[ad_1]
کراچی: پاکستان میں ڈالر کی بڑھتی قیمتوں نے دوا ساز کمپنیوں کی مشکلات میں اضافہ کردیا۔
ڈریپ قوانین سے دل برداشتہ ہوکر متعدد کمپنیوں نے دوائیاں بنانا بند کر دیں، جان بچانے والی 100سے زائد ادویات کی قلت پیدا ہو گئی۔
ایکسپریس سے گفتگو کرتے ہوئے پاکستان فارماسیوٹیکل ایسوسی ایشن (پی پی ایم اے) کے چیئر مین میاں خالد مصباح کاکہنا تھا کہ پاکستان میں ڈالر کی قدر، خام مال کی قیمت اور افراط زر کی شرح میں اضافے کے سبب دوا ساز ادارے بھاری پیداواری لاگت سے ادویات تیار کرتے ہیں مگر ڈریپ کی جانب سے پرائزنگ پالیسی2018کے تحت جان بچانے والی ادویات کی قیمتوں میں سالانہ7 سے10فیصد اضافے کی منظوری دی جاتی ہے جس کی وجہ سے پاکستانی فارما کمپنیوں نے متعدد دوائیں بنانا بند کردی ہیں۔
پاکستان میں اب صرف10ملٹی نیشنل فارماسیوٹیکل کمپنیاں رہ گئی ہیں جو یہ جان بچانے والے ادویات تیار کر رہی ہیں، طلب میں اضافہ دیکھ کر مارکیٹس میں غیر معیاری جعلی ادویات بھی ملنی شروع ہو جائیں گی، حکومت نے دنیا بھر کے دیگر ممالک کی طرح غیر ضروری ادویات پر سے پرائس کنٹرول ختم کرکے ان کو ڈی ریگولیٹ کردیا ہے۔
پاکستان میں494جان بچانے والی ادویات ہیں،انڈیا میں384اور بنگلہ دیش میں117جان بچانے والیں ادویات ہیں جبکہ سری لنکا میں60جان بچانے والی ادویات ہیں،یہ تینوں ملک جان بچانے والی ادویات کی قیمت کو کنٹرول کرتے ہیں،دوا ساز ادارے کتنے مہینے یا سال نقصان کے باوجود ادویات خود تیار کریں گے؟،ان کو بھی بجلی کا بل دینا ہوتا ہے،ان کو مزدوروں کی تنخواہیں دینی ہوتی ہیں۔
ڈریپ کی پرائزنگ پالیسی2018کے تحت ہمیں جان بچانے والی ادویات کی قیمت میں7فیصد اضافے کی منظوری ملی ہے،جون میں سال کی افراط زر کی شرح کا تجزیہ ہوگا،ہر ماہ35سے40فیصد مہنگائی ہورہی ہے،ان کا مطلب ہے کہ سالانہ شرح افراط زر کم سے کم 25 سے 30 فیصد تو ہوگی، ہمارا بینک مارک اپ ریٹ 22 فیصد ہے، مہنگائی 30 فیصد ہے، ہمارا ڈالر 100 روپے سے 280 پر آ گیا ہے، تو ظاہری بات ہے کہ ایسی صورتحال میں جان بچانے والی ادویات کی قیمت میں 7 فیصد اضافے کی منظوری پر ان کی فراہمی ممکن نہیں رہے گی۔
وزیر اعظم کے مشیر برائے صحت ڈاکٹر مختار بھرتھ اور ڈریپ کے سی ای او سے ہماری ملاقات ہوئی ہے، اس ملاقات میں ہم نے ان کو یہی حقائق نمایاں کیے تھے،ڈاکٹر مختار بھرتھ ہمیں یقین دہانی کروائی ہے کہ ایک ہفتے میں جوائنٹ میٹنگ کروائیں گے،ہم ان کو پرپوزل بنا کر دیں گے جو کابینہ میں پیش کی جائے گی۔
پاکستان کی این ای ایم ایل (جان بچانے والی ادویات) 494 ہیں، اس میں سے 262 ادویات کے ہارڈ شپ کیس التوا کا شکار تھے لیکن اس میں کیونکہ ڈی ریگولیشن ہو گئی، 146جان بچانے والی ادویات کا دو سال سے کیس چل رہا تھا، اس کا نوٹیفیکیشن رواں سال فروری میں آیاکراچی کی ادویات کی ہول سیل مارکیٹوں میں ریووٹرل، لبریکس، ٹیگرال ،میٹوڈائن، میٹروزین، ڈورمیکم کی گولیاں، زائنوسین انہیلر اور گریوینیٹ گولیاں اور انجیکشن سمیت مرگی، نفسیات، ذیابیطس، سانس کے امراض کی متعدد ادویات کی قلت ہے۔
کراچی کی رہائشی63سالہ نسرین کوثر نے کہا کہ 20 سال سے ذیابیطس کے مرض میں مبتلا ہوں، مجھے شوگر ٹائپ ۔ٹو ہے لیکن کراچی کے میڈیکل اسٹورز پر متعدد ادویات نہیں دستیاب۔
[ad_2]
Source link