[ad_1]
کراچی: آل پاکستان ٹیکسٹائل ملز ایسوسی ایشن نے مہنگائی کے تناسب سے شرح سود 12 تا 13فیصد کرنے اور نئی صنعتیں قائم کرکے طلب سے زائد آئی پی پیز کی فاضل بجلی کو استعمال کرنے کی تجویز دیدی ہے۔
جمعرات کو اپٹما کے چئیرمین ساوتھ زون زاہد مظہر نے سابق چیئرمین یاسین صدیق، امان اللہ قاسم ودیگر کے ہمراہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ بلند پاور ٹیرف، شرح سود کی وجہ سے 30فیصد سے زائد صنعتیں بند ہوچکی ہیں۔ صنعتیں بند ہوکر گودام میں تبدیل ہورہے ہیں جبکہ متعدد صنعتوں نے اپنی پیداواری صلاحیت گھٹا کر 30 سے 50فیصد کردی ہے۔
انہوں نے کہا کہ دگرگوں معیشت کی وجہ سے ٹیکسٹائل سیکٹر شدید مشکلات سے گزررہا ہے۔ ٹیکسٹائل انڈسٹری ملکی برآمدات میں 60فیصد اور جی ڈی پی میں 12 فیصد حصہ ہے۔ مالی سال 2021-22 میں 31ارب 78کروڑ ڈالر کی برآمدات اپنی سطح پر تھیں جس میں سے ٹیکسٹائل کی برآمدات 19.33ارب ڈالر ریکارڈ کی گئی تھی۔ مالی سال 2022-23 میں ٹیکسٹائل کی برآمدات گھٹ کر 16.50ارب ڈالر رہی تھی۔ مالی سال 2023-24 میں ملکی مجموعی برآمدات 30.67 ارب ڈالر رہی ہے۔ وزیر اعظم نے ملکی برآمدات اگلے تین سال میں 60ارب ڈالر لے جانے کا ہدف رکھا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ٹیکسٹائل سیکٹر کی برآمدات پچھلے تین سال سے مسلسل گھٹ رہی ہے جبکہ پیداواری لاگت بڑھتی چلی جارہی ہیں۔ فیصلہ سازوں نے یہ نہیں دیکھا کہ انکے فیصلوں کے کیا اثرات ہوئے۔ ایکسپورٹ سیکٹر قیمت زرمبادلہ کما کر لاتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان پر بیرونی قرضوں کا بوجھ 125ارب ڈالر سے زائد ہے جسکی وجہ سے پاکستان کو سالانہ 25ارب ڈالر کی ادائیگیاں بھی کرنی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کی مجموعی برآمدات 30 ارب ڈالر رہ گئی ہے۔ بڑھتے ہوئے تجارتی خسارے میں کمی کے لئے کچھ نہیں کیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ یہ آئی ایم ایف کے ساتھ 25 واں قرض پروگرام حاصل کررہے ہیں۔ آئی ایم ایف کے پاس جانے سے مہنگائی کے بڑھتے بوجھ، سود کی شرح میں اضافے مہنگائی سمیت دیگر مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ حکومت اگر اسٹیک ہولڈرز کی مشاورت سے ایکسپورٹ فرینڈلی پالیسی بنائے تو برآمدات بڑھائی جاسکتی ہے۔ دو سال قبل ٹیکسٹائل برآمدات 12ارب ڈالر سے بڑھا کر 20ارب ڈالر تک پہنچ گئی تھی لیکن اب ٹیکسٹائل سیکٹر کی برآمدات گھٹ کر 16ارب ڈالر رہگئی ہے۔ بنگلہ دیشی ٹیکسٹائل کی برآمدات ایکسپورٹ فرینڈلی پالیسی کی وجہ سے بڑھ رہی ہے۔ بنگلہ دیش میں لاگت پاکستان سے کم ہے جبکہ پاکستان میں پیداواری لاگت خطے کے حریف ممالک سے دگنی ہوچکی ہے۔ اسٹیٹ بینک نے دو بار صرف شرح سود 2فیصد کم کی ہے۔ ابھی بھی شرح سود 19.50 فیصد پر ہے جو زیادہ ہے۔ اگر پالیسی ایسی رہیں گے تو برآمدات نہیں بڑھ سکتی، نئی انڈسٹری لگنے کے بجائے بند ہوئی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ بجلی مہنگی ہونے کی وجہ آئی پی پیز ہیں۔ آئی پی پیز کے کپیسیٹی چارجز اب 2 ہزار ارب روپے ادائیگی کی جارہی ہے۔ اگر بجلی بنانے کی صلاحیت زیادہ ہے تو انڈسٹری بھی زیادہ لگانی چائیے۔ ملک میں 43ہزار میگاواٹ بجلی کی پیداواری صلاحیت کی ہے جبکہ استعمال صرف 23 ہزار میگا واٹ بجلی سپلائی کی جارہی ہے۔
زاہد مظہر نے کہا کہ اپٹما سرپرست اعلی حکومت سے آئی پی پیز کے معاہدے ازسر نو جائزہ لینے کا بھی مطالبہ کیا ہے۔ کپیسیٹی چارجز سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ موجودہ شرح سود پر کوئی بھی قرضہ نہیں لے سکتا ہے، شرح سود کم ہونے سے حکومت کو بھی قرض پر سود کم ادا کرنا ہوگا لیکن حکمرانوں کو یہ بات کیوں سمجھ نہیں آرہی کیا جب انڈسٹری بند ہو جائے گی تب سوچا جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ معاشی استحکام آتا نہیں لیکن حکومت تبدیل ہوجاتی ہے۔ اپٹما کی ممبر شپ میں گیس پاور پلانٹ لگائے ہوئے ہیں۔ نجی بجلی گھروں کے لیے اب نئی پالیسی بنائی جارہی ہے۔ ملک میں کیپٹیو پاور کو گیس سپلائی بند کرنے کا پلان ہے۔
انہوں نے کہا کہ حکومت کی تجویز ہے کہ جنوری 2025 سے کپیٹیو پاور کو گیس کی سپلائی بند کی جائے۔ نوری آباد اور دیگر صنعتی زونز میں بجلی سپلائی کا مسائل ہیں۔ صنعتی علاقوں میں کیپٹو پاور پلانٹ سے ہی بجلی بنائی جاتی ہے۔ ان علاقوں میں بجلی کی ترسیل کا نظام بھی ٹھیک نہیں ہے۔
[ad_2]
Source link