71

بھٹو کے اہم انکشافات اور پیش گوئی “اگر مجھے قتل کر دیا گیا”

کالم ۔۔سندھ کنارے۔۔تحریر۔۔ابوالمعظم ترابی

ذوالفقار علی بھٹو کی ان تحریروں کا مجموعہ ہے جو انہوں نے 5 جولائی 1977 سے 4 اپریل 1978 تک قید کے دوران جیل میں لکھیں۔فوجی حکومت نے ان کے اور ان کے ساتھیوں اور بیوروکریٹوں سمیت دیگر لوگوں کے خلاف ایک ہزار صفحات سے زائد پر مبنی قرطاس ابیض(وائٹ پیپر) شایع کیا تھا جس میں عام انتخابات میں دھاندلی سمیت دیگر سنگین الزامات عائد کیے گئے تھے۔بھٹو نے ان کے جوابات دیے۔

ان کی تحریروں کی اشاعت پر پابندی تھی مگر بعد ازاں ان کی کتب شایع کی گئیں جن میں مذکورہ کتاب بھی شامل ہے۔راقم نے بعض ایسے اور بعض ایسے انکشافات کیے جو عوام کی دلچسپی کا باعث ہو سکتے جب کہ یہ انداذہ لگانا آسان ہے کہ پاکستان میں نشیب و فراز آتے رہے اور سیاست کے رنگ بدلتے رہے۔اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت جاری رہی مگر نہیں بدلے تو عوام کے حالات نہیں بدلے۔

مارشل لا کے نفاذ کے بعد داخلی و خارجی اور سیاسی و اقتصادی صورت حال کیسے رہی؟ پاکستان اور افغانستان کے باہمی تعلقات کے عنوان کے تحت بھٹو لکھتے ہیں”تناو اور مصیبتوں سے لبریز جون 1976 کے پہلے ہفتہ میں افغانستان کے صدر سردار محمد داود نے پاکستان اور افغانستان کے مابین واحد سیاسی تنازع پر بحث اور اس پر سمجھوتے کے لیے مجھے کابل آنے کی دعوت دی تھی۔

کابل میں شدید بحث و مباحثہ کے بعد اس نتیجے پر پہنچے کہ افغانستان کی حکومت چاہتی تھی کہ پاکستان نیپ کے ان رہ نماوں کو رہائی دے دے جن کے خلاف حیدر آباد کے خصوصی ٹربیونل میں مقدمے چل رہے تھے اور اس کے عوض ڈیورنڈ لائن کو پاکستان اور افغانستان کے مابین بین الاقوامی سرحد تسلیم کر لیں گے۔میں اپنی جانب سے یہ اصرار کر رہا تھا دونوں اقدام بیک وقت ایک معاہدے کی صورت میں کئے جائیں” اس وقت نیشنل عوامی پارٹی کے سربراہ خان عبدالولی خان سمیت دیگر قوم پرست قائدین غداری کے مقدمات میں قید تھے اور انہیں سزا دینے کے لیے خصوصی ٹربیونل میں مقدمات زیر سماعت تھے۔

چناں چہ افغانستان کے صدر داود خان نے پیش کش کی کہ قوم پرست رہ نماوں کو رہا کر دیا جائے تو افغانستان ڈیورنڈ لائن تسلیم کر لے گا مگر مارشل لا نافذ ہونے کے بعد معاہدہ نہ ہو سکا۔”بھٹو کا مطلب یہ ہے کہ جس مسئلے کی بنیاد پر قوم پرست غدار کہلائے وہ معاملہ ہی جڑ سے ختم ہو جاتا۔افغانستان ڈیورنڈ لائن تسلیم کر لیتا تو اٹک تک پختونستان کا دعوی’ اپنی موت آپ مرجاتا مگر افسوس مارشل لا نافذ کر دیا گیا اور پھر یہ مسئلہ بھی اٹک گیا جو آج بھی پاکستان کے لیے سردردی کا باعث ہے۔

