[ad_1]
اسلام آباد: سینیٹر فیصل واوڈا نے سپریم کورٹ میں توہین عدالت کیس ختم ہونے پر احاطہ عدالت میں سجدہ کیا۔
سپریم کورٹ نے آج سینیٹر فیصل واوڈا اور مصطفیٰ کمال کے غیر مشروط معافی نامے قبول کیے، عدالت نے دونوں اراکین پارلیمنٹ کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی ختم کر دی۔
عدالت نے جاری کیے گئے شوکاز نوٹس واپس لیتے ہوئے قرار دیا کہ آئندہ ایسے بیانات دیے گئے تو غیر مشروط معافی نامے بھی قبول نہیں کریں گے۔
دوران سماعت چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیے کہ ہم پارلیمنٹ کا احترام کرتے ہیں، ہمیں توقع ہے زیادہ نہیں تو تھوڑا بہت احترام عدلیہ کا بطور ادارہ بھی کیا جائے گا۔
سینیٹر فیصل واوڈا نے شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا ایک جج نے مجھے پراکسی کہا جس کے سبب میں بہت کرب سے گزرا ہوں، بھارت نے میرے خلاف بیان کو بہت اچھالا۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ اگر آپ پہلی بات نہ کرتے تو دوسری بات بھی نہ ہوتی، میں ذاتی طور پر توہین عدالت کی کارروائی کے حق میں نہیں ہوں، میں نے توہین عدالت کا یہ نوٹس ایک ساتھی جج کے کہنے پر لیا، مجھے چوک میں کھڑا کرکے گولی مارنے کے بیانات دیے گئے لیکن میں نے وہاں بھی خود کوئی کارروائی نہیں کی۔
دوران سماعت، اٹارنی جنرل نے بتایا کہ پی ٹی آئی رہنما رؤف حسن نے بھی چیف جسٹس پاکستان اور چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ کے خلاف پریس کانفرنس کی۔ چیف جسٹس پاکستان نے پوچھا پریس کانفرنس میں کیا کہا گیا؟ اٹارنی جنرل بولے عدالتی کارروائی کی براہ راست نشریات دکھائی جا رہی ہے میں وہ الفاظ دوبارہ دہرا بھی نہیں سکتا۔ چیف جسٹس پاکستان نے کہا میں توہین عدالت کی کارروائی کے حق میں نہیں آپ آگے بڑھیں۔
بعد ازاں، سپریم کورٹ نے دونوں اراکین پارلیمنٹ کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی ختم کر دی۔
[ad_2]
Source link