت نام ہے، ایک ہوٹل میں ویٹر تھے اور وہ خود بھی بتاتے تھے کہ انھوں نے ویٹر کی جاب کی تھی۔ ایک لڑکی کا رشتہ ہوا شادی دفتر کے توسط سے، بتایا گیا انجینئر ہیں، لیکن وہاں جا کر انکشاف ہوا کہ موصوف پلمبر ہیں۔ زیادہ تر ایسی ہی نوکریاں کر رہے ہیں کوئی پلمبر ہے، کوئی لوڈر، کوئی اسٹور میں چیزیں فروخت کر رہا ہے، تو کوئی گیس اسٹیشن پہ ملازم ہے۔ لوگ اپنے شہر کے لڑکوں کو چھوڑ کر باہر والوں کو ترجیح دیں گے تو پھر ایسی صورت حال پیش آئے گی۔



[ad_2]

Source link

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں