[ad_1]
حکومت چند روز میں آئندہ مالی سال 2024-25ء کیلئے بجٹ پیش کرنے جا رہی ہے۔
یہ مالی بجٹ کیساہوگا؟ اس کے مختلف پہلوؤں کا جائزہ لینے کیلئے ’’ایکسپریس فورم اسلام آباد‘‘ میں ایک خصوصی مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا۔ جس کی رپورٹ نظر قارئین ہے۔
بختیار احمد
(ممبر پی آر ایف بی آر و ڈائریکٹر جنرل آئی او سی او ایف بی آر)
کسی بھی ملک کی معاشی ترقی کا دارومدار اس کے وسائل پر ہوتا ہے۔ جو ملک مالی طور پر جتنا خودکفیل ہوگا وہ معاشی، سیاسی و سماجی سمیت ہر لحاظ سے اتنا ہی مضبوط و خومختار ہوگا۔
معاشی اور سیاسی خودمختاری کا آپس میں چولی دامن کا ساتھ ہے۔ہماری موجودہ معاشی صورتحال اس کی متقاضی ہے کہ ملک کے اندرونی وسائل بڑھائے جائیں اورملک کو درپیش مالی بحران اور قرضوں کے چنگل سے نکالا جائے۔ کوئی بھی ملک مستقل طور پر قرضوں پر نہیں چل سکتا ہے۔ جب قرضوں کا بوجھ ایسی صورتحال اختیار کرجائے کہ پرانے قرضے چکانے کیلئے نئے قرضے لینا پڑیں ، اندرونی وسائل سے اکٹھا کیا جانے والا ریونیو بھی قرضوں اور قرضوں پر سود کی ادائیگی کی نذر ہوجائے تو پھر آمدنی اور اخراجات میں توازن قائم کرنے کے علاوہ کوئی آپشن نہیں بچتا ہے۔
ایف بی آر ملک کو مالی طور پر خودانحصار بنانے کیلئے کوشاں ہے۔ آج ایف بی آر 9 ہزار ارب روپے سے زائد کی وصولیاں کرنے جارہا ہے اور آئندہ مالی سال کے بجٹ میں ٹیکس وصولی اس سے بھی زیادہ ہوگی۔ اس میں ابھی بہت گنجائش موجود ہے لہٰذا ٹیکس ٹو جی ڈی پی کی شرح اور ٹیکس نیٹ کو وسعت دینے کیلئے حکومت اور ایف بی آر مسلسل کوششیں جاری رکھے ہوئے ہے۔
نان فائلرز کی سمیں بلاک کرنے کے اقدام کے خاطر خواہ نتائج سامنے آناشروع ہوچکے ہیں۔ اب تک ایک لاکھ پانچ ہزار کمپیوٹرائزڈ قومی شناختی کارڈ نمبر رکھنے والے نان فائلرز کی سمیں بلاک کی جاچکی ہیں جن میں سے 19ہزار کے لگ بھگ لوگ انکم ٹیکس ریٹرن جمع کرواچکے ہیں اور جو لوگ ٹیکس ریٹرن جمع کرواتے ہیں انکی سمیں چوبیس گھنٹے میں بحال کردی جاتی ہیں۔ اسی طرح ملک کا رٹیل سیکٹر ایک عرصے سے ٹیکس نیٹ سے باہر ہے جسے ٹیکس نیٹ میں لانے کی کوششیں کامیاب نہ ہوسکی۔ اب ایف بی آر نے تاجر دوست ایپ سکیم متعارف کروائی ہے۔
آغاز میں اس سکیم کے بھی خاطر خواہ نتائج سامنے نہیں آئے لیکن جب ایف بی آر متحرک ہوا اور ملک گیر مہم شروع کی گئی تو بہتر نتائج سامنے آئے۔ اب تک 28 ہزار سے زائد تاجر رجسٹرڈ ہوچکے ہیں اور یہی حکمت عملی آئندہ مالی سال کے بجٹ میں رہے گی۔ بجٹ میں فوکس کیا جائے گا کہ ہر شعبہ اپنی آمدنی کے مطابق ٹیکس میں حصہ ڈالے تاکہ ٹیکس نیٹ کے ساتھ ساتھ ٹیکس ٹو جی ڈی پی کی شرح اور ٹیکس ریونیو بڑھے اور ملک کو خود انحصاری کی طرف لایا جاسکے۔ اس کے علاوہ ایسے اقدامات اور پالیسیاں لائی جائیں گی جن سے ملکی برآمدات بڑھیں ۔
