ڈیرہ اسماعیل خان کا شمار گرم ترین خطوں میں ہوتا ہے مگر یہاں سردی بھی بلا کی پڑتی ہے.پس موسم گرما کا دورانیہ بہت زیادہ جب کہ موسم سرما کا دورانیہ نہایت مختصر ہوتا ہے.گزشتہ سردی کی شدت ناقابل برداشت تھی ہی حالیہ گرمی بھی برداشت سے باہر ہے.
موسمی تبدیلیوں کے اثرات سے جہاں دیگر شعبہ جات متاثر ہو رہے ہیں. وہاں شعبہ زراعت بھی شدید متاثر ہو رہا ہے.ڈیرہ اسماعیل خان میں بھی ایسا ہی ہے.بارشوں کے اوقات بدل گئے.سیلابوں کی تباہی بڑھ گئی.آندھی طوفان بربادی مچا دیتے ہیں.سردی کی شدت اور گرمی کی حدت میں اضافہ زندگی کی بقا کے لیے خطرہ ہے.ایک طرف انسان و حیوان کو اپنی بقا کی جنگ لڑنی پڑ رہی ہے تو دوسری جانب فصلات، باغات، جنگلات اور دریائے سندھ کو بچانے کا مشکل مرحلہ درپیش ہے.
ڈیرہ میں پہلے کبھی بھی جنگلات کو اچانک آگ نہیں لگی تھی لیکن گزشتہ برس گرمی میں چشمہ روڈ پر جنگلات میں کئی مرتبہ اچانک آگ بھڑک اٹھی تھی.ڈھکی و درابن کلاں تحصیل میں کھجور اور پنیالہ میں آم کے باغات بھی متاثر ہو رہے ہیں.بے وقت برسات اور آندھی و طوفان کچے پھل کو گرا دیتے اور پکے ہوئے پھل میں کیڑے پڑ جاتے ہیں.کلاچی کے خربوزے کو بھی کیڑا خراب کر دیتا ہے.فصلات کی کاشت و برداشت ربیع و خریف ( خزاں و بہار) کے موسموں میں کی جاتی ہے مگر اب صورت حال نے پلٹا کھا لیا ہے.
ربیع یعنی ستمبر اکتوبر میں فصلات کاشت کی جاتی ہیں اور اس وقت کھیت کو پانی کی اشد ضرورت ہوتی ہے مگر بارشیں نہیں ہوتیں. خریف یعنی اپریل مئی میں فصلات پک جاتیں اور کٹائی کا موسم ہوتا ہے تو بے پناہ بارشیں برس پڑتی ہیں جس کے نتیجے میں بھاری نقصان ہو جاتا ہے.سردی و گرمی کے باعث فی ایکڑ پیداوار بھی گھٹ رہی ہے جو ڈیرہ میں پہلے ہی کم ہے.ڈیرہ میں مختلف فصلات اور مختلف علاقوں میں فی ایکڑ پیداوار مختلف ہے.
نہری علاقوں کی نسبت بارانی علاقوں میں کم ہے. اسی طرح نہری علاقوں میں نہروں کے آخر میں واقع کھیتوں تک پانی کی پوری مقدار نہیں پہنچ پاتی.وہاں بھی پیداوار نسبتا” کم ہوتی ہے.سیلابوں سے زرعی اراضی کی سطح بھی خراب ہو جاتی ہے. دریائے سندھ کے کنارے کچے کے علاقے میں زرعی اراضی کے کٹاؤ کے سبب زمین دار و کسان بے گھر و بے زمین ہو رہے ہیں.ان سارے سنگین و گھمبیر حالات سے نمٹنے کےلیے لازم ہے کہ حکومت اپنا کردار ادا کرے اور زمین داران و کاشت کاران اپنی ذمہ داریاں پوری کریں جب کہ دیگر شہری بھی موسمی تبدیلیوں کامقابلہ کرنے کے احساس سے کام لیں.
حکومت اگر کوہ سلیمان کے چودھوان، شیخ حیدر اور درابن کلاں زاموں پر چھوٹے آبی ذخائر کی تعمیر یقینی بنا دے تو زمین کی سطح متاثر ہونے سے محفوظ ہو جائے گی تاہم ایسے منصوبوں پربھاری وسائل اور طویل وقت صرف ہو گا اس لیے ضروری ہے کہ تب تک رود کوہی نظام بحال کر دیا جائے.آبادیوں کے گرد شہر پناہیں تعمیرکر دی جائیں.محکمہ زراعت زمین داروں و کاشت کاروں اور باغ بانوں کو مسائل و مشکلات، سردی گرمی، آندھی طوفان،برسات اور سیلابوں کے دوران حفاظتی اقدامات کے بارے میں شعور و آگہی دے.
موسم کے مطابق بیجوں، بوائی کے جدید طریقوں اور مناسب اوقات سے متعلق معلومات فراہم کرے.زمین دار و کسان زمین کی حفاظت،ہم واری،جدید بیجوں،بوائی اور کٹائی، آب پاشی،تھریشنگ اور غلہ ذخیرہ کرنے کے لیے مناسب اوقات اور جدید سائنسی طریقوں سے استفادہ یقینی بنائیں.مزید برآں یہ کہ کھیتوں کے کناروں پر پھل دار و غیر پھل دار درخت ضرور لگائیں.باغ بان بھی جدید طریقوں سے مستفید ہوں تا کہ درختوں اور پھلوں کو موسم کے مضر اثرات سے تحفظ فراہم کر سکیں.عام لوگوں کو بھی تیزی سے آنے والی موسمی تبدیلیوں سے لاتعلق نہیں رہنا چاہیے بالخصوص ہیٹ ویوز کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے.
اس کا سدباب عام لوگوں کی بھی ذمہ داری ہے چناں چہ انہیں ایسے اقدامات سے گریزاں رہنا چاہیے جو فضا کو آلودہ اور ماحول کو گرم کرے. مشاہدہ اور تجربہ ہے کہ لوگ کچرے سے جان چھڑوانے کے لیے اسے نذر آتش کر دیتے ہیں اور یہ افسوسناک سرگرمی شہروں و دیہی علاقوں میں عام ہو چکی ہے جب کہ اسلاف کےلگائے گئے درخت کاٹ پھینکے اور خود لگانے کی زحمت گوارا نہیں کی لہزا اب بھی وقت ہے کہ پھل دار و غیر پھل دار پودے لگائیں اور ان کی آب یاری کریں تاکہ بڑھتی ہوئی ناقابل برداشت گرمی سے بچا جا سکے.
موسمی تبدیلیوں کے جان لیوا اثرات سے تحفظ کے لیے قدرتی ماحول کی بحالی ناگزیر ہے اور قدرتی ماحول کو بحال کرنے کے لیے درختوں میں اضافہ لازم ہے تاکہ آکسیجن گیس زیادہ سے زیادہ مل سکے اور کاربن ڈائی آکسائیڈ جذب کرنے کے لیے جنگلات کا بہت بڑا ذخیرہ دست یاب ہو.اَسی طرح فصلات کی کاشت، کیمیاوی کھاد اور کیڑے مار ادویات کے استعمال سے بھی موسم پر برے اثرات پڑ رہےہیں.لہزا ایسے برے اثرات کا سدباب کرنا بھی ضروری ہے. مویشی بھی موسم کو متاثر کر رہے ہیں. ان کے پالنے سے موسم پر پڑنے والے اثرات کی روک تھام بھی ناگزیر ہے.