پاکستان اور بھارت کے مابین تعلقات کے عنوان کے تحت لکھا ہے۔” اگر شملہ معاہدہ میں کشمیر پر کوئی خفیہ شق ہوتی تو بہت عرصہ پہلے ہی اسے عوام کے سامنے لایا جا چکا ہوتا۔اندرا گاندھی اسے اپنی انتخابی مہم کے دوران آشکار کر چکی ہوتی۔جنتا حکومت برسر اقتدار آنے کے بعد اسے سب کے سامنے رکھ دیتی” بھٹو پر الزام عائد کیا گیا کہ انہوں نے شملہ معاہدہ کر کے جموں و کشمیر کا تنازعہ دفن کر دیا ہے۔اس سلسلے میں ان کی دلیل کافی وزنی ہے۔اگر ایسا ہوتا تو آں جہانی اندرا گاندھی انتخابات جیتنے کے لیے اسے استعمال کرتی لیکن ایسا نہیں ہو سکا لہذا ثابت ہو گیا کہ آمرانہ حکومت کا الزام جھوٹ پر مبنی تھا۔

جوہری پروگرام کے بارے میں بھی بھٹو پر کیچڑ اچھالا گیا حالاں کہ انہوں نے ہی اس پروگرام کی بنیاد رکھی۔اسے آگے بڑھایا اور فرانس کے ساتھ معاہدہ کیا اگرچہ امریکی تجویز کچھ اور تھی جسے بھٹو نے مسترد کیا اور فرانس نے بھی امریکی دخل انداذی پر ناراضی ظاہر کی۔اس حوالے سے وہ لکھتے ہیں کہ”مارچ 1976 میں شدید بحث مباحثے کے بعد فرانس اور پاکستان کے مابین نیوکلیئر ری پروسیسنگ پلانٹ کے معاہدے پر دستخط ہو گئے۔فرانس حفاظتی اقدامات پر مکمل طور پر مطمئن تھا۔۔۔۔وی آنا کے مقام پر بین الاقوامی اٹامک انرجی کمیشن نے اس معاہدے کی توثیق کر دی۔کمیشن میں شامل امریکہ کے ترجمان نے اس توثیق کے حق میں ووٹ دیا۔۔۔

میں نے اگست 1976 میں امریکہ کی جوابی تجویز کو مسترد کر دیا تھا۔اس موقع پر فرانسیسی حکومت نے امریکی مداخلت پر برہمی کا اظہار کیا۔” انہوں نے اپنے ساتھ ظلم و جبر اور ناحق زیادتیوں کے باوجود پاک افواج کے خلاف قدم اٹھانا تو درکنار کوئی ایسی بات بھی نہیں کی جس کی وجہ سے قومی دفاعی ادارے کے وقار پر آنچ آئے۔جیسا کہ آج کل ہو رہا اور کوشش کی جا رہی ہے کہ فوج کے خلاف عوام کو مسلح کر کے کھڑا کر دیا جائے۔ہائبرڈ وار اور ففتھ جنریشن وار کا سلسلہ آگے بڑھانے کی خاطر عوامی جذبات بالخصوص نوجوان نسل کو اشتعال دلوانے کی سعی جاری ہے۔بھٹو لکھتے ہیں کہ

“میں نے مسلح افواج کی شان اور شہرت کو بلند کرنے کے لیے جاں جو کھل میں ڈالی ہے۔اس وقت اگر میں چاہوں تو حمودالرحمان رپورٹ پر بے لاگ تبصرہ کر کے مسلح افواج کے نام کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا سکتا ہوں۔۔۔۔۔۔۔یہ رپورٹ مسلح افواج اور اس کے نظام مراتب کے خلاف فرد جرم عائد کرتی ہے۔۔۔۔۔یہ رپورٹ یحی’ خان اور اس کی ٹولی کی بھیانک سازش کو بے نقاب کرتی ہے۔”

دو غلطیوں سے ایک سچ نہیں بنتا کے عنوان کے تحت لکھتے ہیں۔”وائٹ پیپر کے صفحات 167 اور 168 پر مسمات رانی کا حوالہ دیا گیا ہے۔میرا رانی کے ساتھ کیا ناطہ ہو سکتا ہے؟فوجی جرنیل اس میں زیادہ دلچسپی رکھتے تھے۔وہ جنرل رانی کے نام سے مشہور ہے وہ جھانسی کی رانی کی طرح گجرات کی رانی ہے۔کمانڈر انچیف آف پاکستان جنرل آغا محمد یحی’خان نے فروری 1971 میں میرا جنرل رانی کے ساتھ تعارف کروایا تھا۔میں نے اپنے ساڑھے پانچ سالہ حکومت کے دوران اس سے ایک بار بھی ملاقات نہیں کی۔

