[ad_1]
اسلام آباد: گو اسپیکر قومی اسمبلی نے پارلیمنٹ کی طرف سے الیکشن ایکٹ 2017ء میں آئینی ترمیم کے بعد پی ٹی آئی کو سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں مخصوص نشستیں نہ دینے کیلیے الیکشن کمیشن کو خط لکھ دیا ہے۔
تاہم سپریم کورٹ کے فیصلے میں واضح ہے کہ کوئی امکانی یا موثر باماضی کا قانون آئین کے آرٹیکل 9 سے28 تک میں دیے گئے بنیادی حقوق کو نہیں چھین سکتا۔
جسٹس منصورعلی شاہ کی طرف سے تحریرکیے گئے 41 صفحات کے فیصلے میں کہا گیا ہے کہ آئین کے ممنوعات اور تقاضے امکانی اور ماضی کے قوانین پر یکساں طور پر لاگو ہوتے ہیں۔
3 رکنی بینچ کے فیصلے میں کہا گیا ہے جب کوئی خاص معاملات کیلیے پہلی بار نیا قانون بنتا ہے تو اس کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ اس کا اطلاق مستقبل پر ہوگا،پہلے سے موجود قوانین متاثر نہیں ہوں گے۔ مقننہ کو ایسے قوانین جن اثرات ہوں بناتے وقت ان کی اچھی طرح چھان بین کرلینی چاہیے۔
قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ الیکشن ایکٹ 2017ء میں ترمیم موثر باماضی ہے جس نے پی ٹی آئی کو مخصوص نشستوں سے محروم کردیا ہے ۔ ایک سابق لا افسر کا سپیکر ایازصادق کے الیکشن کمیشن کو خط کے حوالے سے کہنا تھا کہ 12 جولائی کے عدالتی فیصلے میں آرٹیکل 51 کی وضاحت کردی گئی ہے کہ ایک سادہ قانون سازی سے سپریم کورٹ کے فیصلے پر عملدرآمد کو نہیں روکا جاسکتا۔
اسپیکرقومی اسمبلی نے یہ اقدام اٹھا کر اپنے اختیارات سے تجاوز کیا ہے۔سابق ایڈیشنل اٹارنی جنرل طارق محمود کھوکھر کا کہنا ہے کہ اسپیکرجس کے بارے میں خیال کیا جانا چاہیے کہ وہ غیرجانبدار ہوگا وہ فارم 47 کا غاصب ہے اپوزیشن ارکان کو ان کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانی چاہیے۔
اسپیکر آئین میں دیے گئے طریقہ کارکے مطابق ہی اپنے اختیارات استعمال کرسکتے ہیں۔کوئی بھی قانون جو آئین کے آرٹیکل 9 سے28 تک میں دیئے گئے حقوق سے متصادم ہو،اسے نہ تو پارلیمنٹ چھین سکتی ہے نہ کوئی صوبائی اسمبلی۔ پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلیاں کوئی ایسی قانون سازی نہیں کرسکتیں جن کا اثرات مؤثر باماضی ہوں۔عدالتوں کو ایسی قانون سازی کو روکنا ہوگا۔
[ad_2]
Source link