ترسیلات زر کی بینکنگ چینلز کے ذریعے ترسیل کو فروغ دینے کیلئے اقدامات اٹھائے جائیں گے۔ اسی طرح سرمایہ کاری کو فروغ دینے کے حوالے سے بھی فوکس کیا جائے گا۔ ساتھ ہی غیر ضروری اور آسائشی اشیاء کی درآمدات کی حوصلہ شکنی کی جائے گی۔ ملکی انڈسٹری کیلئے ضروری درآمدات کو ترجیح دی جائے گی۔ٹریک اینڈ ٹریس سسٹم اور پوائنٹ سیل سسٹم میں موجود خامیوں کو دور کیا جارہا ہے۔
یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ سگریٹ، سیمنٹ، شوگر، فرٹیلائزر جیسے شعبوں میں ٹریک اینڈ ٹریس سسٹم لاگو کرنا بڑا چیلنج تھا۔ یہ ایسا سسٹم ہے جو صنعتوں میں جاکر انکے سسٹم میں نصب کرنا ہوتا ہے، ہم اس میں کامیاب ہوئے ہیں۔ ٹریک اینڈ ٹریس سسٹم نصب کرنے پر حکومتی خزانے سے کوئی پیسہ خرچ نہیں ہورہا ہے، اس کا سارا بوجھ کمپنیاں خود برداشت کرتی ہیں۔ اسی طرح کسٹمز میں بھی ایف بی آر نے اہم اقدامات اٹھائے ہیں، اگلے بجٹ میں مزید اقدامات متعارف کروائے جائیں گے۔
کسٹمز ڈیپارٹمنٹ نے انسداد سمگلنگ کی مہم کے تحت پہلے 57 ارب جبکہ اس سال 94 ارب 40کروڑ روپے سے زائد کی سمگل شدہ و غیر قانونی اشیاء ضبط کی۔ اسی طرح ملک بھر میں اشیائے ضروریہ کی سمگلنگ کی روک تھام کیلئے بھی کسٹمز حکام، قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ مل کو ششیں جاری رکھے ہوئے ہیں ۔ اسی طرح ٹیکس چوری کی روک تھام کیلئے بھی ایف بی آر نے ٹھوس اقدامات اٹھائے اور ملکی تاریخ کا سب سے بڑا فلائننگ و جعلی انوائسنگ کا کیس پکڑا جس کی مجموعی مالیت 752 ارب روپے سے زائد ہے۔
اس میں 82 فیصدجعلی انوائسزکے کیس پہلی سٹیج پر ہی ریفنڈز و ان پُٹ ٹیکس ایڈجسٹمنٹ سے روک دیئے گئے اور یہ بھی تاریخ میں پہلی مرتبہ ہو اہے کہ 109 ایف آئی آرز درج کی گئی ہیں اور 63 لوگوں کو گرفتار کیا گیا ہے۔ ٹیکس میں دو طرح کی چھوٹ ہے ۔ پہلی قسم وہ ہے جو ملکی معیشت اورانڈسٹری کیلئے ضروری ہے جس کا فائدہ ملک کو ہوتا ہے جبکہ دوسری قسم کسی شخص،شعبے یا ادارے کو فائدہ دیتی ہے، اس سے معیشت کو فائدے کی بجائے نقصان ہوتا ہے۔ آئی ایم ایف کہے یا نہ کہے، اس ٹیکس چھوٹ کا مکمل خاتمہ ہونا چاہیے۔ ایف بی آر بتدریج ٹیکس چھوٹ ختم کررہا ہے جس سے ملکی معیشت کو فائدہ ہوا ہے۔ نان فائلرز کو ٹیکس نیٹ میں لانے کیلئے ایف بی آر کاروائیاں جاری رکھے ہوئے ہے۔
