[ad_1]
اسلام آباد: حکومت نے تنخواہ دار افراد اور برآمد کنندگان کے لیے انکم ٹیکس کی شرح میں مجوزہ اضافے کو جزوی طور پر تبدیل کرنے کا جائزہ لینے اور بچوں کے دودھ کی فروخت پر 18 فیصد مجوزہ سیلز ٹیکس کو مرحلہ وار نافذ کرنے کے لیے مشاورت شروع کر دی۔
اندرونی مشاورت حکومت کی جانب سے مجوزہ 1.5 ٹریلین روپے کے مجوزہ اضافی ریونیو اقدامات سے متاثر ہونے والے معاشرے کے تمام طبقات اور کاروبار کی تنقید کے بعد کی جا رہی ہے لیکن مشاورت کے نتائج کا انحصار مالیاتی گنجائش اور بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کی رضامندی سے ہوگا۔
مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے بنیادی مالیاتی سرپلس ظاہر کرنے کے لیے بجٹ میں بھاری ٹیکس عائد کیے ہیں لیکن اس نے اخراجات کو کم کر کے وزارتوں کی تعداد اور اخراجات کو محدود کرنے کے دوسرے آپشن کا انتخاب نہیں کیا ۔ آئندہ مالی سال کے لیے 18.9 ٹریلین روپے کا مجوزہ بجٹ اس مالی سال کے مقابلے میں 30 فیصد زیادہ ہے۔جواس بات کا اشارہ ہے کہ حکمران جماعت ایسا راستہ اختیار کرنے کو تیار نہیں جس سے اس کے اتحادی ناراض ہوں۔
ذرائع نے ایکسپریس ٹریبیون کو بتایا کہ وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے تنخواہ دار طبقے پر ٹیکس لگانے کا معاملہ وزیراعظم شہباز شریف کے ساتھ اٹھایا ہے۔ ٹیکسوں کے بوجھ تلے زیادہ دبنے والے تنخواہ دار طبقے کی جانب سے اس سال 360 ارب روپے ادا کرنے کے باوجود حکومت نے اگلے مالی سال میں اضافی 75 ارب روپے حاصل کرنے کے لیے اضافی عائد کرنے کی تجویز ہے جبکہ صنعت کاروں پر بجلی کی قیمت کا بوجھ 240 ارب روپے کم کرنے کے باوجود وزیر اعظم کو برآمد کنندگان سے سٹینڈرڈ انکم ٹیکس کی شرح وصول کرنے کے فیصلے کو واپس لینے کے لیے دباؤ کا سامنا ہے۔
برآمد کنندگان سے انکم ٹیکس مقررہ ایک فیصد وصول کی شرح سے وصول کرنے کے بجائے اسے بتدریج بڑھانے کی تجویز ہے۔ رواں مالی سال کے پہلے 11 ماہ کے دوران برآمد کنندگان نے 85.5 ارب روپے کی معمولی رقم ادا کی جو جون کے آخر تک بڑھ کر 100 ارب روپے تک ہونے کا امکان ہے۔ اس وقت جب حکومت نے معاشرے کے تقریباً ہر طبقے خاص طور پر تنخواہ دار طبقے اور غریب افراد سمیت تمام افراد کے زیر استعمال اشیا پر بے جا بھاری ٹیکس لگا کر متاثر کیا ہے، ایکسپورٹرز کو انکم ٹیکس میں ریلیف کا اچھا تاثر نہیں جائے گا۔
پیپلز پارٹی کے سینیٹر اور سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کے چیئرمین سلیم مانڈوی والا نے کہا کہ ہماری جماعت تنخواہ دار افراد اور برآمد کنندگان پر انکم ٹیکس کے بوجھ میں اضافے کے خلاف ہے۔ قائمہ کمیٹی حکومت کی ان دونوں تجاویز کو مسترد کر دے گی۔ علاوہ ازیں قائمہ کمیٹی نے ہفتے کے روز حکومت سے سفارش کی کہ وہ بچوں کے دودھ پر 18 فیصد سیلز ٹیکس لگانے کی اپنی بجٹ تجویز پر نظرثانی کرے۔
چیئرمین ایف بی آر ملک امجد زبیر ٹوانہ نے کہا کہ ہم نے 18 فیصد سیلز ٹیکس لگانے کی جو تجویز دی ہے اس کو کم کرنے کے معاملے پر وزیر خزانہ سے بات کریں گے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ حکومت نے پہلے ہی ایف بی آر کو آگاہ کر دیا ہے کہ وہ بچوں کے دودھ پر ایک بار میں 18 فیصد سیلز ٹیکس عائد کرنے کے بجائے اس کا مرحلہ وار نفاذ کرے۔
نیسلے پاکستان کے ایکسٹرنل امور کے سربراہ شیخ وقار احمد نے کہا کہ حکومت نے بجٹ میں تجویز دی ہے کہ آئندہ مالی سال میں 20 ارب روپے کے اضافی ٹیکسوں کی وصولی کے لیے بچوں کے دودھ کی فروخت پر دستیاب زیرو ریٹنگ کی سہولت واپس لے لی جائے۔ ان کا کہنا تھا کہ اضافی سیلز ٹیکس سپلائیز پر 2.5 فیصد نیا ایڈوانس انکم ٹیکس شامل کرنے کے بعد بچوں کے دودھ پر جی ایس ٹی 18 فیصد نہیںبلکہ تقریباً 25 فیصد ہو جائے گی۔
ن لیگ کی سینیٹر انوشہ رحمان نے کہا کہ بچوں کے دودھ کی قیمتوں میں اچانک 25 فیصد اضافہ عوام کے لیے پریشان کن ہوگا لہٰذا سیلز ٹیکس میں بتدریج اضافہ کیا جائے۔
واضح رہے حکومت نے مزید 75 ارب روپے ٹیکس جمع کرنے کیلیے ڈبے کے دودھ پر 18 فیصد جی ایس ٹی عائد کرنے کی تجویز دی ہے۔ اس سے ایک لٹر دودھ کی قیمت 290 روپے فی لٹر سے بڑھ کر 342 روپے ہو جائے گی۔
قائمہ کمیٹی نے پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائنز کو اگلے 10 سال کے لیے خسارے کو ایڈجسٹ کرنے کی اجازت دینے کی بجٹ تجویز کی توثیق کردی ہے۔
تحریک انصاف کے سینیٹر محسن عزیز نے پی آئی اے کے لیے خصوصی استثنیٰ کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ حکومت پی آئی اے کے ممکنہ خریداروں کو پوشیدہ مراعات دے رہی ہے جنہیں ماضی کے نقصانات کے خلاف مستقبل کے منافع کو ایڈجسٹ کرنے کی سہولت کی وجہ سے انکم ٹیکس ادا کرنے کی ضرورت نہیں ہوگی۔
کمیٹی نے انکم ٹیکس گوشوارے جمع نہ کرانے نان فائلرز کے بیرون ملک سفر پر پابندی عائد کرنے کی حکومتی تجویز کی بھی توثیق کر دی۔
چیئرمین ایف بی آر نے واضح کیا کہ ہر نان فائلر پر غیر ملکی سفر پر پابندی نہیں ہوگی اس کا اطلاق صرف ان لوگوں پر ہوگا جنہیں سالانہ گوشوارے جمع کرانے کے لیے نوٹس جاری کیے گئے ہیں۔
قائمہ کمیٹی نے حکومت کی جانب سے انکم ٹیکس گوشوارے جمع کرانے میں تاخیر کی ایک نئی کیٹیگری متعارف کرانے اور ان سے زیادہ ٹیکس وصول کرنے کی تجویز پر اعتراض کیا۔
سینیٹر مانڈوی والا نے کہا کہ لیٹ فائلرز کا تصور متعارف کروا کر، حکومت نان فائلرز کے لیے یہ کہہ کر راستہ تھوڑا تنگ کر رہی ہے کہ آپ فائلرز کی قیمت سے زیادہ لیکن پھر بھی نان فائلرز کی قیمت سے کم ادا کر کے ایک بڑا اثاثہ خرید سکتے ہیں۔ بجٹ میں حکومت نے فائلز، لیٹ فائلرز اور نان فائلرز کے لیے تین مختلف انکم ٹیکس کی شرح متعارف کرائی ہے جس میں نان فائلرز کے لیے شرح سب سے زیادہ ہے۔
[ad_2]
Source link