[ad_1]
اسلام آباد: پاکستان کی مالیاتی پالیسی فیصلہ کن موڑ پر ہے جب کہ مربوط و مستحکم مالیاتی پالیسی مالی استحکام اور اقتصادی ترقی کے درمیان توازن پیدا کرسکتی ہے۔
واضح رہے کہ ملک کی مالیاتی پالیسی ہمیشہ سے ہی مسائل کا شکار رہی ہے، ان پالیسیوں کی بدولت گزشتہ تین سالوں میں شرح سود میں اضافہ ہوا ہے، مہنگائی کو کنٹرول کرنے کیلیے مرکزی بینک نے شرح سود کو 22 فیصد کی بلند ترین شرح پر پہنچا دیا ہے، جس نے ریئل اسٹیٹ سیکٹر کو کچل کر رکھ دیا ہے، اور بیروزگاری کو جنم دیا ہے، ان مسائل کی اصل جڑیں بے تحاشا حکومتی اخراجات ہیں۔
تنخواہوں، پینشنز اور دیگر مراعات کی صورت میں 5 ہزار ارب روپے کے اخراجات حکومت کرتی ہے، جن کو قرضوں سے پورا کیا جاتا ہے، اور اس طرح حکومت سود کے گرداب میں پھنس کر رہ گئی ہے، ان اخراجات کو کنٹرول کرنے کیلیے مرکزی بینک نے شرح سود میں اضافہ کیا ہے، لیکن اس کا کوئی خاطرخواہ اثر حکومت پر نہیں ہوا۔
گزشتہ بجٹ میں تنخواہوں اور پینشن کے اخراجات میں 35 فیصد اضافہ حکومت کی سنجیدگی کو ظاہر کرتا ہے، جبکہ آمدہ بجٹ میں بھی تنخواہوں میں 12 فیصد اضافہ تجویز کیا جارہا ہے، اس سے تجارتی قرضوں پر انحصار مزید بڑھے گا، اس وقت حکومت کے پاس واحد سہارا بیرونی قرضوں کا حصول اور سرمایہ کاری کو راغب کرنا ہے۔
ان حالات سے دو سطحی مالیاتی پالیسی اختیار کرکے نمٹا جاسکتا ہے، جس کے تحت مرکز میں کفایت شعاری اور صوبوں میں اخراجات کی پالیسی اختیار کی جاسکتی ہے، اس پالیسی کے تحت وفاقی حکومت کفایت شعاری کو اختیار کرتے ہوئے خسارے کو کم کرسکتی ہے، اس کیلیے اخراجات میں کٹوتی اور جامع ٹیکس ریفارمز کرنا ہونگی، ضمنی بجٹ کے اجراء پر بھی پابندی لگانی ہوگی۔
پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کو فروغ دینا ہوگا، جس سے آمدنی میں اضافہ ہوگا، جبکہ دوسری طرف مرکز پر مالیاتی ذمہ داریاں کم کرنے کیلیے 18 ویں آئینی ترمیم کے تحت مخصوص وزارتوں کو ختم کرکے صوبوں کے حوالے کیا جاسکتا ہے، ٹیکس نظام میں جامع اصلاحات کرنی ہونگی، امیروں پر ٹیکسوں کا بوجھ بڑھانا اور غریبوں پر گھٹانا ہوگا، ترقیاتی اخراجات صوبوں کے حوالے کرنے ہونگے۔
ٹرانسپورٹیشن نیٹ ورک، انرجی گرڈز، واٹر سپلائی سسٹم وغیرہ صوبوں کی ذمہ داری ہونی چاہیے، مرکزی حکومت کو احساس، سود فری مالی اعانت جیسے پروگراموں سے بچنا چاہیے اور یہ پروگرام صوبوں کے حوالے کردینا چاہیے، ایک ایسی حکمت عملی جس میں وفاقی حکومت کفایت شعاری پر عمل پیرا ہو اور صوبائی حکومت ترقی اور روزگار کے مواقع پیدا کرے، مالیاتی استحکام اور اقتصادی ترقی کے درمیان ایک مستحکم توازن قائم کرسکتی ہے۔
[ad_2]
Source link