اب ٹیکس قوانین میں نان فائلرز کے خلاف سختیاں کی گئی ہیں۔ اگلے بجٹ میں بھی نان فائلرز کو ٹیکس نیٹ میں لانے کیلئے مزید اقدامات اٹھائے جائیں گے۔پہلے مرحلے میں ساڑھے پانچ لاکھ نان فائلرز کی سمیں بلاک کرنے کے اقدامات اٹھائے جارہے ہیں جن میں سے ایک لاکھ پانچ ہزار کی سمیں بلاک کی جاچکی ہیں۔ سیکشن 114 بی کے تحت ایف بی آر کے پاس بہت سے اختیارات ہیں، ہم نے ابھی تک نرمی رکھے ہوئے ہیں۔ اگر سیاسی تعاون جاری رہتا ہے تو نان فائلرز کے بجلی اور گیس کے کنکشن بھی منقطع کئے جاسکتے ہیں۔
ہمارے پاس ٹیکس نیٹ،ٹیکس ٹو جی ڈی پی کی شرح اور ٹیکس ریونیو بڑھانے کے سواء کوئی دوسرا ٓپشن نہیں ہے۔ ایف بی آر کے افسران و اہلکاروں کی بدعنوانی پر زیروٹالرنس کی پالیسی ہے۔ کچھ عرصہ قبل ایف بی آر کے گریڈ 21 اور 22 کے افسران کو او ایس ڈی بنایا گیا ، بدعنوانی اور کرپشن کے ایک کیس میں گریڈ 21کے ایک افسر کے خلاف کارروائی کی گئی، لاہور میں ٹیکس ریفنڈ کے ایک کیس میں چار افسران کے خلاف کارروائی کی گئی۔ ایف بی آر میں خوداحتسابی کا مضبوط نظام موجود ہے۔
ٹیکس نظام کی ڈیجیٹائزیشن اور آٹومیشن کے حوالے سے مکینزی کے ساتھ معاہدہ بھی ہوچکا ہے جس پر عملدرآمد کیلئے کمیٹی قائم کی جاچکی ہے جو کام کر رہی ہے۔ حال ہی میں بیلجیئم میں ہونے والی کانفرنس میں پاکستان کی آٹومیشن پالیسی کو سراہا گیا ہے اور پاکستان کے سنگل ونڈو پروگرام کو دنیا کے ٹاپ تھری میں شمار کیاگیا۔ایف بی آر کو کرپشن سے پاک کرنے کیلئے آٹومیشن پر فوکس کیا جارہا ہے تاکہ ٹیکس دہند گان اور ٹیکس حکام کے درمیان براہ راست رابطے کم ہوسکیں ۔
عاطف اکرام شیخ
(صدر فیڈریشن آف پاکستان چیمبرزآف کامرس اینڈ انڈسٹریز)
ہر سال بجٹ کے موقع پر حکومت فیڈریشن، بزنس چیمبرز اور تاجر تنظیموں سے بجٹ تجاویز مانگتی ہے مگر انہیں بجٹ میں شامل نہیں کیاجاتا، یہی وجہ ہے کہ بجٹ میں متعارف کروائی گئی پالیسیوں کے ثمرات نہیں آتے۔ اگر حکومت زمینی حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے سٹیک ہولڈرز کی مشاورت سے بجٹ سازی کرے تو یہ سود مند ثابت ہوگا۔
ایف پی سی سی آئی نے حکومت کو تجویز دی ہے کہ معاشی چیلنجز کا بھرپور ادراک کرتے ہوئے سرمایہ کاری اور پائیدار ترقی کے لیے سازگار ماحول پیدا کیا جائے اور اگلے مالی سال کیلئے عوام ،تاجر دوست اور ترقی پر مبنی بجٹ پیش کیا جائے۔ حکومت آئی ایم ایف اور عالمی بینک کی شرائط پورا کرنے کیلئے جو اقدامات اٹھاتی ہے وہ ملکی مفاد میں اقتصادی ترقی اور ریونیو گروتھ کیلئے خود سے اٹھانے چاہئیں تاکہ ہمیں آئی ایم ایف کی ضرورت ہی پیش نہ آئے۔ یہ صرف اس وقت ہوسکتا ہے جب ہم اپنے غیر ضروری اخراجات کنٹرول اور آمدنی کو بڑھائیں ۔