اس نے مجھے کئی خط لکھے جس میں اس نے استدعا کی کہ میں اسے ملاقات کے لیے پانچ منٹ دے دوں۔۔۔۔جنرل رانی کے چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر کی نئی ٹیم کے ساتھ انتہائی شاندار روابط ہیں” جنرل رانی کا کردار تو اب طشت از بام ہو چکا ہے۔اس کی داستان زبان ذد عام ہے۔آمرانہ حکومت نے بھٹو کو جنرل رانی سے جوڑا تو انہوں نے جوابا” انکشاف کر دیا کہ جنرل رانی سے جنرل یحی’ خان کے تعلقات تھے اور وہ فوجی حکومت پر حکومت کر رہی تھی لیکن متحیرکن پہلو یہ ہے کہ جنرل ضیاء الحق نہ سہی ان کی ٹیم کے دلوں پر تو راج کر رہی تھی۔

دو غلطیوں سے ایک سچ نہیں بنتا کے موضوع پر لکھا ہے۔” موجودہ فوجی حکومت نے اپنے مشیر کو ٹھیکے سے نوازا ہے کہ وہ اپنی کمپنی کے بحری جہازوں کے ذریعے پا کستان میں گندم باہر سے لے کر آئیں۔جہاز رانی کا ایک ایسا حکومتی مشیر جو بذات خود اربوں روپے مالیت کے جہازوں کا مالک ہے۔اسے لاکھوں ٹن گندم برآمد کرنے کی اجارہ داری دے دی گئی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔حقیقت یہ ہے کہ اس وزیر جہاز رانی کو پچاس لاکھ ڈالر کا اضافی منافع اس شرح سے زیادہ دیا جا رہا ہے”یہ راز واضح کر رہا ہے کہ کسی من پسند کو نوازنے کے لیے حکومتیں لوٹ مار کی کھلی چھٹی دیتی رہتی ہیں۔کل بھی ایسا ہوتا تھا۔آج بھی ایسا ہی ہو رہا ہے۔عوام کو رعایات و سہولیات فراہم کرنے کے بجائے لٹیروں کو مواقع مہیا کرتی ہیں کہ وہ عوام کو خوب لوٹیں۔جنرل رانی کے بارے میں مزید لکھتے ہیں۔”بدعنوانیوں کی ملکہ عالیہ قلوپطرہ نے سرکس میں نشست حاصل کر لی ہے”یعنی محترمہ کو آمرانہ حکومت نے شریک اقتدار کر لیا ہے۔

Coup-gemony
کے موضوع پر لکھتے ہیں ” گزشتہ بیس برسوں میں جتنے بھی واقعات ہوئے ان کے بارے میں میرا واضح تجزیہ یہ تھاکہ اس وقت تیسری دنیا کے اتحاد و ترقی کو سب سے بڑا خطرہ فوج کا جبری طور پر حکومتوں پر قابض ہونا ہے۔نوآبادیاتی زمانے کا مکمل طور پر خاتمہ ہو چکا ہے۔صرف چند ایسے مقامات رہ گئے ہیں جہاں ابھی نو آبادیاتی نظام کو دفن کرنا باقی رہ گیا ہے۔دوسری جگہوں پر بھی تدفین کرنے کا وقت بہت قریب آ پہنچا ہے۔تیسری دنیا کو غیر ملکی تسلط کے خلاف جدوجہد کرنا ہو گی اور اس تسلط کے خلاف بہترین دفاع یہ ہے کہ فوج کو منتخب حکومتوں کا تختہ الٹنے سے روکا جائے۔

بیرونی نو آبادیاتی نظام کا تعلق اندرونی نو آبادیاتی نظام سے ہوتا ہے اور یہ غیر ملکی تسلط ہماری زمینوں پر اس وقت پھل پھول سکتا ہے جب غیر ملکی تسلط اور فوج کا حکومت پر قبضہ کرنے کا تعلق آپس میں گہرا ہو جائے۔ فوج کا منتخب حکومت کا تختہ الٹنا قومی اتحاد کا بدترین دشمن ہے” اس کا مطلب واضح اور صاف ہے کہ کسی بھی ملک میں جمہوریت کی بساط لپیٹنے اور آمریت مسلط کرنے کے لیے داخلی عناصر سہولت کاری کرتے اور بیرونی قوتیں کردار ادا کرتی ہیں اور یوں اس ملک کی تباہی و بربادی کا سامان مہیا کیا جاتا ہے۔غریب و ترقی پذیر ممالک میں یہی مشق جاری ہے۔

