[ad_1]
اسلام آباد: ٹریبونل تبدیلی سے متعلق درخواستوں پر سماعت کے بعد الیکشن کمیشن نے دلائل سننے کے بعد فیصلہ محفوظ کرلیا۔
چیف الیکشن کمشنر کی سربراہی میں 4 رکنی بینچ نے ٹریبونل کی تبدیلی کے لیے اسلام آباد کے ایم این ایز کی درخواستوں پر سماعت کی۔ پی ٹی آئی کے وکلا الیکشن کمیشن میں پیش نہیں ہوئے، اس حوالے سے معاون وکیل نے بتایا کہ شعیب شاہین اور فیصل چوہدری اسلام آباد ہائی کورٹ میں مصروف ہیں۔
چیف الیکشن کمشنر نے کہا کہ شعیب شاہین کے وکیل کے دلائل کل مکمل ہو گئے تھے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ نے الیکشن کمیشن کی کارروائی کے خلاف کوئی حکم امتناع نہیں دیا۔ چیف الیکشن کمشنر نے شعیب شاہین اور فیصل چوہدری کو 11 بجے تک کی مہلت دی اور کہا کہ اگر گیارہ بجے پیش نہ ہوئے تو کمیشن مناسب آرڈر جاری کر دے گا۔
بعد ازاں وقفہ ختم ہونے پر دوبارہ سماعت شروع ہوئی، جس میں لیگی ایم این اے طارق فضل چوہدری، راجا خرم نواز، انجم عقیل خان کمرہ عدالت میں موجود تھے جب کہ پی ٹی آئی رہنما عامر مغل، فیصل چوہدری اور شعیب شاہین بھی کمرہ عدالت میں پہنچے۔
یہ خبر بھی پڑھیں: الیکشن کمیشن ترمیمی آرڈیننس کیخلاف درخواست سماعت کیلیے مقرر
الیکشن کمیشن میں این اے 47 سے طارق فضل چوہدری کی درخواست پر مخالف امیدوار شعیب شاہین نے اپنے دلائل میں کہا کہ الیکشن کمیشن کے 4 جون کے آرڈر کو ہائی کورٹ میں چیلنج کر رکھا ہے، جہاں ابھی سماعت جاری ہے۔ میرے وکیل نے دلائل دے دیے تھے، میں صرف چند عدالتی فیصلوں کا حوالہ دینا چاہتا ہوں۔ درخواست گزاروں نے جو بھی دلائل دیے وہ غیر متعلقہ تھے۔ ٹربیونل کی منتقلی کا فیصلہ بھی متعلقہ چیف جسٹس کی مشاورت سے ہو سکتا ہے۔ ہائی کورٹ ٹربیونل جج پر متعصب ہونے کا الزام لگایا گیا۔ ہائی کورٹ کے معزز ججز سے ہماری کوئی رشتے داری ہے نہ دشمنی۔ ٹربیونل نے تو لیگی ایم این ایز کو فیور دی۔
شعیب شاہین نے اپنے دلائل میں مزید کہا کہ الیکشن کمیشن کے پاس ایپلیٹ یا جائزے کے اختیارات نہیں ہیں۔ ہائیکورٹ کا جو فیصلہ ہوگا وہ ماننا پڑے گا۔ ہائیکورٹ سے کیسز ٹرانسفر کے اختیارات چیف جسٹس کے پاس ہیں۔ چیف الیکشن کمشنر نے پوچھا کہ ماضی میں ایسی کوئی مثالیں موجود ہیں؟، جس پر شعیب شاہین نے کہا کہ مجھے نہیں لگتا ماضی میں ایسا کبھی کچھ ہوا ہے۔
اس موقع پر الیکشن کمیشن کے وکیل سجیل سواتی نے پی ٹی آئی وکیل شعیب شاہین کے دلائل کی تصدیق کی اور کہا کہ تعصب کے محض الزامات کی بنیاد پر کیس ٹرانسفر نہیں ہوسکتا۔ شعیب شاہین نے کہا کہ جج خود بھی چاہے تو کیس سے الگ ہوسکتا ہے۔ ججز پر ٹرانسفر کے لیے کوئی اعتراض ہونا چاہیے جس پر ثبوت پیش ہونے ہوتے ہیں۔
مزید پڑھیں: الیکشن ٹریبونلز میں ریٹائرڈ ججوں کی تعیناتی، نیب ریمانڈ 40 روز کرنے کے آرڈیننسز پیش
این اے 46 سے امیدوارعامر مغل کے وکیل فیصل چوہدری نے اپنے دلائل میں کہا کہ جج کے تعصب اور مفادات کے ٹکراؤ کے حوالے سے شعیب شاہین کے دلائل کو اختیار کرتا ہوں۔ کل لیگی رہنماؤں کے وکلا نے جو دلائل دیے اس کی کوئی بنیاد نہیں تھی۔ الیکشن کمیشن کے پاس ٹریبونل تبدیلی یا نظر ثانی کا اختیار نہیں ہے۔ درخواست گزار اس سلسلے میں نظر ثانی کی اپیل دائر کرسکتے ہیں۔ اگر کسی جج پر الزام لگے تو اسے ثابت بھی کرنا ہوتا ہے۔ کل یہاں عجیب مطالبہ کیا گیا کہ نیا ٹریبونل بنایا جائے۔ جب درخواست میں استدعا ہی نہیں کی گئی تو نیا ٹربیونل نہیں بن سکتا۔ الیکشن کمیشن نوٹیفکیشن کے 45 روز کے بعد ٹریبونل نہیں بنا سکتا۔ درخواست گزاروں کو سیکشن 155 کے تحت اپیل میں جانا ہو گا۔
چیف الیکشن کمشنر نے کہا کہ میں تو سوچ رہا ہوں الیکشن کمیشن کے سارے کیسز آپ کو دے دیے جائیں، جس پر فیصل چوہدری نے کہا کہ مجھے امید ہے آپ کو مایوس نہیں کروں گا۔ ممبر سندھ نثار درانی نے اس موقع پر کہا کہ جس طرح آپ بول رہے ہیں ایسا نہیں ہوا، جس پر فیصل چوہدری نے کہا کہ سر جیسے اس بار الیکشن ہوئے ہیں اس طرح بھی کبھی نہیں ہوئے ہیں۔ الیکشن کمیشن نے ریٹرننگ افسران اور بیوروکریسی سے مل کر الیکشن تباہ کردیے۔ کچھ چھوٹے لوگوں نے بڑا پن دکھایا اور شکست کو تسلیم کیا۔
بعد ازاں الیکشن کمیشن نے تمام دلائل مکمل سننے کے بعد کیس کا فیصلہ محفوظ کرلیا۔
[ad_2]
Source link