اس کیلئے کاروبار اور صنعتکاری کو فروغ دینا بے حد ضروری ہے۔اس کے لیے کاروباری اور پیداواری لاگت میں کمی لاکرملکی برآمدات کو بین الاقوامی منڈیوں میں رائج قیمتوں کا مقابلہ کرنے کے قابل بنایا جائے۔ توانائی بحران پر قابو پانے کے ساتھ ساتھ اس کی قیمتوں میں کمی لانا بھی ضروری ہے۔ ٹیکس نظام کو صاف و شفاف اور منصفانہ بنانے کی ضرور ت ہے۔ ٹیکس پالیسیوں کو معقول بنا کر، ٹیکس کی بنیادی کو وسعت دے کر ٹیکس کا بوجھ مساوی طور پر تقسیم کیا جائے تاکہ اقتصادی ترقی ممکن ہوسکے۔ برآمدی محصولات میں جمود پاکستان کی معیشت کے لیے مستقل تشویش کا باعث رہا ہے لہٰذا ملکی برآمدات بڑھانے کے لیے ماضی کی طرح ایک بار پھر ایکسپورٹ فیسیلی ٹیشن سکیم متعارف کروائی جائے ۔
ایف بی ا ٓر اور انجینئرنگ ڈویلپمنٹ بورڈ سے متعلق تاجر و صنعتکاروں کو دررپیش مسائل حل کرنے کی ضرورت ہے۔ ملک میں سرمایہ کاری کے فروغ کیلئے حقیقی معنوں میں ون ونڈو آپریشن کی سہولیات فراہم کی جائیں۔ انکم ٹیکس آرڈیننس 2001ء کی شق 7 (ای )کو غیرمنطقی اور غیر منصفانہ ہونے کی وجہ سے ختم کیا جائے کیونکہ غیر منقولہ جائیدادوں کی فرضی آمدنی پراس کے نفاذ سے ٹیکس وصولی میں کوئی خاطرخواہ اضافہ نہیں ہو بلکہ الٹا رئیل اسٹیٹ سیکٹر میں افراتفری اور عدم اطمینان پیدا کیا ہے۔
حکومت کو علاقائی ممالک کی طرح یہاں بھی رئیل اسٹیٹ ریگولیٹری اتھارٹی قائم کرنی چاہیے، اتھارٹی کا قیام اس سیکٹر کے اسٹیک ہولڈرز کی مشاورت سے کیا جانا چاہیے۔ سندھ حکومت درآمدی مرحلے پر 1.25 فیصد پر انفراسٹرکچر سیس وصول کرتی ہے جو تقریباً 225 ارب روپے سالانہ بنتے ہیں۔اصولی طور پر، اس سیس کا بڑا حصہ کراچی کے انفراسٹر کچر کی ترقی اور دیکھ بھال پر خرچ کیا جانا چاہیے۔
اگر ایسا ہو تو کراچی کا رئیل اسٹیٹ سیکٹر بہتر حالت میں آجا ئے گا اور اس کی مارکیٹ میں بھی تیزی اور بہتری آئے گی۔ رئیل اسٹیٹ سیکٹر ترسیلات زر کی صورت میں ملک میں زیادہ زرمبادلہ لانے میں بہت مدد کر سکتا ہے۔
اس شعبے کو اوور سیز پاکستانیوں کی جانب سے سرمایہ کاری کرنے کے لیے راغب کرنے کو اپنا اولین ایجنڈا بنانا چاہیے کیونکہ یہ امر روپے اور ڈالر کی شرح کو مستحکم کرنے اور زرمبادلہ کے ذخائرمیں اضافے کے ذریعے معیشت کو بھی مدد دے گا۔ کوئی بھی شعبہ جو بیرونِ ملک سے ترسیلاتِ زر بڑھانے میں اپنا حصہ ڈال سکتا ہے اسے قومی مفاد میں سہولت دینی چاہیے اور حوصلہ افزائی کرنی چاہیے۔ حکومت ایسے اقدامات کرے کہ بیرون ملک مقیم پاکستانی دوسرے ممالک کی رئیل اسٹیٹ میں سرمایہ کاری کرنے کے بجائے اپنے ملک میں سرمایہ کاری کرنے کے لیے راغب ہوں اور حکومت ان کا خیرمقدم کرے۔
ڈاکٹر انور شاہ
(اکانومسٹ، سکول آف اکنامکس قائد اعظم یونیورسٹی اسلام آباد)
اگر ہم پچھلے سال کی بجٹ کا تجزیہ کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ وفاقی حکومت کا سب سے بڑا خرچ اخراجات جاریہ میں قرضوں پر سود کی ادائیگی ہے۔ رواں مالی سال-2023 24 ء کے بجٹ میں سود کی مد میں 7 ہزار 303 ارب روپے رکھے گئے تھے جو بجٹ کا 50 فیصد سے زائد ہے، 2022ء میں یہ 3ہزار 950 ارب روپے تھا یعنی ایک سال میں یہ 3 ہزار 353 ارب روپے کا اضافہ ہے جو 84 فیصد بنتا ہے۔
مالی سال -2021 22ء میں سود کی مد میں 3 ہزار 60 روپے رکھے گئے تھے۔ ایسے میں حکومت کو سب سے پہلے پارلیمنٹ کی مختلف کمیٹیوں کی جانب سے تیار کی جانیوالی رپورٹس پر عملدرآمد کرنا چاہیے۔ اس حوالے سے موجود دو رپورٹس میں ہے کہ ہمیں قرضوں اور قرضوں پر سود سے نجات حاصل کرنے کے لیے اقدامات اٹھانے چاہئیں۔ اس کیلئے ضروری ہے کہ ہم اپنے قرضوں کو روکیںاور غیر پیداواری و غیر ضروری اخراجات کو کم کر یں۔ قرضوں کو ری شیڈول کیا جائے اور ان کا کم کرنے کیلئے ملکی وسائل بڑھائے جائیں۔
برآمدات و سرمایہ کاری میں اضافے کے ساتھ ساتھ ترسیلات زر بڑھائی جائیں، درآمدی بل کم کیا جائے۔ اس کیلئے ضروری ہے کہ اشیائے تعیشات کی درآمدات کی حوصلہ شکنی کی جائے اور ملک میں مقامی انڈسٹری کو تحفظ دینے کے ساتھ ساتھ مینوفیکچرنگ کو فروغ دیا جائے، خام مال کی درآمد کیلئے سہولیات دی جائیں، نئی صنعتوں کے قیام کیلئے طویل المیعاد پالیسی متعارف کرائی جائے، خصوصی طور پر سمال اینڈ میڈیم انٹرپرائزز سیکٹر کو فروغ دیا جائے، اس سے روزگار کے مواقع بھی پیدا ہونگے اور اضافی ریونیو بھی حاصل ہوسکے گا۔ ایک اور اہم نقطہ اٹھارویں ترمیم کے نتیجے میں صوبائی خود مختاری ہے۔ این ایف سی ایوارڈ سے حاصل ہونیوالی آمدنی سے وفاق، صوبوں کو حصہ فراہم کرتا ہے۔
اس کے بعد جو رقم بچتی ہے اس سے تو سود کی ادائیگیاں بھی پوری نہیں ہوتی لہٰذا تجویز ہے کہ صوبوں پر بھی قرضوں کے بوجھ کا حصہ ڈالا جائے، اس کے بغیر وفاق رضوں کے بوجھ تلے دبتا جائے گا اوروفاقی بجٹ عدم توازن کا شکار رہے گا۔ پارلیمنٹ اس کا جائزہ لے اور آمدنی کی تقسیم کو منصفانہ بنائے، اس کے علاوہ صوبوں کو آمدنی کے ساتھ ساتھ اخراجات میں بھی حصہ دار بنائے تاکہ وفاق اور صوبے مل کر قرضوں کے بوجھ سے چھٹکارا پاسکیں۔ اسی طرح ریونیو کے حوالے سے بھی وفاق اور صوبوں کو ایک صفحے پر ہونے کی ضرورت ہے۔