آگے لکھتے ہیں”جب میری باری آئی تو میں نے اپنی باریک آواز میں کہا” ہز ایکسی لینسی گورنر خوب صورت ہیں کیوں کہ وہ ہمارے خوبصورت خون پر پلتے ہی۔لارڈ برابورن حیران و پریشان رہ گیا۔۔۔ وہ میرے والد کی طرف مڑے اور کہا ” او سر شاہ نواز آپ نے اس کی شکل میں ایک شاعر اور انقلابی کو پا لیا ہے”۔۔۔اور اس سارے عرصے میں میں ایک شاعر اور ایک انقلابی رہا ہوں اور یہی کچھ میں تادم مرگ رہوں گا”یہ واقعہ برطانوی دور تسلط کا ہے۔ لارڈ برابورن ممبئی کا گورنر تھا۔بھٹو اور ان کے بھائی اپنے والد سر شاہ نواز کے ہم راہ ملے تھے۔تب بھٹو نے لڑکپن میں ہی قابض و غاصب سرکار کے گورنر کے بارے میں صاف بات کہی کہ وہ ہندوستانی عوام کا خون چوس کر خوب صورت ہوئے ہیں۔

بختیار فارمولہ کے عنوان کے تحت لکھتے ہیں۔” پہلے مارشل لا کے دور میں پاکستان میں پہلی بار منظم اور وسیع پیمانے پر کرپشن کرنے کا آغاز ہوا تھا۔۔۔۔میں فخر سے کہہ سکتا ہوں میری ایمانداری شک و شبہ سے بالاتر ہے۔میں اس وقت کی فوجی حکومت کے ان چند رہنماوں میں سے ایک تھا جس کا دامن ہر قسم کی کرپشن سے صاف تھا۔۔۔۔میرے اندر بہت ساری خامیاں ہیں۔میں نے عظیم الشان عوامی اجتماعات کے اندر اپنی ان کمزوریوں کا برملا اعتراف کیا ہے۔میں غلطیوں سے بھرا پڑا ہوں۔میرے اندر کوئی بھی غلطی ہو سکتی ہے لیکن میں ایک کرپٹ انسان نہیں ہوں۔”بھٹو کی یہ بات درست ہے کہ وہ اپنی کم زوریوں کا برملا اظہار کرتے تھے جب کہ آمرانہ تسلط کے نتیجے میں مالی بدعنوانیوں کا سلسلہ تیز ہوا۔گو کہ کم زور ترین بل کہ برائے نام جمہوری ادوار نے بھی بدعنوانیوں کے ریکارڈ قائم کر دیے ہیں۔

سبق جسے سیکھنا ضروری ہے کے موضوع کے تحت لکھا ہے۔”پی این اے کے رہنما نواب ذادہ نصراللہ خان نے جب اپنی حفاظتی تحویل سے رہائی پائی انہوں نے اس وقت یہ تسلیم کیا تھا کہ 4 جولائی 1977 کو حکومت اور حزب اختلاف کے مابین ایک معاہدہ طے پا چکا تھا۔اس دن دس بجے صبح میں اپنے سارے اعتراضات واپس لے چکا تھا۔اگلے دن معاہدے پر دستخط ہونے تھے۔”جماعت اسلامی کے مرحوم رہ نما اور مذاکراتی کمیٹی کے رکن پروفیسر غفور احمد نے بھی انکشاف کیا تھا کہ معاہدہ طے پا چکا تھا مگر دست خط رہ گئے تھے اور مارشل لا نافذ ہو گیا۔

