[ad_1]
لاہور: قومی ایئر لائن (پی آئی اے) کی نجکاری کا معاملہ ایک بار پھر کھٹائی میں پڑ گیا، نجکاری میں حصہ لینے والی چھ کمپنیوں نے پی آئی اے کے 60 فیصد کے بجائے 100 فیصد شیئرز کا مطالبہ کر دیا جبکہ ملازمین کی مدت تین سال اور پینشن نہ دینے پر بھی تحفظات سامنے آگئے ہیں۔
پی آئی اے ذرائع کے مطابق نجکاری کمیشن کو ان تحفظات کے بعد مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے اور انہی مشکلات کے پیش نظر پہلے یکم اکتوبر کو کمپنیوں نے بولی دینی تھی پھر 30 اکتوبر کی تاریخ فائنل کی گئی مگر ابھی تک مزید تحفظات آنے پر نجکاری کا معاملہ کھٹائی میں پڑ چکا ہے۔
حکومت کسی صورت 100 فیصد شیئرز کمپنیوں کو نہیں دے گی، پہلے 60 فیصد کی بات چل رہی تھی اب 75 فیصد کی بات چل رہی ہے اور 75 فیصد پر ہی ان کمپنیوں کو راضی کیا جائے گا۔ اگر یہ کمپنیاں راضی نہ ہوئیں تو پھر پی آئی اے کی نجکاری کا معاملہ مؤخر کر دیا جائے گا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ جن کمپنیوں نے جو اعتراضات اور تحفظات اٹھائے ہیں ان کو نجکاری کمیشن دور کرنے میں کامیاب ہوتا ہے یا نہیں۔
دوسری جانب، نجکاری کمیشن حکام کا کہنا ہے کہ ہمارے پاس متعلقہ کمپنیوں کی طرف سے کسی قسم کے نئے تحفظات سامنے نہیں آئے اگر آئیں گے تو اس پر غور و فکر کرنے کے بعد ہی فیصلہ کیا جائے گا، ابھی پی آئی اے کی فائنل بڈنگ نہیں ہوئی ہے اور جب تک کچھ فائنل نہیں ہو جاتا اس وقت تک کچھ نہیں کہا جا سکتا۔
پی آئی اے ملازمین اور افسران کو بھی پی آئی اے کی نجکاری سے بہت سارے مسائل کا سامنا ہے۔ اگر پی آئی اے سے زیادہ سے زیادہ شیئرز خریدنے والی کمپنی ملازمین کی مدت تین سال سے کم اور پینشن سمیت دیگر مراعات نہیں دیتی تو ان کا کیا بنے گا۔
ادھر، بولی دینے والی کمپنیاں کہتی ہیں کہ 500 سے 600 ملین ڈالر کی انویسٹمنٹ بھی کرنی پڑے گی جو اسی صورت ممکن ہے جب 100 فیصد شیئرز ان کے پاس آئیں کیونکہ اس وقت پی آئی اے کے پاس جو جہاز ہیں ان میں سے زیادہ تر لیز پر ہیں اور پرانے ہیں جن کی آپریشنل کاسٹ زیادہ آتی ہے۔ آپریشنل کاسٹ کو کم کرنے کے لیے نئے جہاز بھی لینا ضروری ہیں اور یہ سب اسی وقت ممکن ہوگا جب سارا عمل صاف شفاف ہوگا۔
[ad_2]
Source link