ایک طرف اخراجات کا بوجھ کم کیا جائے تو دوسری جانب ریونیو بڑھایا جائے اور اس میں بھی صوبے اپنے حصے کا کردار ادا کریں۔ خاص کر زرعی شعبے سے پورا ٹیکس اکٹھا کیا جائے، اسی طرح ملکی معیشت کو دستاویز ی بنانے کیلئے بھی وفاق اور صوبے مل کر کام کریں، اس سے ریونیو بڑھے گا اور مسائل کم ہونگے۔ عوام کو مہنگائی کے بوجھ سے چھٹکارا دلانا بھی حکومت کیلئے ایک بڑا چیلنج ہے۔ اس کیلئے ضروری ہے کہ تمام طبقات کو ٹیکس نیٹ میں لایا جائے اور کسی کو بھی ٹیکس سے غیر ضروری چھوٹ نہیں ہونی چاہیے۔ اسی طرح جن ملازمین و افسران کو مفت بجلی،گیس اور ٹیلی فون کی سہولیات میسر ہیں، انہیں فوری طور پر ختم کرنے کی ضرورت ہے، بچنے والی رقم سے عوام کو ریلیف دینا ہوگا۔
ان ڈائریکٹ ٹیکسوں سے اجتناب کیا جائے اور ڈائریکٹ ٹیکس پر انحصار بڑھایا جائے جس کیلئے ضروری ہے کہ ٹیکس ٹو جی ڈی پی کی شرح بڑھائی جائے اور نئے لوگوں کو ٹیکس نیٹ میں شامل کیا جائے۔ قومی خزانے پر بوجھ بننے والے سفید ہاتھیوں سے بھی چھٹکارا حاصل کیا جائے اورخسارے کے شکار اداروں کی نجکاری کی جائے۔
درآمدات کو کم کرنے کے لیے ملک میں معیاری پراڈکٹس بنانے پر توجہ دی جائے، اس کیلئے ہیومن ڈیویلپمنٹ پر کام کرنے کی ضرورت ہے لہٰذا اعلی تعلیم کے لیے مختص بجٹ میں اضافہ کیا جائے۔اگر یہ لوگ ملک میں کام کریں گے تو نئی پیداوار ہوگی اور اگر بیرون ملک جاتے ہیں تو وہاں سے پیسہ پاکستان بھیجیں گے جس سے معاشی طور پر فائدہ ہوگا۔ اسی طرح زراعت کے حوالے سے حکومت کو اپنی پالیسیوں میں تسلسل رکھنا چاہیے۔ کسانوں کو یہ پیغام نہیں جانا چاہیے کہ حکومت کی پالیسیاں غیر یقینی ہیں،جس طرح کی گندم کی حوالے سے غیر یقینی صورتحال پیدا ہوئی، ایسا نہیں ہونا چاہیے۔
شیخ عبدالوحید
(سابق چیئرمین ایف پی سی سی آئی وسابق وائس چیئرمین پاکستان وناسپتی ایسوسی ایشن)
آنے والا بجٹ پاکستان کی تاریخ میں کسی بھی حکومت کی طرف سے وضع کردہ سب سے مشکل بجٹ ہوگا۔ اس سال اقتصادی ریکوری کا بجٹ دینا مشکل ہوگا کیونکہ پاکستان آئی ایم ایف سے ایک اور پروگرام لینے جارہا ہے لہٰذا یہ بجٹ آئی ایم ایف کی شرائط کے تناظر میں بنے گا البتہ خوش آئند بات یہ ہے کہ اقتصادی اشاریئے بہتر ہورہے ہیں اور مہنگائی کا گراف بھی نیچے آرہا ہے جس سے حکومت کو کسی حد تک عوامی تنقید و عتاب سے ریلیف ملے گا۔ اس کے باوجود مشکل حالات میں متوازن بجٹ دینا مشکل ہے۔