آخری دستاویز(نوکر شاہی کے فروغ اور داو پیچ کی اندرونی کہانی) کے موضوع پر لکھا ہے”بھارت اور پاکستان کے درمیان 1965ء کی جنگ کے بارے میں بہت کچھ لکھا گیا ہے۔ان میں سے کچھ چیزیں شائع ہو گئی تھیں جب کہ زیادہ تر تحریروں کو ایوب خان نے دبا دیا تھا۔ان کے جانشین یحی’ خان جنہوں نے ایوب خان کے احکامات پر چھمب سیکٹر میں قابل اعتراض کردار ادا کیا تھا انہوں نے اختور کی طرف پیش قدمی کے دوران ملزم قرار دینے والی شہادت کو تباہ کر دیا تھا۔جنرل اختر ملک اس اہم سیکٹر کے فیلڈ کمانڈر تھے،وہ اختور پر قبضہ کرنے کے لیے راستے میں تھے۔اختور جموں میں ایک اہم حربی قصبہ تھااس پر قبضہ کر کے بھارت کی کم از کم ایک ڈویژن کی پیش قدمی کو روکا جا سکتا تھا۔جنرل اختر ملک فیصلہ کن حملے کی تیاری کر ہی رہے تھے کہ اچانک انہیں ٹرانسفر کر دیا گیا۔اور کمانڈ جنرل یحی’ خان کے سپرد کر دی گئی۔جنہوں نے کوئی پیش قدمی نہیں کی۔اختر ملک کو انقرہ میں سینٹو ہیڈ کوارٹر ٹرانسفر کر دیا گیا جہاں وہ چند سال بعد پراسرار طور پر کار حادثے میں مارے گئے۔۔یہ 1965ء کی جنگ کے اسراروں اور غلطیوں میں سے ایک غلطی اور اسرار تھا اور بہت ساری بھی ہیں۔چائنہ کی طرف سے دیئے گئے الٹی میٹم کو نافذ العمل نہ کرنا اور پسپائی ایک دوسری غلطی تھی۔۔۔۔۔

راولپنڈی جی ایچ کیو میں جو بگاڑ پیدا ہو چکا تھا وہ ہمیں مچھلی منڈی کی یاد دلاتا تھا۔فوجی انٹیلی جنس کی ناکامی بہت زیادہ تکلیف دہ تھی۔۔۔۔۔مختصرا” تمام تباہ کن غلطیاں جن کے بارے میں سوچا جا سکتا تھا وہ سب کی سب پاکستانی فوج کی قیادت سے سرذد ہوئیں تھیں۔اگر فوج کے نوجوان جوانمردی کا مظاہرہ نہ کرتے تو خدا جانے اس ملک کے ساتھ کیا ہو جاتا۔۔۔۔ان سب ناقابل فراموش غلطیوں کے باوجود جب پاکستانی افواج جارحیت کا جواب دینے کے لیے تیار ہو گئیں تو فیلڈ مارشل پر جنگ بندی کے لیے غیر ملکی دباو ڈالا گیا۔وہ کون ہو گا جو اس خوفناک المیہ سازشوں پر نہیں رویا ہو گا؟۔۔۔۔۔راز کو راز ہی رکھنا چاہیے۔یہ ناقابل اعتراض ہے لیکن جو چیز قابل اعتراض ہو سکتی ہے وہ یہ ہے کہ ایک ایسی چیز جس کا علم پوری دنیا کو ہو جائےاور اس کے بارے میں یہ بناوٹی رویہ رکھنا کہ یہ چیز ابھی تک ایک راز ہے۔ایک اندر کے آدمی کو ان ساری وجوہات کے بارے میں سوجھ بوجھ ہےکہ فوجی اسٹیبلشمنٹ کو چیزوں کو راز میں رکھنے کا جنونی شوق ہے۔۔۔۔۔

پاکستان کی مسلح افواج جتنا خود کو سیاست میں ملوث کرتی گئیں جنگ کے میدان میں غلطیاں اور بدقسمتیاں کئی گنا بڑھتی گئیں۔”یہ بڑا اہم انکشاف ہے کہ جنرل یحی’ نے بھیانک کردار ادا کیا اور جنرل ایوب نے بیرونی مداخلت پر جنگ بندی کر کے فوجی جوانوں کی فتح یابی کو خاک میں ملا دیا۔سیاست میں دلچسپی نے فوجی مہارت کو شدید متاثر کیا اور فاش غلطیاں کی جاتی رہیں۔بھٹو کے انکشافات ہمیں سوچنے،غلطیوں سے سیکھنے اور فوج کو سیاست سے مکمل طور پر دور رکھنے کی جانب متوجہ کر رہے ہیں۔اگر پاک وطن کی تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو بھٹو کی پیش گوئی درست ثابت ہو رہی ہے۔پاکستان جس دو را ہے پر کھڑا ہے وہ خبردار کر رہا ہے کہ اپنی منزل کا تعین کرنے کے ساتھ ساتھ فوری فیصلہ کر لیا جائے کہ بیرونی مداخلت،اندرونی سازشوں،غیر جمہوری رویوں،سیاسی شعبدہ بازیوں اور مالی و اخلاقی برائیوں کا خاتمہ یقینی بنائیں ورنہ آج وقت ہاتھ سے نکل گیا تو کل ہمیں سنبھلنے کا موقع بھی نہیں مل پائے گا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں