[ad_1]
اسلام آباد: برطانیہ کے فارن، کامن ویلتھ اور ڈیولپمنٹ آفس کے چیف اکانومسٹ پروفیسر عدنان خان کا کہنا ہے کہ پاکستان کے آئندہ چند سال آئی ایم ایف پروگرام کے بغیر مشکل دکھائی دیتے ہیں، جس کی ایک وجہ وسیع مالیاتی خلیج اور ادائیگیوں کے توازن کا بحران ہے۔
ایکسپریس ٹریبیون کو انٹرویو میں پروفیسر عدنان خان نے کہا کہ آئی ایم ایف پروگرام کا مطلب بحران سے نکلنے کیلیے اصلاحات کرنا ہے، پروگرام از خود طویل المدت معاشی نمو کا پیش خیمہ نہیں بن سکتا، البتہ آئی ایم ایف کا استحکام پروگرام کچھ اہم شرائط عائد کرتا ہے جوکہ دیگر اصلاحات کیساتھ معاشی نمو کا پیش خیمہ بن سکتی ہیں۔
آئی ایم ایف کے تین سالوں میں محض 6 ارب ڈالر پروگرام پر انھوں نے کہاکہ پاکستانی معیشت کی ضرورت اس پروگرام کے حجم سے کہیں زیادہ بڑی ہے، مگر آئی ایم ایف اس لیے اہم ہے کیونکہ پاکستان کے روایتی سپورٹرز چین اور خلیجی ممالک آئی ایم ایف کی طرف دیکھتے ہیں۔
انھوں نے کہا کہ آئی ایم ایف کا ایک چھتری کا کردار اس مرتبہ شاید کام نہ کرے کیونکہ حالیہ اسٹینڈ بائی ارینجمنٹ کی کامیاب تکمیل کے باوجود کسی غیر ملکی کمرشل بینک نے نئے قرضے نہیں دیے، نہ عالمی ریٹنگ ایجنسیوں نے پاکستان کی منفی درجہ بندی میں بہتری کا اشارہ دیا۔
انھوں نے کہاکہ آئی ایم ایف کا بطور چھتری کردار متعلقہ اصلاحات کیساتھ ہی کام کر سکتا ہے جوکہ معاشی بگاڑ ختم کرنے کیلیے ضروری ہیں تاکہ پیداواری شعبوں میں سرمایہ کاری بڑھ سکے۔ انھوں نے کہا کہ پاکستان کے بحرانوں کا ذمہ دار آئی ایم ایف نہیں کیونکہ اس کی وجہ پاکستانیوں کا پیداواری سے کہیں زیادہ صارف ہونا ہے۔
عدنان خان کا کہنا تھا کہ آئی ایم ایف پروگرام مختصر مدت میں استحکام اور وقتی مسائل پر قابو پانے کیلیے ہوتا ہے، جبکہ ہمیں اپنے جن گہرے مسائل کا علاج کرنا ہے، محصولات کی موجودہ سطح قرضوں کی ادائیگی کیلیے کافی نہیں، کئی ملکوں نے آئی ایم ایف پروگرام طویل المدت اصلاحات کیلیے استعمال کیا ہے، اگر پاکستان ایسا کر سکتا ہے توپھر کسی مرحلے پر پروگرام سے نکل سکتا ہے۔
بیرونی سرمایہ کاری پر انھوں نے کہا کہ مواقع ہونے پر ہی ملکی اور غیر ملکی سرمایہ کاری کیلیے یہاں آئیں گے،کراچی اور لاہور کے تاجروں سے ملاقات کا ذکر کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ مقامی سرمایہ کار ’’دیکھواور انتظار کرو‘‘ کے موڈ میں ہیں، وہ اپنی رقم ضائع نہیں کرنا چاہتے۔
[ad_2]
Source link