اس بجٹ میں زیادہ توجہ ریلیف پیکیج اور سماجی تحفظ کے پروگراموں پر ہونی چاہیے کیونکہ یہ شارٹ ٹرم اقدامات ہیں جو فوری طور پر ریلیف دینے کیلئے ضروری ہیں۔ اگلے مالی سال کے بجٹ میں ہر قسم کی آمدنی پر ٹیکس لگایا جائے اور پہلے سے ٹیکس نیٹ میں شامل لوگوں پر مزید بوجھ ڈالنے کی بجائے نئے ٹیکس پیئرز تلاش کئے جائیں۔ اس کیلئے آٹومیشن اور جدید ٹیکنالوجی کے ا ستعمال کو فروغ دیا جائے۔
پاکستان سیاسی طور پر غیر مستحکم ہے جو معیشت کیلئے انتہائی نقصاندہ ہے۔ اس کیلئے تمام سیاسی جماعتوں کو مل بیٹھ کر لائحہ عمل بنانا ہوگا اور سیاسی مفادات کو ایک طرف رکھ کر میثاق معیشت کرنا ہوگا۔ اس کے تحت پارلیمنٹ 15 سے25 سال کا طویل المیعاد معاشی پلان دے اور اس پر عملدرآمد کی یقین دہانی کرائے۔ آئندہ مالی سال 2024-25ء کے وفاقی بجٹ میں بینک اکاؤنٹس کھولنے اور جائیداد کی خرید و فروخت کے لیے این ٹی این کو لازمی قرار دیا جائے۔ این ٹی این نہ رکھنے والے ریٹیلرز کو سپلائی روکنے، ٹیکس نیٹ کو وسیع کرنے کیلئے بزنس کمیونٹی سے مشاورت کیلئے ضلعی سطح پر مشترکہ کمیٹیوں کا قیام عمل میں لایا جائے۔ ٹیکس چوری میں ملوث افراداور عناصر کیخلاف سزا اور جزا کا قانون لاگو کرنے کی ضرورت ہے۔
سرمایہ کاروں کو راغب کرنے کیلئے انویسٹرز کو مراعات اور بجٹ میں تاریخی پیکیج دیا جائے۔ بینک اکاونٹ کھولنے، املاک اور گاڑیوں کی خریدوفروخت کیلئے این ٹی این لازمی قرار دیا جائے۔ معیشت میں نقد رقوم کی حوصلہ شکنی کرتے ہوئے مکمل طور پر دستاویزی شکل دی جائے۔ برآمدات میں اضافے کیلئے توانائی کی قیمتوں کو کم کرتے ہوئے صنعتی ایمرجنسی ڈکلیئر کی جائے، پیداواری لاگت کو کم کرنے کیلئے توانائی کی قیمتوں کو خطے کے دیگر ممالک کے برابر لایا جائے۔ ملک میں بڑے ٹیکس دہندگان اور کاروباری شخصیات اعلیٰ سطح پر قومی ایوارڈز سے نوازا جائے اور رول ماڈل کا درجہ دیا جائے۔ سالانہ اربوں روپے کے خسارے کا شکار حکومتی اداروں کی نجکاری کا عمل تیز کیا جائے۔
ایف بی آر میں اصلاحات کے عمل کو تیز، ٹریک اینڈ ٹریس سسٹم کے نفاذ کو یقینی بنایا جائے۔ بلند شرح سود کاروباری سرگرمیوں کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہے، کم کر کے سنگل ڈیجٹ میں لایا جائے۔ معاشی بحالی کے سفر کوپائیدار ترقی تک لیجانے کیلئے نجکاری، برآمدات میں فروغ جیسے اقدامات ناگزیر ہیں۔ ٹیکس نظام میں اصلاحات،نئے قوانین کے نفاذ کیلئے بزنس کمیونٹی کی تجاویز کو اہمیت دینے کی ضرورت ہے۔
