[ad_1]
پی ٹی آئی کے حالیہ احتجاج میں گرفتار ہونے والے کارکنوں کو دہشت گردی عدالت کے جج نے 15 روز کے ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کر دیا اور ایک سوکے قریب سیاسی کارکنوں کو رہا کرنے کا حکم دیا ہے۔
گرفتار شدگان میں کتنے پی ٹی آئی کے کارکن ہوں گے کچھ بانی کے چاہنے والے اور نہ جانے کتنے غیر سیاسی افراد ہوں گے جو کسی مجبوری میں انتشاریوں کے ساتھ شامل ہوں گے یا رقم دے کر دیہاڑی پر لائے گئے ہوں گے اور کچھ تماشا دیکھنے والے بے گناہ بھی ضرور ہوں گے جو پولیس کے ہاتھ چڑھ گئے اور پی ٹی آئی کے کارکن بنا دیے گئے اور اگر انھیں سزا ہوگئی تو کیا ہوگا؟ یہ سوچنا انھیں لانے والے سیاسی مفاد پرستوں کا کام نہیں۔
ادھر ملتان میں گرفتار کیے گئے پی ٹی آئی کے ارکان قومی اسمبلی زین قریشی، عامر ڈوگر اور معین قریشی کو دہشت گردی کی عدالت نے بے گناہ قرار دے کر رہا کر دیا، جنھیں رہا کرانے کے لیے مہنگے وکیل عدالت آئے جب کہ سیاسی کارکنوں کی بڑی تعداد کو تو کم فیس لینے والے وکیل بھی میسر نہیں آئے۔
یہ بات بھی واضح رہے کہ گرفتار کارکنوں میں کوئی رکن اسمبلی شامل ہے نہ پی ٹی آئی کا بڑا رہنما یا امیر حامی بلکہ وہ سب غریب ہی ہوں گے جو نامور وکیل کر سکتے اورافسوسناک بات تو یہ ہے کہ پی ٹی آئی نے اپنے کارکنوں کو کسی وکیل کی سہولت بھی نہیں دی اور گرفتار کارکنوں نے خود دلائل دیے اور ان کا جسمانی ریمانڈ پولیس کو مل گیا اور پولیس اب ان کے ساتھ کیا سلوک کرے گی، اس کا پی ٹی آئی رہنماؤں کو پتا ہے کہ جن کارکنوں کا کوئی والی وارث نہیں ہوتا، ان کے ساتھ پولیس جسمانی ریمانڈ میں مرضی کے بیانات حاصل کرنے کے لیے تشدد بھی کرے گی۔
ان گرفتار ملزمان میں جو مالی وسائل کے حامل ہوں گے وہ تو پولیس کو رشوت دے کر تشدد اور سزا سے بچ جائیں گے اور غریب کارکن اپنی متوقع سزا خود کاٹیں گے اور زیادہ سے زیادہ پی ٹی آئی سزاؤں کی مذمت کرے گی اور ملزموں کے گھر والوں پر جو گزرے گی اس کی پی ٹی آئی کے بانی کو کوئی فکر نہیں کیونکہ وہ خود جیل میں ہیں اور اپنے غریب کارکنوں کو بھی جیل میں دیکھنا چاہتے ہیں۔
پی ٹی آئی کے جو بڑے رہنما 9 مئی یا دیگر الزامات میں جیلوں میں ہیں انھیں تو وکیلوں کی سہولت میسر ہے اور جو ارکان اسمبلی و امیر رہنما باہر ہیں ان کے ذریعے بانی میڈیا میں رہتے ہیں یا مالی مفاد حاصل کرتے ہیں۔ آئے دن رہائی اور سیاسی مفاد کے لیے احتجاج کرانے والے بانی کو صرف اپنے مال دار رہنماؤں کی کچھ فکر ہے جب کہ ان کی پارٹی نے تو اپنے سینئر وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی تک کو نظرانداز کر رکھا ہے جن کو اپنے ساتھ اپنے پارٹی رہنماؤں کے رویے کا بھی پتا ہے اور شکایات کرنے پر مجبور ہوئے۔