احسن ملک
(ریئل اسٹیٹ تجزیہ کار)
گزشتہ چند برسوں سے ملک کو معاشی چیلنجز کا سامنا ہے جس کے نتیجے میں رئیل اسٹیٹ سیکٹر جو کہ ملک کی معاشی ترقی میں کردار ادا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے مکمل طور پر دم توڑ گیا ہے جس کی بنیادی وجہ رئیل اسٹیٹ سیکٹر میں حکومت کا عدم اعتماد ہے، وہ اسے غیر پیداواری شعبہ سمجھتی ہے۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ پالیسی سازی کے وقت پیشہ ور افراد اور رئیل اسٹیٹ سیکٹر کے حقیقی نمائندوں کو آن بورڈ نہیں لیا جاتا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ رئیل اسٹیٹ سیکٹر زیادہ تر غیر دستاویزی ہے لہٰذا ترقی کو نقصان پہنچائے بغیر ریونیو کی حقیقی صلاحیت سے فائدہ اٹھانے کے لیے اقدامات کیے جانے چاہئیں۔ ملک بھر میں رئیل اسٹیٹ ٹیکس میں یکسانیت اور تشخیص کے طریقہ کار پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ تمام محکموں کو اپنا ریئل ٹائم ڈیٹا عوام کے لیے شیئر کرنا چاہیے۔ خاص طور پر ایف بی آر، بی او آر دفاتر اور ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن ڈیپارٹمنٹس کو گزشتہ 03 سالوں کے مقابلے کے اعداد و شمار اور لین دین کی تعداد کا اعلان کرنا چاہیے۔
حکومت کو پروگریسو ٹیکسیشن کی طرف نہیں جانا چاہیے، ٹیکس کی شرح کو بڑھانے کے بجائے انہیں ویلیوایشن ٹیبل پر کام کرنا چاہیے۔ جائیداد کی فروخت پر سیکشن 236 سی کے تحت عائدتین فیصد انکم ٹیکس ختم کیا جانا چاہیے اور جائیداد کی منتقلی کے وقت سیکشن 37 کے تحت 6 فیصد فلیٹ ریٹ کیپٹل گین ٹیکس کے طور پر وصول کیاجانا چاہیے، اس سے مارکیٹ پر مثبت اثرات ہونگے، اضافی آمدنی پیدا کرنے میں مدد ملے گی۔ ڈویلپرز اور بلڈرزپر فروخت پر ایک فیصد ایڈوانس انکم ٹیکس لاگو ہونا چاہیے تاکہ تمام لین دین دستاویزی ہو اور اس سے زیادہ فروخت کو روکنے میں مدد ملے ۔
نان فائلرز کی جانب سے غیر منقولہ جائیدادوں کی خریداری پرسیکشن 236 کے کے تحت عائد کردہ ساڑھے دس فیصد ایڈوانس ٹیکس کو کم کرکے چھ فیصد کیا جائے لیکن ساتھ ہی نان فائلرز بیواؤں کو فائلر کا خصوصی درجہ دیا جانا چاہیے۔ نان فائلرز کے لیے کیپٹل گین ایف بی آر ویلیو کا 8 فیصد ہونا چاہیے جو رجسٹریشن حکام کو جمع کرایا جائے۔ اس کے علاوہ نائکوپ ہولڈر اور غیر ملکی پاسپورٹ ہولڈر (اوورسیز پاکستانیوں کے لیے) کی جائیدادوں کی خریداری پر کوئی انکم ٹیکس وصول نہیں کیا جانا چاہیے۔
[ad_2]
Source link