بانی پی ٹی آئی سوا سال سے جیل میں ہیں اور انھیں صرف اپنی اور اپنی اہلیہ کی فکر ہے جن کے مقدموں کی وکالت مشہور وکلا کی جانب سے مفت میں ہو رہی ہے اور رہے ان کے لیے گرفتار ہونے والوں کی بانی کو کوئی فکر نہیں ہے کیونکہ یہی کارکن بانی پی ٹی آئی کی سیاست کا چارہ ہیں اور یہ بے چارے کارکن اپنے بانی اور پارٹی کی محبت میں جیلوں میں ہیں کیونکہ انھی کی وجہ سے بانی پی ٹی آئی کی سیاست زندہ ہے۔ صرف پی ٹی آئی نہیں بلکہ ہر بڑی پارٹی میں کارکنوں کے ساتھ یہی سلوک ہوتا ہے۔
بے نظیر بھٹو تک تو پیپلز پارٹی میں کارکنوں کی کچھ قدر و اہمیت تھی اور وہ خود بھی کارکنوں کا خیال رکھتی تھیں۔ انھوں نے اپنی پہلی حکومت میں شکارپور سے تعلق رکھنے والے سپاف کے معذور نوجوان جہانگیر پٹھان کو اس کے دوست نثار احمد مگسی کے ہمراہ علاج کے لیے لندن بھی بھجوایا تھا مگر جہانگیر خان کا علاج نہ ہو سکا تھا اور وہ مایوس ہو کر شکار پور آگئے تھے جن کا نچلا دھڑ توڑی پھاٹک پولیس فائرنگ سے ناکارہ ہوگیا تھا۔
وزیر اعظم بے نظیر بھٹو نے ایک چھوٹی کار اور وہیل چیئر دی تھی اور مالی معاونت کی تھی۔ جہانگیر پٹھان نوجوانی میں پیپلز پارٹی کے جوشیلے کارکن تھے جنھیں بے نظیر بھٹو کے بعد پیپلز پارٹی نے بھلا دیا تھا اور پی پی کے لیے جسمانی معذور جہانگیر خان نے زندگی سے مایوس ہو کر شکارپور کے ایک ہوٹل میں پریس کانفرنس کر کے اور اپنے ساتھ پارٹی کے سلوک کی تفصیلات بتا کر اپنی کن پٹی پر فائر کر کے خودکشی کر لی تھی۔
مسلم لیگ (ن) میں بھی کارکنوں کی کوئی قدر نہیں وہاں بھی کارکنوں کو اپنی سیاست کا مفت کا ایندھن سمجھا جاتا ہے اور کارکنوں پر صرف ذاتی وفادار رہنماؤں کو ترجیح دی جاتی ہے۔ اپنے دوسرے اقتدار سے محرومی کے بعد میاں نواز شریف لاڑکانہ گئے تھے جہاں ان سے محبت کرنے والے ایک نوجوان نے اپنے قائد سے ملنے کی کوشش کی تھی جسے نواز اہمیت نہیں دی گئی تھی تو اس مایوس کارکن نے بعد میں خودکشی کر لی تھی۔
پی پی کی بے نظیر بھٹو کی دونوں حکومتوں میں کارکنوں کو سرکاری ملازمتیں بھی ملی تھیں اور کارکن بھی اپنی رانی سے مخلص تھے مگر ان کے بعد پی پی کے کارکنوں کو اہمیت دینے والا کوئی نہیں رہا صرف امیروں اور رہنماؤں کو اہمیت اور عہدے ملے یہی کچھ پیپلز پارٹی اور پی ٹی آئی میں ہوا جہاں کارکنوں کو نظراندازکیا گیا اور مسلم لیگ (ن) میں اب بھی یہ سلسلہ جاری ہے۔
سیاسی کارکنوں کو متاثر کرنے کے لیے ان سے جھوٹ بولا جاتا ہے انھیں خواب دکھائے جاتے ہیں اور پھر ان کے ساتھ یہ ہوتا ہے جو پی ٹی آئی نے اپنے حالیہ احتجاج کے بعد کیا، انھیں گرفتاریوں کے بعد لاوارث چھوڑ دیا گیا جنھیں مفت وکیل تک نہیں دیے گئے۔ سیاسی کارکنوں کے ساتھ یہی ہوتا آ رہا ہے۔ قائدین انھیں اپنے سحر میں جکڑ لیتے ہیں جو کارکن نہیں سمجھتے اور اندھے مقلد بنے رہتے ہیں اور وقت نکل جانے پر انھیں لاوارث چھوڑ دیا جاتا ہے کہ جو کیا اب خود بھگتو۔
[ad_2]
Source link